اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آزادیء صحافت اور ایک تلخ سوال||حیدر جاوید سید

آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ میں چونکہ قلم مزدور کے طور پر پی ایف یو جے ( پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ ) کا رکن ہوں اس لیے گزشتہ روز پی ایف یو جے کے پلیٹ فارم سے بلاگر اسد طور پر نامعلوم افراد کے تشدد کے خلاف احتجاج کو درست سمجھتا ہوں

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ میں چونکہ قلم مزدور کے طور پر پی ایف یو جے ( پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ ) کا رکن ہوں اس لیے گزشتہ روز پی ایف یو جے کے پلیٹ فارم سے بلاگر اسد طور پر نامعلوم افراد کے تشدد کے خلاف احتجاج کو درست سمجھتا ہوں
یہ احتجاج قلم مزدوروں کی یونین کا فرض تھا لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ پی ایف یو جے کے پلیٹ فارم سے گزشتہ روز اسلام آباد میں جو تقاریر ہوئیں ان میں سے بعض حیران کن ہیں پتہ نہیں مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ بعض قوتوں نے پی ایف یو جے کے پلیٹ فارم کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا ۔
گزشتہ روز اسلام آباد میں منعقدہ احتجاجی مظاہرہ میں حامد میر نے بڑی انقلابی تقریر کی اور داد پائی ان کی تقریر کا ایک حصہ میں نے بھی شیئر کیا موجودہ حالات میں ان کا خطاب ایک ” آزاد منش” صحافی کے جذبات ہی قرار پائے گا
ان کی حالیہ صاف گوئی نے مجھے حوصلہ دیا کہ ان سے ایک سوال پوچھوں کہ
کچھ عرصہ قبل سندھ میں قتل ہونے والے صحافی عزیز میمن کے قتل پر انہوں نے اپنے ٹی وی پروگرام میں اس قتل کا ملبہ بلاول بھٹو پر ڈالا تھا کیا ان کا وہ موقف ٹھوس شواہد پر مبنی تھا یا انہوں نے کسی نامعلوم شخصیت ( کہنے والے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر اور ایک وفاقی وزیر کا نام لے رہے تھے ) کے کہنے پر اس قتل کو بلاول بھٹو کے دورہ نوابشاہ کے حوالے سے عزیز میمن کی ایک ٹی وی رپورٹ سے جوڑا تھا ؟
کیا جب یہ ثابت ہوگیا کہ وہ ٹی وی رپورٹ چند کرائے کی خواتین کو استقبالیہ مقام پر لا کر بیٹھانے کے بعد تیار کی گئی تو انہوں نے اپنے سفاکانہ عمل کی معذرت کی ؟
یا پھر جب عزیز میمن کے خاندان کے اعتماد پر بنی جے آئی ٹی کی رپورٹ نے وجہ قتل ذاتی تنازعہ بتایا تو انہوں نے بلاول بھٹو سے معذرت کی ؟
حیران کن بات ہے کہ محض ایک نامعلوم شخصیت کی خوشنودی کیلئے انہوں نے ایک نوجوان سیاستدان پر قتل کی سازش کا الزام لگایا اور اس پر کبھی شرمندہ بھی نہیں ہوئے
عزیز میمن کے قتل کے بعد ایک سے زائد بار انہوں نے اپنے پروگرام میں پیپلز پارٹی اور بلاول بھٹو کو اس قتل کی واردات سے جوڑنے کی مذموم کوشش کی اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر نون لیگ اور پی ٹی آئی کے ان رہنماوٴں کو اپنے پروگرام میں بلاتے رہے جن کے دہنوں سے آگ کے گولے نکلتے تھے پیپلز پارٹی کا نام سن کر
آپ حیران ہورہے ہوں گے کہ یہ کیسا موضوع ہے اور اس پر اس وقت بات کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔
میں عرض کیے دیتا ہوں اس موضوع پر آج ہی بات کرنے اور سوال اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ میری دانست میں گزشتہ روز پی ایف یو جے کے پلیٹ فارم کو
” خاص مقصد ” کے لیے ایک منصوبے کے تحت استعمال کر لیا گیا
صحافیوں پر ریاستی یا گروہی تشدد کی تاریخ بہت پرانی ہے پاکستان میں بھی یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے پہلے گرفتاری ہوتی تھی مقدمات بنتے تھے مارشل لا کے زمانوں میں سزائیں بھی ہوئیں اب طریقہ کار تبدیل ہوگیا ہے
” ہرکارے ” گھر میں گھس کر تشدد کرتے ہیں سڑک سے اغوا کرتے ہیں اور کبھی گولیاں مار دیتے ہیں خود ان موصوف ( حامد میر ) کو بھی چند سال قبل دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا خیر تب بھی ملک بھر کے قلم مزدوروں نے باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس ظلم پر احتجاج کیا تھا آج بھی ملک بھر کے قلم مزدور یہ سمجھتے ہیں کہ ریاست کے طاقتور حلقے ان کی آوازوں کو دبانا چاہتے ہیں
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں جتنا غصہ اپنے کسی ساتھی پر ناروا تشدد پر آتا ہے اتنا ہی غصہ ان نامعلوم شخصیتوں پر بھی آنا چاہیے جنکی خوشنودی کیلئے ہم میں سے کوئی ایک کسی سیاسی شخصیت پر قتل کے جھوٹے الزام کی کالک ملنے میں بخوشی حصہ ڈالنے پر تیار ہو جاتا ہے
یہ بات درست ہے کہ پاکستان آزادیٴ صحافت کے حوالے سے غیر محفوظ ملک بن کر رہ گیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں ایک طرف ریاست اور غیر ریاستی طاقتور گروہ صحافیوں کو ڈراتے دھمکاتے اور تشدد کا نشانہ بناتے ہیں وہیں دوسری جانب بعض میڈیا ہاوس اور ان کے ملازمین بھی حقائق کو مسخ کرنے کے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں
یہ صورتحال تشویشناک ہے لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اس صورتحال کے ذمہ دار ہمارے وہ دوست ہیں جنہوں نے صحافت کی آڑ میں مخبریوں اور میڈیا منیجری کو روزگار بنا لیا
ہم جب آزادیٴ صحافت کی بات کرتے ہیں تو لمحہ بھر کیلئے اپنے گریبان میں جھانک کر یہ بھی دیکھ لیا کریں کہ ہم جو کہہ لکھ رہے ہیں یہ قلم مزدوری ہے یا میڈیا منیجری دوسری بات یہ کہ موجودہ دور آزادیٴ صحافت کے حوالے سے بدترین دور ہے سینکڑوں نہیں ہزاروں کارکن صحافی بیروزگار ہوئے ریاستی دباوٴ اور حکومتی اقدامات سے ۔ بعض میڈیا ہاوٴس کے مالکان نے سینکڑوں صحافیوں کے واجبات دبائے ہوئے ہیں اس پر ستم یہ ہے کہ کچھ پولیس کے پرانے مخبروں اور چٹی دلالوں کو تجزیہ نگار بنا کر ٹی چینلوں پر بیٹھا دیا گیا ہے
پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں آزادیٴ صحافت مالکان کے مفادات کا نام ہے مالک جس جماعت یا ادارے کی گڈ بک میں ہو پورا میڈیا ہاوٴس اس ادارے اور جماعت کی چاکری میں جُت جاتا ہے یہاں کسی ایک میڈیا ہاؤس کا نام لینے کی ضرورت نہیں عوام اتنے سادہ ہرگز نہیں سب جانتے ہیں کون کس کی منجی کس کی خوشنودی کیلئے ٹھوک رہا ہے
آخری بات یہ ہے کہ ریاست اور متشدد گروہوں دونوں کو سمجھنا ہوگا کہ اگر آزادیٴ صحافت کو نکیل ڈالنے کے ہتھکنڈے جاری رہے تو گھٹن بڑھے گی ایسا ہوا تو انارکی پیدا ہوگی عام قلم مزدور اور شہری کے پاس کھونے کیلئے کچھ بھی نہیں ریاست اور منہ زور گروہوں کو یہ سوچنا ہوگا کہ انارکی برپا ہوئی تو نقصان کس کا ہوگا

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: