مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

صحافیوں کو میڈیا مالکان کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت

صحافیوں کے حقوق پر نہ حکومت توجہ دے رہی ہے اور نہ ہی میڈیا مالکان اسے خاطر میں لارہے ہیں۔

پاکستان کے صحافی و یوٹیوبر اسد علی طور پر نامعلوم افراد کے تشدد کے خلاف صحافیوں اور میڈیا کارکنان نے اسلام آباد پریس کلب کے باہر احتجاج کیا ہے

لیکن صحافیوں کو اپنی برادری کے حقوق کے تحفظ کے لیے میڈیا مالکان کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں صحافیوں یا میڈیا کارکنان کا سب سے بڑا مسئلہ ان کا معاشی تحفظ ہے۔

ملک میں صحافیوں پر تشدد کے چند واقعات موجود ہیں لیکن تنخواہوں میں کمی و کٹوتی اور ملازمت کی غیریقینی صورتحال کا سامنا تمام میڈیا اداروں کے صحافی کر رہے ہی

صحافیوں کے حقوق پر نہ حکومت توجہ دے رہی ہے اور نہ ہی میڈیا مالکان اسے خاطر میں لارہے ہیں۔

ایسے میں صحافیوں کو میڈیا مالکان کے خلاف بھی صدائے احتجاج بلند کرنی ہوگی اور اپنے حقوق کا پرچم تھامے تحریک میں آگے آنا ہوگا۔

گذشتہ دنوں پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں نامعلوم افراد نے صحافی و یوٹیوبر اسد علی طور کے گھر میں گھس کر ان پر تشدد کیا۔

اس تشدد کے خلاف پاکستان میں صحافیوں سمیت حکومتی نمائندوں نے شدید الفاظ میں مذمت کی۔

جمعے کے روز اسد علی طور پر تشدد کے خلاف راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس (آر آئی یو جے) کے زیر اہتمام پی ایف یو جے کی کال پر اسلام آباد میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

احتجاجی مظاہرے میں صحافیوں، سیاسی رہنماؤں، وکلاء تنظیموں کے نمائندوں اور سول سوسائٹی کے افراد نے شرکت کی۔

مظاہرین نے میڈیا کی آزادی کے حق میں اور نامعلوم افراد کی طرف سے صحافیوں کو نشانہ بنانے کے واقعات کے خلاف پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے۔

صحافی اسد علی طور نے اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بارے میں مظاہرین کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھ پر الزامات کی شفاف تحقیقات کروائی جائیں۔

اگر میں قصوروار ہوا تو ہر سزا بھگتنے کو تیار ہوں۔‘

سینیئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر نے نیوز 360 سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے

جس کے خلاف ہم پرامن احتجاج کررہے ہیں۔ ہم آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر پرامن راستہ اختیار کررہے ہیں۔

اگر ہم بندوقیں اٹھا کر گولیاں چلانا شروع کردیں تو آپ کہیں گے کہ یہ دہشتگرد ہیں۔

بعض عناصر چاہتے ہیں کہ ہم دہشتگردی کا راستہ اختیار کریں کیونکہ وہ ہمارے ساتھ دہشتگردی کرتے ہیں۔

دہشتگردی کا جواب ہم دہشتگردی سے نہیں بلکہ پر امن جدوجہد سے دیں گے۔‘

اس سوال پر کہ صحافیوں کے معاشی قتل عام پر آواز کیوں نہیں اٹھائی جاتی؟ حامد میر نے کہا کہ ’صحافیوں کو کسی ادارے یا چینل سے نکالا جاتا ہے

تو صحافتی تنظیمیں اس کے خلاف احتجاج کرتی ہیں۔‘

%d bloggers like this: