مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

‎ ”گڈ فیل“ : سیاسی معیشت کا دیوالیہ پن (مکمل کالم)||امتیاز عالم

ہماری زراعت چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹی ہے یا پھر جاگیرداروں کے اضافی معاشی جبر کی نذر ہے۔ اب عمران حکومت میں ہم خوراک میں بھی محتاج ملک بن گئے ہیں۔

امتیاز عالم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فقط چند ہفتوں میں وزیر خزانہ شوکت فیاض ترین کی فیاضی ہے کہ مالی و مالیاتی خزاں میں بھی انہوں نے ”گڈ فیل“ کی موہوم امید کی لو لگا دی ہے، بھلے آئندہ منتخب ہونے والوں کو ویسے ہی ہاتھ ملنے پڑیں جیسا کہ وزیراعظم عمران خان کو تقریباً تین سال ملنا پڑے۔ بیچاری حزب اختلاف بھی دانت پیس کے رہ گئی کہ کہے تو کیا کہ اس کا معاشی فکری ڈھانچہ بھی وہی ہے جس کا سوتا نیو لبرل معیشت کے واشنگٹن اتفاق رائے سے پھوٹتا ہے۔ ایسے میں بلاول بھٹو کی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں فقط 10 فیصد ایڈہاک اضافے اور کم از کم اجرت 20 ہزار روپے مقرر کرنے کے خلاف دہائی سماجی ویرانے میں ایک چیخ کے سوا کچھ نہیں۔ اب بھلا دست نگر معیشت کے بحرانی حالات میں کوئی بجٹ بنائے بھی تو کیسے جس میں 8.5 کھرب روپے کے بجٹ میں بجٹ خسارہ تقریباً آدھا یعنی 4 کھرب روپے ہوگا (جی ڈی پی کا 7.4 %) جو 4 کھرب کے نئے قرضوں سے پورا کیا جائے گا۔ بظاہر تو آئی ایم ایف کی شرائط نہ ماننے کا دعویٰ کیا گیا ہے، لیکن عالمی مالیاتی ادارے سے 3.1 ارب ڈالرز یعنی 496 ارب روپے ملنے کی امید باندھی گئی ہے۔ تنخواہ دار طبقے پر 150 ارب روپے کے آئی ایم ایف کے مطالبے کو ٹیلی فون، انٹرنیٹ اور پٹرول لیویز کے ذریعہ پورا کر لیا گیا ہے اور 383 ارب روپے کے نئے بالواسطہ ٹیکس عائد کر دیے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ نے اگر کوئی مالیاتی رسہ تڑایا بھی ہے تو وہ صرف یہ کہ 2023 ءکے انتخابات کے لیے حکمران جماعت کی سیاسی ضروریات کے پیش نظر پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں 40 فیصد اضافہ کر کے اسے 900 ارب روپے کر دیا گیا ہے اور 64 ارب روپے علیحدہ سے وزارت خزانہ کے پاس رکھ دیے گئے ہیں کہ اراکین اسمبلی کے ترقیاتی منصوبے شروع کیے جاسکیں اور بجٹ پاس کروانے کے لیے ترین گروپ سمیت ناراض اراکین کے ووٹ حاصل کیے جاسکیں۔ اگر مراعات اور رعایات دی گئی ہیں تو صرف سرمایہ دار طبقے کو اور محنت کش اور تنخواہ دار لوگوں کو غربت کی اجرتوں پہ سسکنے کے لیے بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔ بس ایک ثانیہ نشتر ہیں جنہوں نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی لاج احساس کی تختی تلے 260 ارب روپے کے خیراتی پروگراموں کے ذریعہ برقرار رکھی ہے۔ ذرا وفاق کی مالی حالت ملاحظہ ہو: وفاق کے پاس نقد 4.4 کھرب روپے میں سے 3.1 کھرب قرضوں اور سود کی ادائیگی کے بعد بچے 1.4 کھرب روپے، جبکہ دفاع پر 1.370 کھرب روپے خرچ کرنے کے بعد 100 ارب خسارہ رہ جاتا ہے۔ اب خیر سے سول انتظامیہ ( 479 ارب) اور پنشنر پہ ( 480 ارب) خرچ (جس میں مسلح افواج کی پنشنر ( 360 ارب) بھی شامل ہیں ) اور سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے سرکاری خزانے میں ایک ٹکہ نہیں بچتا۔ ان مخدوش مالی و مالیاتی حالات میں کوئی وزیر خزانہ کوئی کرتب دکھائے بھی تو کیا سوائے اعداد و شمار میں ہاتھ کی صفائی کی مہارت کے۔ 7.4 فیصد کا بجٹ خسارہ اگر پورا ہوگا بھی تو تب اگر 5829 کے وفاقی آمدنی کے اہداف پورے ہوں جو کہ ممکن نہیں اور بشرطیکہ صوبے 570 ارب روپے بچا کر وفاق کا خسارہ پورا کریں۔ 506 ارب روپے کے اضافی ٹیکس کا ‎دعویٰ تو کیا گیا ہے جو پورا ہوتے دکھائی نہیں پڑتا۔

کوئی بھی وزیرخزانہ کسی بھی حکومت میں سرمایہ کاری اور مجموعی قومی پیداوار کی 15.2 % کی شرح، بچتوں کی جی ڈی پی میں 15.3 % کی شرح اور ٹیکسوں کی جی ڈی پی میں 10 % کی شرح کے ہوتے ہوئے کسی بھی پائیدار نشو و نما کی یقین دہانی نہیں کرا سکتا۔ ترقی کے موجودہ خواص نواز ماڈل کے ہوتے ہوئے کسی بھی طرح کی عوامی فلاح، تعلیم و صحت کی فراہمی اور انسانی سلامتی ممکن نہیں۔ اور بغیر انسانی مساوی ترقی کے کوئی آزاد و خوش حال سماج تشکیل نہیں پا سکتا۔

‎پاکستان میں تقریباً ہر حکومت کے دور میں پہلے ‎رسد کو قابو کرو اور بعد ازاں رسد کو بڑھاؤ کا مالی چکر چلتا رہا ہے۔ ہر حکومت پہلے گزری حکومت کے خسارے پورا کرنے کے لیے طلب کی کمر کستی ہے اور اگلے انتخاب میں ”گڈ فیل“ کی فضا بنانے کے لیے رسد کے رسے کھولتی رہی ہے۔ یہی عمران حکومت کر رہی ہے جو پہلی حکومتیں کرتی رہی ہیں اور آئندہ آنے والی بھی اسی چکر کو دہرائے گی۔ اس گھن چکر میں کوئی حقیقی پیداواری معیشت کی کنگالی و پسماندگی دور کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کرتا ہے نہ ہمہ نو پائیدار ترقی کی جانب پیش رفت کا سوچتا ہے۔ بس وقت گزارو اور اپنا اپنا کرایہ کماؤ اور گھر کو جاؤ والا معاملہ ہے۔ غیر پیداواری ریاستی اخراجات ہیں کہ بڑھتے جاتے ہیں اور مفت خور استحصالی طبقات، محنت کشوں کی پیدا کردہ زائد قدر کو زیادہ سے زیادہ بٹور کر سرکاری خزانے میں اپنے واجب محصولات جمع کرانے پہ مائل نہیں۔ ملکی آمدنی اور اخراجات میں بڑھتی ہوئی تفاوت کو اندرونی و بیرونی قرضوں سے پورا کیا جاتا ہے جو گزشتہ تین برس میں 13 کھرب روپے کے اضافے سے 38 کھرب روپے ہو چلا ہے جو اگلے دو برس میں 2018 ءکے مقابلے میں دو گنا ہو جائے گا۔ لمحہ فکر یہ ہے کہ مسلم دنیا کی واحد نیوکلیئر پاور کی کل قومی آمدنی بمشکل 300 ارب ڈالرز ہے اور اس پر طرہ یہ کہ ہم سب ہمسایوں کو تگنی کا ناچ نچانے کے لیے جانے کون کون سے سٹریٹجک عزائم کے سایوں کا تعاقب کرتے کرتے نڈھال ہوئے جاتے ہیں۔

‎ہماری زراعت چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹی ہے یا پھر جاگیرداروں کے اضافی معاشی جبر کی نذر ہے۔ اب عمران حکومت میں ہم خوراک میں بھی محتاج ملک بن گئے ہیں۔ صنعت محض روزمرہ اشیائے صرف کی پیداوار تک محدود ہے اور صنعتی پیداوار ہر طرح کے خام مال سمیت درمیانی اشیا کی درآمدات کی محتاج ہے۔ برآمدی صنعت کے شعبے ٹیکسٹائل اور چمڑے تک محدود ہیں یا پھر چاول اور فروٹ کی برآمدات ہیں۔ ایوب خان کی درآمدات کی متبادل صنعت کاری سے کام چلا نہ برآمدی شعبوں کو مراعات دینے سے کوئی بڑا فرق پڑا۔ تھوڑی بہت ترقی کی بھی تو صرف تجارتی اور خدمات کے شعبوں میں جس میں سماجی خدمات یعنی تعلیم و صحت و ماحولیات و روزگار کی فراہمی شامل نہیں۔ سماجی اشاریوں میں ہم جنوبی ایشیا میں سب سے پیچھے ہیں اور یا پھر مغربی صحارا کے ہمراہ۔

دنیا میں چوتھا صنعتی انقلاب، مصنوعی ذہانت اور سائنسی و اطلاعاتی کا انقلاب بپا ہے اور پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن میں ایک دوسرے کے خلاف ”مودی کا جو یار ہے، غدار ہے“ کے نعرے لگ رہے ہیں یا پھر اسلام فوبیا کے خلاف نعرہ زن ہوتے ہوئے مغربی فوبیا کا شکار ہو کر صدیوں پرانی سادہ تبادلے (Primitive Exchange) کی قدرتی معیشت کی طرف مراجعت کے روحانی خوابوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ دست نگر معیشت کی طفیلی سلامتی کی ریاست کی سیاسی معیشت کا اصل سوال مفت خور استحصالی طبقات اور بعد از نوآبادیاتی مقتدرہ کے غیر پیداواری شکنجے کو توڑنا ہے جس کے لیے ہماری پارلیمنٹ میں موجود کوئی ایک جماعت بھی تیار نہیں۔ اب پھر نظریں امریکہ اور عالمی مالیاتی اداروں کی طرف ہیں کہ رونق کاسۂ گدائی لگے کہ بھاڑے کے ٹٹوؤں کا کاروبار چلے۔ ایسے میں مزدور کی اجرت 20 ہزار روپے اور تنخواہوں میں اضافہ 10 فیصد جبکہ حکومتی جائزے کے مطابق 7 رکنی گھرانے کا خوراک کا خرچ 21 ہزار روپے اور گھر کے کرائے اور بلوں و فیسوں کی ادائیگی سمیت پچاس ہزار روپے ہے اور ہمارے قائد عوام کے نواسے اس سے آدھی اجرت ( 25 ہزار) کا تقاضا کر رہے ہیں۔ ایسے میں مہنگائی، بیروزگاری اور بھوک سے مرتے محنت کش عوام کس جانب دیکھیں؟ جہانگیر ترین کو ملنے والے این آر او کے بعد بجٹ تو پاس ہو جائے گا اور اپوزیشن شور مچاتی رہ جائے گی کہ اس کے پاس کوئی معاشی متبادل نہیں

امتیاز عالم کے مزید کالم پڑھیے

%d bloggers like this: