اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیاست سے دور کتابوں کی دنیا||حیدر جاوید سید

پچھلے دنوں میں کچھ کتابیں خریدیں دو تین کتب کے ساتھ ایک دوست نے ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی تفسیر قرآن''بیان القرآن'' کا تحفہ عطا کیا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اخبارات میں خبریں گرما گرم ہیں ۔ پرچی چیئرمین سے بات شروع ہوتی ہے مہارانی راجکماری آپا پینڈو سے ہوتی ہوئی قیمے والے نان اور کلچوں سے نشئی تک پہنچ جاتی ہے یہ سب کچھ ہم جیسے طالب علموں کے لئے حیران کن ہے ۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا لکھا جائے ۔ اخبارات الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر استعمال ہوتی زبان سے گھبراہٹ ہونے لگی ہے ۔ دلیل کی جگہ گالی ہے جواب کی جگہ فتوے نے لے لی ہے ۔
ملالہ یوسفزئی کے انٹرویو نے الگ سے سماں باندھا ہوا ہے ۔ منفی انداز میں چند سطروں کے ترجمے اور مفہوم سے ہٹ کر نکالی گئی دو تین سرخیوں پر شور مچا ہوا ہے ۔
لکیر کے فقیر ایسے ہی ہوتے ہیں سیاق و سباق کے بغیر پیش کئے جانے والے جملوں پر مجاہدین نے کونسی گالی نہیں اچھالی ۔
سچ پوچھیں اس ہاہا کاری اور طوفان بدتمیزی سے گھبرا کر طالب علم نے کتابوں میں پناہ لے لی۔
پچھلے دنوں میں کچھ کتابیں خریدیں دو تین کتب کے ساتھ ایک دوست نے ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی تفسیر قرآن”بیان القرآن” کا تحفہ عطا کیا۔
کتابیں تحفہ میں دینے والوں کا شکریہ ۔
عزیزم حمزہ حسن کا تعلق سندھ دریا کے کنارے صدیوںسے آباد ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے ۔
”ڈیرہ پھلاں دا سہرا”ہی اس شہر کا اول تعارف ہے ۔ اس شہر سے تعلق رکھنے والے ایک عزیز سید جاوید بخاری نے سید ابوالحسن امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کی شہرہ آفاق کتاب
”نہج البلاغہ” کا سرائیکی زبان میں ترجمہ کیا شاندار ترجمہ ہے ۔ آسان سادہ روز مرہ کی گفتگو میں استعمال ہونے والے الفاظ کو انہوں نے جس خوبصورتی سے استعمال کیا اس پرانہیں داد دی جانی چاہئے ۔
حق یہ ہے کہ انہوں نے ترجمہ کا حق اس طور ادا کیا کہ لگتا یہ ہے کہ نہج البلاغہ کے خطبات دیئے ہی سرائیکی زبان میں گئے تھے
حمزہ حسن شیخ کی کتاب”قیدی”ان کے افسانوں کا مجموعہ ہے ۔ حمزہ اردو اور انگریزی میں لکھتے ہیں متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی تحریریں قاری کو اپنے ساتھ باندھ لیتی ہیں۔عام سماجی موضوعات کو ایک نئے رنگ اور آہنگ کے ساتھ انہوں نے پیش کیا ۔
ہمارے محبوب دوست عبدالباسط بھٹی نے روسی دانشور اور ادیب رسول حمزہ توف کے ناول”میرا داغستان” کا سرائیکی میں ترجمہ کرکے حق ادا کر دیا ۔ عبدالباسط بھٹی درجن بھر کتابوں کے مصنف ہیں اور اتنی ہی کتابوں کا ترجمہ کر چکے ۔ ان کے تراجم کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ پڑھنے والے کو لگتا ہے کتاب ہمارے ہی سماجی پس منظر میں تصنیف ہوئی۔ بنیادی طور پر مترجم کی خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہ ترجمہ میں اجنبیت کا احساس نہ ہونے دے قاری کو۔
چند کتابیں پڑھنے کے لئے فقیر راحموں نے منگوائی ہیں ظالم قبضہ کرکے رکھتا ہے ۔
عابد سہیل بھارت کے معروف صحافی ہیں صحافت علم و ادب کے علاوہ کچھ عرصہ کتابوں کی اشاعت کے تجربہ سے بھی گزرے ۔ عابد سہیل کی سوانح حیات”جویاد رہا” اردو اکادمی دہلی نے شائع کی تھی اب کراچی کے ایک اشاعتی ادارے نے شائع کی ہے لگ بھگ سات سو صفحات کی اس سوانح عمری میں سفید پوش گھرانے میں جنم لینے والے کی بھر پور جدوجہد سے عبارت زندگی کے مختلف گوشے ہیں۔ تقسیم سے پہلے کا متحدہ ہندوستان ہے اور بعد کا بھارت ۔
انہوں نے کمال مہارت سے دونوں رخ پیش کئے پہلا رخ شاندار سماجی وحدت مقامی روایات انسان دوستی سے عبارت ہے دوسرا رخ نفسا نفسی تعصبات خود غرضی اور عدم برداشت سے عبارت ہے ۔ بھارت کے شہروں کے نام و مقامات اور بھارتی کرداروں کی جگہ اگر پاکستانی شہروں کے مقامات اور کردار لکھ دیئے جائیں تو یہ سوانح عمری ہمارے ہی سماج کا آئینہ قرار پائے گی۔
عابد سہیل سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہوئے اور نہ ہندوستانی صحافت کی کوئی توپ چیز بن بیٹھے ایک عام سے سرکاری ملازم کے گھر پیدا ہوئے اور زندگی بھر قلم مزدوری کی ان کے تجربات ومشاہدات پڑھنے کی چیز ہیں خصوصاً شعبہ صحافت سے منسلک نئی نسل کے لئے
ان کا تعلق اس نسل سے ہے جس نے بٹوارہ(تقسیم) اپنی آنکھوں سے دیکھا اور بھگتا۔ 1931ء کی دہائی سے 21ویں صدی کے ابتدائی سالوں تک کی یہ داستان ہے تو سوانح عمری لیکن یہ ایک ہی ملک کے لوگوں کے دو رویوں کی عکاس ہے ۔
زاہد چوہدری مرحوم اور سید حسن جعفر زیدی کی جوڑی (زیدی صاحب حیات ہیں) نے بھی تاریخ پر خاصا کام کیا 12جلدوں میں پاکستانی تاریخ کے بعد مسلم تاریخ کے اولین چار ادوار ۔ آقائے دوجہانۖ کی تشریف آوری اعلان رسالتۖ خلافت راشدہ اوراموی وعباسی ادوار پرلکھی گئی چار جلدوں کے بعد اب ان کی نئی کتاب ”ترک سلطنت عثمانیہ” عروج و زوال کا معروضی تجزیہ کی پہلی جلد حال ہی میں شائع ہوئی ہے ۔
یہ کتاب بھی پڑھنے کی چیز ہے ۔ کتاب ہوتی ہی پڑھنے کے لئے ہے ۔
حسن جعفر زیدی ہمارے بزرگ دوست سید علی جعفر زیدی کے بھائی ہیں یہ خاندان آفتابوں کا گھرانہ کہلانے کا حقدار ہے ہر فرد اپنی جگہ ایک مکمل شخصیت اور واضح فکر کا حامل ہے
سید علی جعفر زیدی پیپلز پارٹی کے قیام کے وقت پارٹی کے ترجمان ہفت روزہ ”نصرت” لاہور کے ایڈیٹر تھے ۔ ان کی سوانح حیات ” باہر جنگل اندر آگ ” بھی خاصے کی چیز ہے
زاہد چوہدری اور سید حسن جعفر زیدی کی نئی کتاب
”ترک سلطنت عثمانیہ” ہمیں بار دیگر یہ بات سمجھاتی ہے کہ مسلم ادوار کی تاریخ ان ادوار کی تاریخ ہے تاریخ اسلام ہر گز نہیں۔
کچھ عرصہ قبل ریاست سندھ(یہ تب کی بات ہے جب ہند اور سندھ نام کی مملکت ہوتی تھیں) کے آخری حکمران راجہ داہر کی سوانح عمری بھی لاہور کے ایک اشاعتی ادارے نے شائع کی نرم سے نرم الفاظ میں اس کتاب کو آپ سندھ کی تاریخ”چچ نامہ” کا خلاصہ کہہ سکتے ہیں ۔
زیادہ بہتر ہوتا اگر یہ ادارہ سندھ ادبی بورڈ کی اجازت سے
”چچ نامہ” ہی شائع کر دیتا کیونکہ اس خلاصے کی وجہ سے بہت سارے ابہام پیدا ہو گئے ہیں سادہ لفظوں میں یہ کہ راجہ داہر سے انصاف نہیں ہو سکا۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: