اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سوشلزم کہلاتی محبت کے نام….(1)||ملک رزاق شاہد

واہ واہ۔۔۔ یہ فقرہ تو گویا قبیلہ عاشقاں میں قبولیت کی سند ہے۔ میری عمر کے کتنے سارے لوگ واپس جوان ہونا چاہتے ہوں گے، اور اسی فقرے کا تمغہ اپنے سینے پر لگانا چاہتے ہوں گے ۔مگر ہر سینے کی قسمت میں ایسی نعمت کہاں !

رزاق شاہد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"ادراک بخشتی،
شعور جگاتی،
اشرف بناتی،
آتشی بڑھاتی،
ہمدردی بکھیرتی،
قربانی کرواتی،
ذات کو کائنات میں ڈھالتی،
برابری دیتی،
تخلیق کرواتی،
رحمتیں اتارتی،
جھنکار سناتی،
رنگ بانٹتی،
خوشبو لڑھاتی،
مُسکان بکھیرتی،
لوری بُنتی،
دل شوالے بناتی،
من کعبے کرتی،
نروان دیتی،
صوفی بناتی،
جوگی ڈھالتی،
اور
سوشلزم کہلاتی
محبت کے نام….”
یہ ہے پیش لفظ کیوبا کو سامراجی چنگل سے آزاد کرانے والے کاسترو کی سوانح کا.
آج اسے لکھنے والے شاہ محمد مری کی کتابوں کو گلے سے لگاتے ہیں، دل میں اتارتے ہیں اور خوشبو کی طرح فضاؤں میں پھیل جاتے ہیں.
کہاں سے شروع کریں
” چین آشنائی” یا
"بلوچستان کی ادبی تحریک” سے
"مستیں توکلی” سے نظر ہٹتی ہے سامنے "چے” مسکرا رہا ہے.
شاہ عنایت شہید کے انقلاب میں تو پورا "عشاق کا قافلہ” شامل ہے.
جب خوشبو پھیلی ہو بہار کے رنگوں سے زمین رنگین ہو تو پھر جہاں نظر جائے جس طرف دیکھیں… خود کو معطر ہی پائیں گے.
چلیں پہلے "چین آشنائی” کو ہاتھوں میں لیتے ہیں.
شاہ لطیف کی اس خواہش کے ساتھ شروع ہونے والی یہ کتاب
دو ہزار چھے میں سفرِ چین کی داستان ہے
بلوچوں کے نشاں محفوظ رکھنا،
میرا سعی طلب ملحوظ رکھنا.
ہیش لفظ میں شاہ محمد لکھتے ہیں
"امریکہ بد مست پاور ہے ۔
یہ دنیا اس کی بپا کردہ جنگ و جدل کی دنیا ہے، آہیں کراہیں ، خون ریزی، اور تباہی رقصاں ہے ۔ اور انسانیت مذلت کی جانب دھکیلی کا جا رہی ہے ۔فکری و نظریاتی کنفیوژن کا دور دورہ ہے۔ جھوٹ حاوی ہے، امن پسندی کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، پاکی پاکیزگی گوشہ کی طرف دھکیلی جا رہی ہے ۔ لاٹھی حکمران ہے ، وسائل بری طرح لوٹے جا رہے ہیں ۔ اور انسانی اقدار کچلی روندی جا رہی ہیں ۔۔۔۔۔۔ چین کا ہمارا سفر ایسے موقع پر ہوا ہے”
جہاز اڑا سفر شروع ہوا تو جہاز میں کیا ہوا.
"کھانے کا وقت ہو جاتا ہے ۔میرا دوست اپنا دل ، اپنی آنکھیں نثار کیے ملائم و شریں و عاجز ترین آواز میں اس کی زبان میں اس سے بات کرتا ہے ۔۔۔۔۔ان پہ، اور ان کے طفیل مجھ پہ ، من و سلوی کی بارش ہو جاتی ہے ۔ قیامت کھڑی کرنے والی ساقی بن مانگے اورینج جوس کے کوثر کا حوض سامنے رکھ دیتی ہے ۔اس کے چھوٹے چھوٹے خوبصورت شفاف ہاتھ خوراک کی میز پر ایسے حرکت کرتے ہیں جیسے فلسفی غنی کی محبوبہ پیانو بجا رہی ہو ۔ میرا دوست تو نگاہِ کرم کے ہاتھوں اسی جوس کے نشے سے سرور میں آ جاتا ہے ۔ اوجھل ہوتی ہے تو آنکھ لگ جاتی ہے ، جلوہ افروز ہوتی ہے تو دیدے پھٹ پھٹ جاتے ہیں ۔ چولستان کے سے بادلوں کی بس ایک بجلی چمکی اور پھر پانچ سال تک ایک جھلک بھی نہیں ۔ خشک آبہ والوں کی نادیدگی کی دید نہ حسن کو ٹکنے دیتی ہے نہ بادلوں کو آنے دیتی ہے اور نہ رحمتوں کو برسنے دیتی ہے ۔ ہر نعمت کا حمل ضائع ہو جاتا ہے ہمارے وطن میں ۔ کاش بلوچ پٹھان کی آنکھوں میں جنموں پرانی پیاس اور بھوک نظر آنا چھوڑ دیں ۔البتہ آج دس ہزار میٹر کی بلندی پہ جا کے یہ عقدہ ضرور کھلا کہ عام سے پٹھان کو خوشحال کون بناتا ہے ؟ حبیبی ،ترکئی، ناشناس ، غنی خان کون بناتا ہے ؟ رحمان بابا کس پراسیس میں ڈھلتے ہیں ؟ ارے حسن ہی تو ہے اس قوت کا نام ۔
غنی خان حسن کو سببِ مرگ ، ضرورتِ حیات ، تعریفِ گناہ ، وجودِ عشق ، راز محبت ، لذتِ سوز اور سازِ مستی کہہ کر بیان کرتا ہے”
اچانک "مست کے نظامِ شمسی کے سورج” میری سمو رانی کی کرنوں سے آنکھیں چندیا گئیں
رستانی پہاڑ پر نور بکھیرتی کرنوں کا احوال شاہ محمد سے سنتے ہیں
"پُر اعتماد سمو نے بزرگ سفید ریش کی بات کو عزت دی اور ملاقات کا دن طے ہوا ۔تب بہار خان نے مست سے کہا، آؤ تمہیں سمو سے ملوا دوں ۔ دو دوست مسافت طے کر کے ماوند سے سمو کے علاقے رسترانی گئے۔ اور ایک ٹیکری پر واقع سمو کے خیمے سے اترائی میں ذرا دور ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر اس کا انتظار کرنے لگے۔
نظریں ٹیکری پہ موجود خیمے پہ مرکوز، ہپناٹائزڈ ۔۔۔ جونہی سرزمین محبت کی شہزادی اپنے خیمے سے روانہ ہوئی اور مست و بہار خان سے محض تیر کش کے فاصلے تک پہنچ گئی تو یہاں مست بیہوش ہوگیا۔ خاتون قریب آئی، اسے بے ہوش دیکھا تو اس کا نام لے کر پکارا ، "توکلی ۔۔۔۔۔توکلی” مگر کوئی سُدھ، کوئی افاقہ نہیں۔ وہ یونہی بے سُدھ نیلا پڑا ہوا تھا ۔ منہ پہ جھاگ۔ کوئی ہوش کوئی سوجھ نہیں۔ محبت کی دیوی نے اس کا سر اپنی گود میں رکھا ، "نذغ”و "مزن سر ” و "گن” کی خوشبودار جھاڑیوں سے معطر ہاتھوں نے اس کی آنکھوں ، بالوں اور چہرے کو سہلایا ، فائدہ کچھ نہیں، افاقہ کچھ نہیں ۔ مہذب انسان کچھ دیر بیٹھی رہی ۔
حسن خود عشق بیماری کے تھپیڑے کا شکار تھا، وہ کسی کی تقدیر کیا بدل پاتا۔ پیار کی ملائم طاقت کے سامنے صرف درندے شکست نہیں کھاتے ، سمو تو اشرف المخلوقات کی بھی اشرف رکن تھی اس نے سر کو خم دے کر پیار کے دیوتا کی کمٹ منٹ کے چرن چھوئے اور بہار خان سے کہا "ابّا(بھائی، بیٹا ) یہ اب کسی کام کا نہیں رہا”۔
واہ واہ۔۔۔ یہ فقرہ تو گویا قبیلہ عاشقاں میں قبولیت کی سند ہے۔ میری عمر کے کتنے سارے لوگ واپس جوان ہونا چاہتے ہوں گے، اور اسی فقرے کا تمغہ اپنے سینے پر لگانا چاہتے ہوں گے ۔مگر ہر سینے کی قسمت میں ایسی نعمت کہاں !
سینٹ سمو توکلی کی سینٹ ہوڈ کی تصدیق کردی
"مائی ،تمہیں اجازت ہے”
جواب تھا بہار خان کا۔
آسمان کا چہرہ پڑھ لینے والے ہیں تو بہار خان کہلواتے ہیں کہ مست کا ساتھ کسی ڈفر ،کسی غبی کو کیا نصیب ہوگا؟
کوہ سلیمان کی لیلی چلی گئی اور جونہی وہ اپنے مہذب خیمے میں داخل ہوئی تو ادھر مست کو ہوش آگیا ۔
بہار خان نے پوچھا: "توکلی کیا ہو گیا تھا؟ ۔۔۔۔۔۔ سمو سمو کرتے تھے۔ سمو آئی تو بے ہوش ہوگئے۔ وہ بیٹھ بیٹھ کر بالآخر چلی گئی”۔
کہا:” بہار خان!
سمو ۔ دوست تھی، آنکھیں ملیں ملاقات ہو گی۔ اس نے مجھے دیکھا میں نے اسے دیکھا، بس ہوگیا وصل”۔
تب رسترانی پہاڑ کی چوٹی کے اوپر اڑتی بدلی نے، پرپغ کے پھول پہ بیٹھی تتلی نے ،بارش کے پُرخ نامی ننھے قطرے نے، افق سے افق تک کھچی قوسِ قضا کی لکیر نے، بلوچ کی غربت کی علامت واحد بھیڑ کے گلے میں بندھی گھنٹی نے، اور رسترانی کی بے کراں خاموشی نے بہار خان کے کان میں اذان دی:” مست ولی ہے ۔۔۔۔۔مست درویش ہے۔۔۔۔۔۔ مست فلسفی ہے۔۔۔۔۔۔ مست عشق ہے”۔
ایک جھلک دیکھی کشتی ڈبو بیٹھا،خیمے کا ہیولا دیکھا تو منزل پا گیا، اتنی مختصر گھڑی میں اور اس قدر آٹومیٹک انداز میں خاکی توکلی کو ،آفاقی مست بنا دیا گیا۔کدھر ہے ریاضت، کہاں ہے میرٹ؟ ارے بابا عشق کے دربار میں اپوائنٹمنٹ آرڈرز، انٹرویو سے صدیوں پہلے ہی ٹائپ ہو چکے ہوتے ہیں۔معروض و موضوع راہبر کے منظر عام پر آنے سے بہت پہلے کمیٹی کروائی جاری رکھے ہوتے ہیں۔مہر یونیورسٹی کے اس پر وقار کانوکیشن کے بعد مست اور بہار خان وہاں سے لوٹ آئے بہار خان کی ڈیوٹی گم نامی کی لگی اور مست دائمی پائیداری اور کائنات کی ابدی شہریت کا "کارڈ ہولڈر "بنا۔ دونوں مہر کے ہاتھوں سے ودیعت کردہ اپنی اپنی ڈیوٹی میں جُت گئے۔
مست ایسے کام میں لگ گیا جہاں قرار اور آرام کا گزر نہیں ہوتا۔ اپنے مشن میں ایسے منہمک کہ آج، موت کے دو سو سال بعد بھی اپنی پارٹی کی ممبر شپ مہم میں مگن ہے۔ میں اور اے میرے قاری آپ ، اس کی پارٹی کے latest ممبرز بنے ہیں !! مبارک ہو ۔”
جاری ہے۔۔۔

یہ بھی پڑھیے:

مولانا بھاشانی کی سیاست۔۔۔ رزاق شاہد

گلاب چاچا تُو اکیلا کبھی نہیں آیا،ملک رزاق شاہد

پیارے بلاول!! تم نے تاریخ تو پڑھی ہو گی۔۔۔ رزاق شاہد

ملک رزاق شاہد کی مزید تحریریں پڑھیے

 

%d bloggers like this: