عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Am speechless after reading the novel "Allah Mian Ka Karkhana by Mohsin Khan
” اللہ میاں کا کارخانہ” واقعی اردو ادب میں ایک گراں قدر اضافہ ہے –
I agree with Shahnaz Rahman novel is best example of combination of complete art and simple style, yet there are many things remaining to be explored, you feel yet thirsty after one time reading…..
ہم میں سے بہت سارے بچے ‘جبران’ ہیں اور بہت ساری بچیاں ‘نصرت’ اور بہت ساری مائیں ‘جبران اور نصرت’ کی مائیں ہیں…..
ہندوستان میں ایک خاص شکل و صورت، وضع قطع اور مخصوص رسوم و شعائر میں ڈھلا مسلمان اپنی شناخت کو لیکر جس جبری صورت حال سے گزر رہا ہے، اُس کی عکاسی فنکاری کے ساتھ محسن نے کسی پراپیگنڈے اور پمفلٹ بازی کے بغیرے کوئی نعرہ لگائے بغیر تکنیک کو فن کی حدود میں رکھتے ہوئے کی ہے……. وہ حافی حاجی کی بطور مذھبی مدرس کے سختی، درشتی اور اُس کے محدود تصور مابعدالطبعیات کی عکاسی کرتے ہوئے خود حافی حاجی کی جو اپنی بطور ایک گوشت پوست کے انسان اور اُن کے ساتھ جڑے مادی رشتوں سے ابھرتی وجودی صورت حال ہے اُسے ماں کے نام لکھے خط کے زریعے سادگی کے ساتھ مگر فنکاری کے ساتھ بیان کرکے ہمیں سمجھا دیتے ہیں……. یہ بیان وہ چیز ہے جسے شہناز الرحمان نے فن تکامل اور اسلوب کی سہولت نگاری کو بغل گیر ہونے سے بیان کیا ہے –
جبران کا چچا جو روشن خیالی، عقلیت پسندی کا کردار ہے اور جبران کے ابا کا الٹ ہے……. ایک عجیب سا تضاد ہے جبران کے گھرانے اور اُس کے چچا کے گھرانے میں کہ جبران کے گھر اُس کا ابا ولید پرابلمیٹک ہے تو اُس کی والدہ کا کردار بہت ہی الٹ ہے ایک ایسی عورت جو شادی سے پہلے کبھی برقعہ نہیں لیتی تھی اُس کے ساتھ ایک انتہائی رجعت پرست شخص کی شادی کیا گُل کھلاتی ہے اور دوسری طرف روشن خیال، معقول چچا کی شادی ایک آزاد خیال عورت سے ہوتی ہے لیکن وہ دن بدن ایک آزار پسند شخصیت میں ڈھل جاتی ہے….. ایک ہی محلے میں معاش کی اونچ اور نیچ گھرانوں کے درمیان اَن دیکھی دیواریں کھڑی کردیتی ہیں جس سے نفرت، غصہ، توھین جیسے جذبات پیدا ہوتے ہیں….. فطرت کتنی نامقعول ہے جو مابعدالطبعیات کے مہابیانیوں پہ ایک معصوم مگر تجربے کی بھٹی میں جل رہے جبران کو سوال اٹھانے پہ مجبور کردیتا ہے
مرغی بنائی تو بلی کیوں بنائی؟
بکری بنائی تو بھیڑیا کیوں بنایا؟
روزے رکھنے کو کہا تو گرم دن کیوں بنائے؟
کیا محض انسانوں کی شبیہ بنانا نقالی ہے تو نباتات و جمادات و چرند و پرند کی تصویریں بنانا نقالی نہیں ہے؟
جبران یہ سوال کرنے پہ عبرت کی چھڑی کھانے سے ڈرتا ہے تبھی دل میں رکھ لیتا ہے –
اللہ میاں کا کارخانہ……. لکھنؤ اترپردیش ہندوستان کے مایہ ناز ادیب محسن خان کا شاندار کارنامہ ہے – میں اسے ایک ہی نشست میں پڑھ گیا –
عکس پبلی کیشنز گراؤنڈ فلور میاں چیمبرز تھرڈ ٹیمپل روڈ لاہور نے اسے پاکستان کے قارئین کے لیے شایع کیا ہے-
Who are interested in buying the said novel, they can contact to Nofil Jellani through messagner or whatsapp # 03484078844
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر