اپریل 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرائیکی صوبہ ، پیپلزپارٹی اور قوم پرست||حیدر جاوید سید

صوبہ محاذ کے اس اعلان کو عوام نے اگرچہ پنجاب کی تقسیم کی حد تک پسند کیا تاہم قوم پرست شناخت اور حدود اربعہ کے حوالے سے اپنے سخت موقف پر ڈٹے رہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"پیپلز پارٹی اور سرائیکی قوم پرستوں سے درخواست ” کے حوالے سے سوجھل دھرتی واس کے چیئرمین سئیں انجینیئر شاہنواز خان مشوری کا موقف حاضر ہے ایس ڈی پی کے صدر عنایت اللہ مشرقی سئیں اور دیگر احباب بھی اپنی آرا بھجوا رہے ہیں بات آگے بڑھتی دیکھائی دیتی ہے امید ہے کہ طرفین کے نادان دوستوں کے بوئے کانٹے سنجیدہ احباب اسی طرح چنتے رہے تو سارے وسیب زادے ایک بار پھر متحد ہوکر اپنے حقوق کے حصول کیلئے جدوجہد کرتے دیکھائی دیں گے "سوجھل دھرتی واس ” کسی تعارف کی متاج نہیں آپ انجینئر شاہنواز خان مشوری کا خط پڑھیں وہ لکھتے ہیں
شاہ جی !
جئے سرائیکی سرائیکی قومی سوال جدوجہد سرائیکی صوبہ یا جنوبی پنجاب کے حوالے سے آپ کی طرف سے مکالمہ کی دعوت خوش آئند ہے اس ضمن میں آپ کے توسط سے میں یہ عرض کروں گا کے. "شروع سے ہی قوم پرست ہر الیکشن میں تقسیم ہوتے رہے ہیں اس کی بنیادی وجہ میرے خیال میں یہ ہے کہ سرائیکی قومی تحریک کو الیکٹورل تحریک کی بجائے قومی شعوری تحریک بنا کر شناخت اور کلچر کو پروموٹ کرنے پر اپنی ساری توانائیاں صَرف کر دی گئیں جس کے نتیجے میں قوم پرست سیاسی پارٹیاں اتنی مضبوط ہی نہیں ہو سکیں کہ وہ قومی سطح پر ہر حلقہ میں الیکشن لڑ سکیں.
ملکی سطح پر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ایسی دو مضبوط جماعتیں رہی ہیں جن کے درمیان ہمیشہ سے بھرپور سیاسی مقابلہ ہوتا رہا ہے اس صورتحال میں سرائیکی اپنے آپ کو مسلم لیگ نون کے مقابلے میں پیپلزپارٹی کے ساتھ زیادہ محفوظ سمجھتے تھے اور پیپلز پارٹی بھی چونکہ سرائیکی قومی مسئلے کو اون کرتی تھی اس لئے بہت عرصے تک یہ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت رہے۔ وقت کے ساتھ سرائیکی تحریک مضبوط ہوتی گئی اور شعور عام ادمی تک پہچنے لگا ۔ الگ شناخت وسائل کی تقسیم اور الگ صوبہ عام آدمی کی آواز بنتا گیا ۔ تمام سیاسی پارٹیز کے ورکرز جہاں اپنی اپنی وفاقی پارٹی کے حوالے سے مختلف نظریات رکھتے تھے وہاں وہ شناخت اور علیحدہ صوبہ کے حوالے سے تحریک کے ساتھ منسلک بھی تھے۔ مشاعرے، ادبی نشستیں اور ثقافتی پروگرام تحریک کو مضبوط سے مضبوط بناتے گئے۔ آہستہ آہستہ یہ تحریک لیفٹ گروپ سے نکل کر عوامی بنتی گئی اس میں سٹوڈنٹس، وکلاء اور ہر طبقہ فکر کے لوگ صوبہ کے مطالبے سے جڑتے گئے۔
الیکٹیبلز جو پاپولر نظریے اور سیاسی نعرے کی کھوج میں رہتے ہیں انھوں نے وقت پر یہ درست اندازہ لگا لیا کہ علیحدہ صوبے کی آواز اب زبان زد عام و خاص ہوگئی ہے اس لئے انھوں نے اس نعرے کو بنیاد بناتے ہوئے تخت لاہور کے خلاف اعلان بغاوت بلند کردیا اور وہی نعرہ جو کہ اکثر وفاقی پارٹیاں لگا رہی تھیں کہ جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنایا جایے انہوں نے بھی اسے استعمال کرتے ہوئے "جنوبی پنجاب صوبہ محاذ” کے نام ایک علیحدہ گروپ بنا لیا (یاد رہے کہ جنوبی پنجاب کی ٹرم 2008 میں پہلی دفعہ سننے میں آئی)
صوبہ محاذ کے اس اعلان کو عوام نے اگرچہ پنجاب کی تقسیم کی حد تک پسند کیا تاہم قوم پرست شناخت اور حدود اربعہ کے حوالے سے اپنے سخت موقف پر ڈٹے رہے۔ سوجھل دھرتی واس اور کچھ اور تنظیموں اور ایک دو سرائیکی سیاسی پارٹیوں نے صوبہ محاذ کی خواہش پر ان کے ساتھ ڈائیلاگ کیا اور صوبہ کے نام اور 23 اضلاع کی حدود کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا جس کے بعد باقی قوم پرست جماعتوں نے بھی مئی 2018 میں خان پور میں اس رائے کی تائید کی کہ تمام وفاقی پارٹیوں سمیت صوبہ محاذ کے ساتھ بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مذاکرات ہونے چاہئیں اور الیکشن 2018 کا کوئی متفقہ لائحہ عمل تیار کیا جانا چاہئے تاہم ابھی ڈائیلاگ چل ہی رہے تھے کہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ نے تحریک انصاف کے ساتھ ڈائیلاگ کر کے علیحدہ صوبہ کے معاہدہ پر دستخط کر دیئے جس کو عوام میں کافی حد تک پزیرائی بھی حاصل ہوئی کہ پنجاب کی تقسیم کا ٹیبو ٹوٹنے کے امکانات نظر آنے لگے۔
2018 کے الیکشن میں مختلف سیناریو بنا۔ الیکشن میں قوم پرست پی پی اور پی ٹی آئی میں تقسیم ہوئے۔ اس حقیقت کو بھی نظر میں رکھتے ہوئے کہ پاکستان کا الیکیشن سسٹم کبھی بھی قوم پرست جماعتوں کو آگے نہیں آنے دیتا مجبورا (اینٹی مسلم لیگ) پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ان دو میں سے کسی کو چننا باقی رہ گیا تھا جس پر سرائیکی تنظیموں اور جماعتوں کے درمیان یہ اتفاق رائے ہوا کہ سب سے پہلے مسلم لیگ ن کو سرائیکی وسیب میں ناکام کیا جائے اس کے لئے جہاں پر پیپلز پارٹی کا امیدوار مضبوط ہو وہاں اس کا ساتھ دیا جائے اور جہاں تحریک انصاف کا امیدوار مضبوط ہو وہاں اسے کامیاب کرایا جائے.
پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے ایک تنظیم جو سرائیکی قومی شناخت کے نام پر ملٹی پارٹی اور مختلف سیاسی نظریات کے دانشوروں نے مل کر بنائی تھی جس کا بعدازاں تاثر صرف پیپلز پارٹی کی بی ٹیم کے طور پر سامنے آتا رہا اس تنظیم کے ارکان کی طرف سے پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے شعراء ادیبوں اور دانشوروں پر الزامات، تضحیک و تشنیع کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جس سے آپسی اختلاف بڑھتے جا رہے ہیں۔ ایک ڈیڑھ ماہ قبل سے خاص طور پر ان علاقوں کے شعراء کو جو "جنوبی پنجاب” میں تو شامل نہیں ہیں مگر سرائیکستان کا حصہ ہیں ان کو ٹارگٹ کیا گیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے مخمور قلندری اور میانوالی سے ظہیر احمد مہاروی اور افکار علوی جو کہ سرائیکی ادب کے مشہور نام ہیں کے ساتھ تضحیک آمیز رویہ روا رکھا گیا۔ ان کی نظموں اور غزلوں پر انھیں تماشا بنا دینے کی بھرپور شعوری کوشش کی گئی. ایسا محسوس ہونے لگا کہ جیسے منصوبہ بندی کے ساتھ وار کیے جارہے ہوں تاکہ وہاں کے لوگ ناراض ہو کر سرائیکی تحریک سے بدظن ہوجائیں.
اس پر سوشل میڈیا میں بہت لے دے ہوئی بات مکالمے سے گالی گلوچ اور فتووں تک جا پہنچی۔ مسئلہ اس وقت مزید بڑھا جب سرائیکی شاعر ڈاکٹر اشرف شعاع عرف اشو لعل کو پیپلزپارٹی کے جنوبی پنجاب کلچر ونگ کی صدارت دی گئی۔ پہلے سے جاری سوشل میڈیا وار میں اشو سئیں بھی اس کا نشانہ بنے اور حیرانی اس وقت ہوئی کہ جب ان کی طرف سے وڈیو عام ہوئی جس میں وہ یہ کہتے پائے گئے کہ "نیشنلزم از اوور” یعنی قوم پرستی ختم ہوگئی. ایسا لگنے لگا کہ جیسے یہ میسج ہو کہ جنوبی پنجاب ہم بھی تسلیم کررہے ہیں اپ بھی تسلیم کریں۔ یہ واقعہ بہت افسوس ناک ہے.
یاد رکھیں کہ وفاقی پارٹیوں کی اپنی سیاسی ضروریات اور مفادات ہوتے ہیں پیپلز پارٹی ہو یا تحریک انصاف ان کی سیاسی مجبوریاں اپنی جگہ مگر ہمیں چاہیے کہ ہم تمام وفاقی جماعتوں سے مطالبہ کریں کہ جنوبی پنجاب نام نا مناسب ہے اور اس کا حدود اربعہ بھی وہی درست ہے جو قوم پرست چاہتے ہیں. ہمیں اپنا پریشر بڑھائے رکھنا چاہیے ۔ ہمیں سرائیکستان کے نام اور حدود اربعہ سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ 100 دن گزرنے کے بعد سے اب تک ہم قوم پرستوں جماعتوں سے رابطے میں ہیں کہ ایک جُٹ ہو کر موثر منصوبہ بندی سے اقدامات کئے جائیں. اس ضمن میں ستمبر اکتوبر 2020 میں لانگ مارچ کا اگلا سیشن کرنے کا ارادہ بنتا رہا ہے جوکہ ملتان تا اسلام آباد کیا جانا تھا تاہم پچھلے سال سے کووڈ 19 کی وجہ سے ابھی تک ممکن نہ ہو سکا ہے. جمہوری لوگ ڈائیلاگ پر بھی یقین رکھتے ہیں اور احتجاج کرنا بھی جانتے ہیں. ان کے خلاف بھی جن کا الیکشن میں ساتھ دیا گیا تھا.
گزارش ہے کہ سرائیکی تحریک کو کسی ایک جماعت کا پابند نہ کریں۔ ہم اب بھی پرامید ہیں کہ اشو لعل سئیں سرائیکیوں اور پیپلزپارٹی کے درمیان پل کا کردار ادا کریں گے۔ ہم جس اشو کو پڑھ کر جوان ہوئے ہیں وہ آج بھی دل سے جنوبی پنجاب کو تسلیم نہیں کرے گا اور خود کو جنوبی پنجابی کہلوانا پسند نہیں کرے گا۔ اشو سئیں کافی سال بعد چپ سے باھر نکلے ہیں وہ جب عوام میں نکلیں گے اور اپنے دوستوں سے مشورے کریں گے تو یقینا قوم پرستی کے بارے میں اپنی رائے پر نظر ثانی کریں گے.
سرائیکی لوگ اب بھی پیپلزپارٹی کو تل وطنی پارٹی سمجھتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کو بھی اب سرائیکستان کی مضبوط آواز کو سننا ہوگا رہی تحریک انصاف تو وہ اپنی وعدہ خلافی کے باعث اگلے الیکشن میں سرائیکی وسیب میں نفرت کی علامت بن سکتی ہے جبکہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ والے خود استعمال ہوئے یا انہوں نے سرائیکی آواز کو استعمال کیا ہر دو صورتوں میں تلاوڑے میں ہونگے. سوشل میڈیا نے عوام کو بہادر بنادیا ہے اور علیحدہ صوبہ کا نعرے آنے والے کئی سالوں تک ان کی سیاست کا پیچھا کرے گا۔ ان سب کے لئے اعلان ہے کہ سن لو اب بھی وقت ہے سرائیکستان میں بسنے والے لوگوں کی آواذ کو سنو ورنہ وقت بہت بے رحم ہے اور سرائیکی اب جاگ چکے ہیں جو خود اپنے آپ کو مضبوط کرنے، اپنی پارٹیاں بنانے اور اپنی مدد آپ کے تحت الیکٹورل سیاسی تحریک چلانے پر تیار ہیں. جمہوریت ہی اکھاڑا ہے تو یہ جنگ بھی جیت کر دکھائیں گے.
آپنڑیں نگری آپ وسا توں

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: