مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دو تاریخی قصے اور بم کو لات مارنے کا واقعہ||حیدر جاوید سید

بہت سارے قارئین گاہے گاہے اپنے خیالات عالیہ سے نوازتے رہتے ہیں۔ اختلاف بھی کرتے ہیں تحسین بھی۔ چند ایک تو منہ پھاڑ کر ایسی باتیں بھی کہہ جاتے ہیں کہ اگر بیسوائیں سن لیں تو شرم کے مارے اپنی انگلیاں دانتوں میں داب لیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت سارے قارئین گاہے گاہے اپنے خیالات عالیہ سے نوازتے رہتے ہیں۔ اختلاف بھی کرتے ہیں تحسین بھی۔ چند ایک تو منہ پھاڑ کر ایسی باتیں بھی کہہ جاتے ہیں کہ اگر بیسوائیں سن لیں تو شرم کے مارے اپنی انگلیاں دانتوں میں داب لیں۔
چلیں چھوڑیں ایک دوست نے دو تاریخی نوادرات بھیجے ہیں۔ تحریری صورت میں پہلے وہ پڑھ لیجئے پھر اپنی باتیں کرتے ہیں۔
’’این ایچ اے نامی وفاقی ادارے نے جو قومی شاہراہوں کا انتظام اور کمائی سنبھالے ہوئے ہے شاہراہوں کی تعمیرومرمت کے لئے 169 ارب روپے جاری کئے ہیں ان میں سے 140ارب روپے پنجاب میں خرچ ہوں گے اور 29ارب روپے بلوچستان میں۔ پختونخوا اور سندھ کو جھنڈی دیکھادی گئی۔ پختونخوا تو خیر تعمیروترقی کی بلندیوں کو چھوتا ہوا اب ہانگ کانگ کا دیسی ایڈیشن بن چکا ہے لیکن یہ پیپلزپارٹی کے ’’تباہ‘‘ کردہ سندھ کو این ایچ اے نے کیوں نظرانداز کیا؟ آگے بڑھنے سے قبل یہ ضرور جان لیجئے کہ این ایچ اے نے سندھ کی شاہراہوں کی تعمیرومرمت کے لئے آخری بار فنڈز 2013ء میں جاری کئے تھے اس کے بعد سے اب تک این ایچ اے سندھ بھر کے ٹول پلازوں کی کمائی کھاہی رہا ہے، کیوں’ اس سوال کا جواب غصے اور نفرت بھرے وفاقی وزیر مراد سعید سے لیجئے یا ان سے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارا مشن پاکستان کو ریاست مدینہ بنانا ہے۔
ایسے تو نہیں بن پائے گی ریاست مدیینہ سرکار، سندھ یا کوئی دوسرا صوبہ مفتوحہ مال نہیں کہ آپ نے اس سے صرف کمانا ہے اس کا حصہ نہیں دینا۔ یہ قومیتوں اور صوبوں کی فیڈریشن ہے۔ ایسا نہیں ہے تو این ایچ اے کو صوبوں میں تقسیم کردیجئے۔
یہ تو تھی تبدیلی دور کی بات
آیئے اب کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے والے دور یعنی قبلہ کامریڈ میاں نوازشریف کے دور کا قصہ سن لیجئے۔ جس دن وزیر خزانہ اسحق ڈار نے پاکستان اسٹیل مل کا 17ارب روپے کا سوئی گیس بل ادا کرنے سے انکار کیا اور محکمہ سوئی گیس نے اسٹیل مل کا گیس کنکشن کاٹ دیا تھا عین اسی روز وزارت خزانہ نے کے الیکٹرک نامی نجی بجلی کمپنی کے ذمہ 70 ارب روپے کے سوئی گیس بل پر کارروائی ملتوی کردی۔
اب سنا ہے تبدیلی سرکار کے الیکٹرک کے ذمہ سوئی گیس کے 80 ارب روپے واجبات کو معاف کرنے کا پلان بنارہی ہے، کیوں؟ اس کیوں کا جواب یہ ہے کہ عارف نقوی تحریک انصاف اور شوکت خانم کے لئے بین الاقوامی معاون مالیات ہیں۔ نقوی صاحب کبھی یہ دعویٰ بھی کیا کرتے تھے انہوں نے نواز شریف کی خدمت میں 4ارب روپے کی خطیر رقم بلدیہ کی تھی۔ دعویٰ کرنے والا یا وصول کرنے والا جانے ہمیں اور آپ کو اس بکھیڑے میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔
بالائی سطور میں لکھی دو تاریخی کہانیاں ایک بااعتماد دوست نے بھجوائی ہیں اس لئے کالم کا حصہ بنالیں ان کی فراہم کردہ معلومات ہمیشہ درست ہوئیں۔
اب آتے ہیں حالات حاضرہ کی طرف۔
وہ جو نیشنل پریس کلب کے باہر اسلام آبادی بلاگر اسد طور پر ہوئے تشدد کے بعد احتجاجی مظاہرہ ہوا تھا اور حامد میر نے جنرل رانیوں والی داستان بہت جذباتی انداز میں بیان کی تھی جس میں ایک عدد گولی کا واقعہ بھی شامل تھا اس کے بعد انہیں ان کے ادارے ’’جاتی امرا نیوز نیٹ ورک‘‘ نے انہیں رخصت پر بھیج دیا ہے۔
فل موسم انقلاب بناہوا تھا مجاہدین انقلاب دشمنوں کے لتے لے رہے تھے کہ اچانک سول سپر میسی کی” رضیہ سلطانہ” محترمہ گل بخاری ایک ’’وی لاگ‘‘ کے ساتھ نمودار ہوئیں اور انہوں نے انکشاف کیا ’’بلاگر اسد طور پر حملہ آئی ایس آئی کے اہل کاروں نے نہیں کیا بلکہ یہ حملہ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک ٹی وی اینکر عمران ریاض نے کروایا ہے
حملے کے لئے دو اہلکار ان کے ایک دوست نے فراہم کئے جو ایک حساس ادارے میں دوسرے درجہ کے اعلیٰ افسر ہیں تیسرا حملہ آور اس ٹی وی اینکر کا ذاتی گن مین تھا۔
حملہ کروانے کی وجہ بلاگر کا ایک ’’وی لاگ‘‘ تھا جو اس نے اس اینکر کے خلاف کیا تھا۔
یاد رہے یہ وہی اینکر ہیں جن کے خاندان کی کچھ خواتین شام گئی تھیں جہاد میں داعش کے ساتھ شرکت کے لئے اور بعدازاں افغانستان کے راستے واپس آئیں۔
’’وی لاگ‘‘ کا قصہ یہ ہے کہ یہ اینکر کی حالیہ دولت مندی اور ماضی کی مفلوک الحالی پر کیا گیا تھا
ماضی یہاں کس کس کا خوشحال تھا جنرل رانیوں کی داستان سنانے والا بھی تو 1990ءکی دہائی کے اوائل میں پرانی ہنڈا 70سی سی کا سوار ہوتا تھا۔
خیر عرض یہ کرنا تھا کہ اب قائد انقلاب میاں ناوزشریف بہت پریشان ہیں کیونکہ ان کے ایک انقلابی کمانڈر نے سول سپر میسی کے بم کو لات ماردی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اینکر اور بلاگر کے جھگڑے میں آستانہ عالیہ آبپارہ شریف کے گدی نشین اور اہلکاروں کو کیوں گھسیٹا گیا ؟
اس بم کو منصوبے کے تحت لات ماری گئی یا لاعلمی میں ماردی گئی؟
مگر کہنے والے تو کہہ رہے ہیں زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں یہ لات منصوبے کے مطابق ماری گئی اور اس کے دو فائدے ہوں گے اولاً یہ کہ اہل صحافت کانمدہ کسنے میں آسانی رہے گی جیسا کہ تبدیلی سرکاری کی دیرینہ خواہش ہے اور اس خواہش کی تکمیل کے لئے چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے 127افراد کی ایک فہرست مرتب کی گئی ہے جس میں اینکرز، بلاگر، کالم نویس اور رپورٹرز شامل ہیں
ان 127افراد کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ تبدیلی کے دشمن، غیر محب وطن اور آستانہ عالیہ آبپارہ شریف و بنی گالہ شریف کے ناقد ہیں۔
سچ کہوں تو ان اطلاعات کو نظرانداز کرنا کم از کم میرے لئے بہت مشکل ہے وجہ یہی ہے کہ ان دنوں آزادی صحافت کے چند جعلی علمبردار جو حقیقت میں ’’الم بردار‘‘ ہیں اس وقت فیڈر پیتے تھے یا زیرتعلیم تھے جب پاکستان میں کارکن صحافی آزادی صحافت کے لئے قیدیں کاٹ رہے تھے اور کوڑے کھارہے تھے۔
ان میں سے بعض کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے مشرف دور میں قربانیاں دیں لیکن ان کی درجنوں تحریریں موجود ہیں جن میں جنرل مشرف ہیرو اور نوازشریف غدار قرار پائے بلکہ نوازشریف کی پھانسی کیوں ضروری ہے والی تحریر تو سونے کے پانی سے لکھواکر میموزم میں محفوظ کرنے کے قابل ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ پی ایف یو جے کو موجودہ صورتحال میں دانشمندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اس امر کو یقینی بنانا کہ منصوبے کے تحت بم کو لات مارنے والوں کے آقائوں کو کامیابی حاصل نہ ہونے پائے

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: