اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افسانوں کا سائنسدان||وجاہت علی عمرانی

ایک ادیب یا لکھاری اپنے ارد گرد جو کچھ دیکھتا ہے اگر اسے اپنی کسی بھی صنف کی تحریروں میں لانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتا تو پھر اس کے ادب لکھنے کا کوئی فائدہ نہیں

وجاہت علی عمرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ حقیقت ہے کہ ماہ مارچ میں بہار کی رت جواں ہوتی ہے اور یہ مہینہ شاعروں، لکھاریوں اور مصوروں کے لیے قدرت کا حسین تحفہ ہوتا ہے۔ اسی ماہ میں نوروز کی خوشیوں کا مزہ بھی دوبالا ہوجاتا ہے جب آکاش سے ہلکی ہلکی رم جھم اور پھوہار دلبستگی کا سامان پیدا کرتی ہے۔ اسی ماہ مارچ کے دلپذیر ماحول میں مشہور و معروف قلمکار، دوست نما بھائی اور درجن سے زائد کتابوں کے مصنف حمزہ حسن شیخ نے اپنا تازہ افسانوی مجموعہ ”قیدی“ اپنی تمام تر محبتوں کے ساتھ عنایت کیا۔ بعض نجی اور خاص کر رمضان المبارک کی مصروفیت کے باعث ”قیدی“ کو اپنی لائبریری میں چند روز کے لیے مزید ”قید“ کر دیا۔ چند روز پہلے اس کی رہائی کا اعلان کرنے کے بعد افسانوی مجموعے ”قیدی“ پر سرسری نظر جو ڈالی تو پھر چھوڑنے کو جی نہیں چاہا اور ایک ہی نشست میں پورا مجموعہ پڑھ کر ہی دم لیا۔

فکشن ہاؤس لاہور کے زیر اہتمام چھپنے والا افسانوی مجموعہ ”قیدی“ 16 مختصر افسانوں پر مشتمل ہے اور تمام افسانے کسی ایک سمت میں سفر نہیں کرتے، بلکہ حمزہ حسن شیخ نے الگ الگ موضوعات کو ایک خاص سلیقے سے افسانے میں پرونے کا کام کیا ہے اور یہی کارنامہ ان کا اردو کی ادبی وراثت میں مزید اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ یہ مجموعہ چند سالوں کے افسانوں پر مشتمل ہے اور ہر افسانہ اپنے آپ میں ایک جداگانہ مقام رکھتا ہے۔ بلاشبہ حمزہ حسن شیخ ایک منجھے ہوئے افسانہ نگار ہیں اور مقامی و ملکی سطح پر ہونے والے واقعات و مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنا کر اپنے فن کو زندگی کا ترجمان بنا دیا ہے، بلکہ اپنے اچھوتے موضوعات پہ مبنی افسانوں کے ذریعے بڑی مہارت سے معاشرے کا اصل چہرہ دکھایا ہے۔

حمزہ حسن شیخ نے اپنے سابقہ اور حالیہ افسانوں میں اتنے تجربات کیے جتنے کوئی سائنسدان اپنی لیب میں کرتا ہے۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ وہ افسانوں کا سائنسدان ہے اور اپنی افسانوی لیب میں نت نئے تجربات کر کے ہمیشہ معاشرتی و سیاسی زندگی، دہشت گردی، اور اس کے عوامل، قتل و غارت، داخلی و خارجی منصوبہ بندیوں، طبقاتی نظام، مسلکی تفریق، انسانی عظمت، سماجی مسائل اور فکرو آگاہی کے شعور سے بننے والی تصاویر پیش کر کے اپنا فرض نبھاتا ہے۔ حمزہ حسن شیخ کے افسانے بظاہر خاموش اور پرسکون لگتے ہیں لیکن ان کے باطن میں ایک اضطراب اور حرارت پوشیدہ ہوتی ہے۔ یہ اضطراب ان کے اندر کا ہے جو سماجی و سیاسی اور دیگر ناہمواریوں پر صدائے احتجاج بلند کرتا ہے۔

حمزہ حسن شیخ کا اپنے افسانوی مجموعے ”قیدی“ کا لکھا پیش لفظ اور پہلے تین افسانے ”خودکشی، نوٹ بک اور باغی“ کی قرات کی تو حقیقی معنوں میں افسانوں کے پیچھے چھپے عوامل اور گہرائی کو سمجھ اور پرکھ سکا، کیونکہ عام فکشن میں کرداروں کو لفظوں سے بیان کیا جاتا ہے جبکہ حمزہ حسن شیخ نے اپنے افسانوی مجموعے میں لفظوں کو ہی کرداروں میں ملبوس کر کے پیش کیا۔ یہ ان کے علم اللسانیات کی وہبی یا اکتسابی بصیرت کی دلیل ہے۔

عام فکشن میں مصنف جسموں کی حرکات و سکنات کو بیانیے کے ذریعے بیان کرتا ہے جبکہ حمزہ حسن شیخ کے ہاں خیالات کی حرکات و سکنات کے بیانئے ملتے ہیں۔ ان کے افسانے فنی و فکری پختگی کی بہترین مثالیں ہیں۔ وہ زندگی، فطرت، انسانی رویوں اور استحصال کو اپنے افسانوں میں پیش کرتے ہیں۔ وہ ظلم اور جبر کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کا لہجہ بلند آہنگ ہوجاتا ہے۔ حمزہ حسن شیخ نے اپنے عہد کی خارجی و داخلی صداقتوں کو ایک دانش مند کے فکری زاویوں سے، ایک ماہر تخلیق کار کی طرح جوڑ کر افسانے کے کینوس پر منتقل کیا ہے۔ یہ بات انہیں عہد حاضر کے دیگر افسانہ نگاروں سے منفرد کرتی ہے۔

”قیدی“ کے تمام افسانے پڑھنے کے بعد یہ اندازہ ہوا کہ، حمزہ حسن شیخ کے سامنے شب و روز گلی محلوں، معاشرے، شہروں اور ملک خداداد میں جو تماشے جاری ہیں، اس کے کرب نے اسے مسلسل اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ وقت کا یہ کس قدر المیہ ہے کہ زندگی کی تمام رتیں بے ثمر اور زندگیاں پر خطر کر دی گئی ہیں۔ وقت کے ان سانحات نے اس کے لکھے گئے افسانے قاری کے جذبات سے اس طرح ہم آہنگ کر دیے کہ اس کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔

حمزہ حسن شیخ نے اپنے افسانوں ”قیدی، رحیمو کی ریڑھی، کٹے پھٹے دھڑ کا معاملہ، انار گلے اور دیگر ممنوعہ قسم کے عنوانات اور عوامل کو پیش کر کے دوسرے لکھاریوں کے لیے ایک واضح پیغام دیا کہ اگر کسی لکھاری یا ادیب کا دل اس کے معاشرے میں ہونے والے ظلم و ستم، نا انصافی اور دوغلے رویوں پر بھی حرکت میں نہیں آتا تو اس سے بہتر ہے کہ وہ کوئی کاروبار کر لے۔ کیونکہ کے اگر لکھاری کے پاس اپنے زمانے اور عہد کے متعلق کہنے کو کچھ نہیں تو پھر اس کی تخلیق کی حیثیت محض ڈیکوریشن پیس کی ہے۔

ایک ادیب یا لکھاری اپنے ارد گرد جو کچھ دیکھتا ہے اگر اسے اپنی کسی بھی صنف کی تحریروں میں لانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتا تو پھر اس کے ادب لکھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ ہم نے تمہیں زبان دی تاکہ تم بیان کر سکو (مفہوم) ۔ اب اگر ظلم کے دور میں ادیبوں کی زبانیں گنگ ہو جائیں اور لکھاری منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھ جائیں اور کہیں کہ انہیں کسی بھی ادارے سے اپنے نظریے کی حمایت کی پاداش میں تکلیف نہ اٹھانی پڑے تو پھر ایسے ادیبوں اور لکھاریوں کے فن پاروں کو کتب خانوں میں رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ بہرحال قیدی کے تمام افسانے زمینی حقائق کے آئینہ دار ہیں۔ یہ واقعات عام زندگی سے اٹھائے گئے ہیں۔ کیوں کہ اہم بات یہ ہے کہ ہر وہ موضوع جو زندگی سے قریب ہو افسانے کا موضوع ہوتا ہے اور ایسے افسانے عام قاری کے ذہن پر براہ راست اثر انداز ہو جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

%d bloggers like this: