مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اینکرز، سینیئر تجزیہ نگار، دانشور وغیرہ وغیرہ||سید علی نقوی

نیوز اینکرز میں سے شاید ایک بھی ایسا نہ ہو کہ جس کی تنخواہ ہزاروں میں ہو اور اگر آپ انہی میں سے بیشتر کا پورا کیرئیر ایک جرنلسٹ کے طور پر جانچنے کی کوشش کریں تو ایک شو ایسا نہ مل سکے کہ جس میں آپ کو کسی اور کا واضح ایجنڈہ نظر نہ آ رہا ہو۔

علی نقوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1980 کی دہائی پوری دنیا میں رائٹ کے عروج کا اور لیفٹ کی سیاست کے زوال کا زمانہ ہے پاکستان میں ضیاء الحق کا زمانہ ہی وہ زمانہ ہے کہ جب یہاں رائٹ کے نظریات ریاست کا بیانیہ بن کر پوری طرح سے نافذ ہوئے (ویسے تو ہم نے 1949 میں قرار داد مقاصد منظور کر کے یہ اعلان کر دیا تھا کہ پاکستان کسی بھی اعتبار روشن خیال ریاست نہیں ہے) لیکن جس شدت کے ساتھ رائٹ ضیا الحق کے زمانے میں پھلا پھولا پہلے اس کی نظیر نہیں ملتی۔

ایک بار بیرسٹر رضا کاظم صاحب طاقتور طبقے کی نفسیات پر گفتگو فرما رہے تھے تو مجھے یاد ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ اس طبقے کا بنیادی کام ابہام پیدا کرنا، اس کو برقرار رکھنا اور اس کی بڑھوتری کے لیے مسلسل کام کرتے رہنا ہے جس کے نتیجے کے طور پر معاشرے کے لوگ تقسیم ہو سکیں اور مسلسل تقسیم ہوتے رہیں یہی ابہام صورتحال ان کی بقا کے لیے ضروری ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر فوج ایک طاقتور ادارہ ہے جس نے اس ملک پر براہ راست یا پس پردہ مسلسل حکمرانی کی ہے اور تواتر کے ساتھ اس نظریے کی ترویج کی ہے کہ اگر پاکستانی فوج نہ ہو تو پاکستان کچھ لمحوں میں افغانستان یا شام بن جائے آج پاکستان کی زیادہ تر آبادی اسی نظریے کو نہ صرف سچ مانتی ہے بلکہ اس کی محافظ بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ہوا؟ یہ ہوا ایک نظریے کی مسلسل تکرار اور تبلیغ سے اسی طرح اگر آپ ہمارے مذہبی طبقے پر نظر ڈالیں تو ایک بات واضح ہے کہ جس کے ہاتھ میں کسی زمانے میں صرف جمعے کا خطبہ ہوتا تھا آج ان کے اپنے ٹی وی چینلز ہیں وہ مولانا طارق جمیل کہ جو کل تک تصویر اور ویڈیو بنوانے کو حرام سمجھتے تھے آج یہاں پہنچے کہ یوٹیوب نے انہیں گولڈن بٹن سے نوازا یہ وہ طبقہ ہے کہ جس کو بھرپور عوامی حمایت حاصل ہے اور پاکستان میں تو صورتحال زیادہ مزے دار اس لیے ہے کہ ہماری فوج کو لوگ اس لیے بھی زیادہ پسند کرتے ہیں کیونکہ وہ اس کو اسلامی فوج سمجھتے ہیں نہ کہ صرف پاکستان کی۔ ہمارا مذہبی طبقہ وہ ہے کہ جو اپنے ہر مطالبے کو بزور منوانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اس طبقے کے علماء نے اس ملک سے کبھی ابہام کو ختم کرنے کی کوشش تو دور کی بات بلکہ اس کو مزید بڑھانے میں اپنا پورا حصہ ڈالا ہے۔ اسی ایجنڈے کا ایک حصہ وہ ہے جس کی بھرپور شروعات تو شاید ضیاء الحق کے زمانے میں ہوئی (کہ جب ریاست نے صحافی اور اخبار خریدنے شروع کیے ) لیکن وہ پل کر جوان جناب پرویز مشرف کے زمانے میں ہوا اور اس کا نام تھا میڈیا ہم بڑوں سے سنتے رہے کہ ضیا الحق کے زمانے میں میڈیا پر فوج کا پورا کنٹرول تھا لیکن پرویز مشرف کے زمانے میں میڈیا آزاد ہو گیا ٹی وی چینلز کی بھرمار ہو گئی تو پھر یہ کیسے ایک ایجنڈا ہوا؟ آئیے اس سب کو ذرا تفصیل سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں

جیسا کہ اوپر عرض کیا کہ طاقتور کا ایجنڈا ابہام کو پیدا کرنا اور اس کی بڑھوتری ہے اور ریاستی سطح کا ابہام صرف ایک صورت میں پیدا کیا جا سکتا ہے کہ پہلے تو ایسے نظریات گھڑے جائیں کہ جن کا حقیقی مسائل سے کوئی تعلق نہ ہو جو لوگوں کو فضول بحث میں الجھا سکیں جس کو اگر ٹرم میں بیان کریں تو

”نان ایشوز“ اور اس کے بعد ان نان ایشوز کے ارد گرد اتنی دھول اڑائی جائے، ان پر اتنی بات کی جائے اور مسلسل کی جائے کہ لوگ اپنے اصل مسائل کو بھول کر ان نان ایشوز میں الجھ سکیں۔ ایک ایجنڈے کی مسلسل تکرار دو چیزوں کا باعث بنتی ہے، ایک کہ سننے والا اس میں پھنس کر رہ جاتا ہے اور اس تکرار کو ہی واحد سچ مان لیتا ہے، دوسرا جو اس ایجنڈے کو پھیلا رہا ہوتا ہے اس کی مسلسل تکرار کی وجہ سے ایک وقت آتا ہے کہ وہ خود بھی اسی کو سچ سمجھ لیتا ہے جیسے پرویز مشرف کو ان کے دور حکومت میں یہ بات مسلسل بتائی گئی کہ آپ عوام میں بہت مقبول ہیں اور اس بات کی بے پناہ ترویج سرکاری سطح پر ہوتی رہی اور آخر کار بات یہاں تک پہنچی کہ پرویز مشرف خود کو حقیقت میں پاپولر سمجھنے لگے جبھی تو انہوں نے سیاسی جماعت بنائی، لیکن جس دن سے حقیقت ان پر واضح ہوئی انہوں نے کبھی مڑ کر ملک کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کیا پرویز مشرف نے جس میڈیا کو ان کے بقول آزادی دی وہی ان کے گلے پڑا اگر یہ آزادی حقیقی ہوتی تو کبھی پرویز مشرف کو ایمرجنسی نہ لگانی پڑتی لیکن چونکہ وہ آزادی ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت عمل میں آئی تھی اس لیے جب اس آزادی کے حامل افراد نے اپنی نئی راہیں تلاش کرنے کی کوششیں شروع کیں تو وہی اس پر پابندی لگانے پر مجبور ہوا کہ جو اس آزاری کا کریڈٹ لیا کرتا تھا۔

اس سب میں یہاں کے رہنے والوں کا کیا نقصان ہوا؟

اس صدی کے اوائل اور اس سے پہلے اس ملک کی عوام رات کے آٹھ بجے ایک کوالٹی ڈرامہ دیکھنے کی عادی تھی لیکن اس میڈیائی آزادی سے ہوا یہ کہ عوام کو نیوز اور کرنٹ افیئر شوز دیکھنے کی لت پڑی وہ ڈرامے کہ جو سڑکیں ویران کرا دیا کرتے تھے، وہ ڈرامے کہ جس دن انہوں نے نشر ہونا ہوتا تھا لوگ شادی کے تاریخ اس دن نہیں رکھتے تھے عوام ان ڈراموں کو چھوڑ کر ٹاک شوز کی شیدائی بن گئی جس میں کروڑوں روپے کے سیٹس پر بیٹھ کر لاکھوں میں تنخواہیں لینے والے اینکرز کو ایک کام میسر آیا اور وہ تھا کہ سیاستدانوں کی آپس میں لڑائی کروائی جائے اور TRP ’s کے نئے سے نئے ریکارڈ قائم کیے جائیں۔

اس وقت اس ملک میں سو سے کچھ زائد ٹی وی چینلز ہیں جن میں سے ستاون نیوز چینلز ہیں ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستانی میڈیا پر ایک ہفتے میں 300 سے زائد ایسے شوز نشر ہوتے ہیں جن میں وزرا، سینیٹرز، سینیئر تجریہ نگار اور دانشور مہمان ہوتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود ملک میں بیانیے کا شدید بحران پایا جاتا ہے۔ میں اکثر غور کرتا ہوں کہ آخر ان بے نتیجہ مکالموں کی کیا ضرورت ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ کسی کے مذہبی، مسلکی یا سیاسی نظریات کو ایک آدھے گھنٹے کی بریکوں سے بھرپور نشست میں تبدیل کر سکیں یا کسی کو یہ سمجھا سکیں کہ آپ کے لیڈر کی یہ پالیسی اس اس وجہ سے غلط ہے؟ میرا خیال ہے کہ نہیں یہ اس طرح کے تقسیم در تقسیم شدہ معاشرے میں ممکن نہیں ہے جہاں لوگ اپنے لیڈروں کو خدائی اوتار سمجھتے ہوں اور خود کو سب سے بڑا عقل مند۔

آپ کبھی غور کیجئے کہ آپ کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے اگر آپ میاں نواز شریف کے حامی ہیں تو آپ کو یہ معلوم ہے کہ آپ کو جیو دیکھنا چاہیے کیونکہ جنگ اور جیو کو ایک پرو مسلم لیگ نون میڈیا گروپ سمجھا جاتا ہے اسی طرح اگر آپ تحریک انصاف کے حامی ہیں تو آپ کو اے آر وائی دیکھنا چاہیے کیونکہ وہ پرو پی ٹی آئی ہے اب اس سے کیا ہوتا ہے اس سے ہوتا یہ ہے کہ آپ وہی کچھ ایک سچ کے طور پر دیکھ اور سن رہے ہیں جو آپ کو اچھا لگتا ہے جس سے آپ کی جھوٹی انا کی تسکین ہوتی ہے، جس سے جس سے آپ کا سچ، سچ ثابت ہوتا ہے۔ لیکن اگر آپ ذرا سا غور کریں تو آپ کے ساتھ بہت بڑا ہاتھ ہو رہا ہے، ایک آپ کو پہلے ایک بوگس بات سچ کے طور پر بتائی گئی اور اس کے بعد اسی بوگس سچ کی مسلسل ترویج و تبلیغ کا انتظام آپ کی ہی جیب سے کیا گیا۔ اوسط درجے سے کم ذہنیت رکھنے والے وہ لوگ کہ جن کی انگریزی چھوڑیے اردو ٹھیک نہیں تھی ان کو ”سینئر تجزیہ نگار“ لکھا جانے لگا اور وہ لوگ کہ جو کل تک رپورٹنگ ٹیمز کی بی کیٹیگری میں ہوا کرتے تھے طاقتوروں کے ایجنٹوں کے بوٹ چاٹ کر ”دانشور“ کہلانے لگے۔
یہ وہ لوگ ہیں کہ جو خود ایکڑوں کے گھروں میں رہتے ہیں ان میں سے کچھ اپنے جہازوں کے مالک بھی ہیں لیکن آپ کو اور مجھے دن رات یہ بتاتے رہتے ہیں فلاں بھی کرپٹ ہے اور فلاں بھی لیکن ان سے اگر ان کی آمدن پر ذرا سی بات کی جائے تو بھڑک اٹھتے ہیں۔ آج بھی یو ٹیوب پر وہ کلپ دیکھا جا سکتا ہے کہ جس میں حسن نثار کو مشاہد اللہ مرحوم نے صرف یہ کہہ دیا تھا کہ حسن نثار صاحب مجھ پر کرپٹ ہونے کا الزام لگا رہے ہیں میں تو وفاقی، حکومتی اور سرکاری عہدوں پر رہا ہوں نہ میرے پاس اپنا گھر ہے نہ بڑی بڑی گاڑیاں ہیں حسن نثار صاحب ایکڑوں کے فارم ہاؤس میں رہتے ہیں کئی کئی گاڑیوں کے مالک ہیں مہنگی ترین گھڑیاں پہنتے ہیں ابھی مشاہد اللہ کا جملہ مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ دانشور حسن نثار نے گالیوں کا برسٹ لائیو ٹی وی شو میں چلا دیا اور وہ اخلاق باختہ گفتگو کی کہ اللہ کی پناہ، نہ ان کا مائیک بند کیا گیا نہ ہی اینکر کے خاص مزاحمت کی اور حسن نثار یہ اعلان کرتا رہا کہ وہ طاقت وروں کا ایک خاص الخاص ہے اور عوام آج بھی حسن نثار کو ہی اس معاملے میں ٹھیک سمجھتے ہیں۔
کیا ہم بھول گئے کہ کاشف عباسی کے شو میں ایک وفاقی وزیر نے سیاسی لوگوں کے موجودگی میں بوٹ میز پر رکھ دیا تھا کم از کم میں یہ ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ وزیر موصوف بوٹ میز پر رکھنے والے ہیں یہ بات کاشف عباسی کو نہیں معلوم تھی کیونکہ نہ شو بند ہوا نہ بوٹ ہٹایا گیا نہ اینکر صاحب نے اس وزیر کا بائیکاٹ کیا جو ہوا وہ یہ تھا کہ سیاسی لوگ اس شو سے اٹھ کر چلے گئے۔ اس طرح کی سینکڑوں مثالیں ہیں جو دی جا سکتی ہیں یہ وہ تمام لوگ ہیں کہ جو طاقتوروں سے پیسے لے کر آپ کو دن رات یہ بات بتاتے ہیں کہ فلاں لوٹ کھا گیا، فلاں لوٹ کر کھا گیا، انہی نے یہ بھی بتایا کہ یہ آدمی (عمران خان ) ہے کہ جس کو ووٹ دینا چاہیے اور پھر دیکھا گیا کہ وہی دانشور اسی آدمی کو وہی گالی دے رہے تھے جو کچھ دن پہلے وہ اس کے مخالف کو دیتے تھے، لیکن کسی نے ان سے یہ پوچھنا گوارا نہیں کیا کہ آپ کی کس بات پر بھروسا کریں وہ کہ جو آپ کل کہہ رہے تھے یا جو آج کہہ رہے ہیں؟

انہی نیوز اینکرز اور دانشوروں میں ایسے کئی لوگ ہیں کہ جنہوں نے اس ملک میں مذہبی، لسانی اور مسلکی فساد کرانے کی پوری پوری کوشش کی اور کافی حد تک ان کو اس میں کامیابی ملی۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟

تو حضور اس سب میں دیکھنے والی بات یہ ہے کہ وہ کون سا طبقہ ہے کہ جس پر تنقید نہیں کی جا سکتی، جس کا خاکہ نہیں اڑایا جا سکتا؟ ہمارے ہر نیوز چینل پر گھٹیا قسم کا سیاسی طنز کی جاتی ہے جس میں وزیراعظم، صدر، وفاقی و صوبائی وزراء ہر ایک کی نقل اس طور کی جاتی ہے کہ جس کو میں تضحیک سمجھتا ہوں لیکن کیا کبھی آپ نے دیکھا کہ موجودہ یا سابقہ آرمی چیفس یا موجودہ یا سابقہ چیف جسٹس کی کسی چینل پر کوئی نقل کر رہا ہو؟ یا ان کا اس طور نام ہی لیا جا سکے کہ جیسے بے دھڑک وزیراعظم اور صدر کا لیا جاتا ہے؟ اگر آئین کی رو سے بات کریں تو آرمی چیف وزیراعظم اور صدر کے ماتحت ہیں لیکن یہاں آرمی چیف اور چیف جسٹس کی نقل اتارنے یا ان کا خاکہ اڑانے کا سوچنا بھی محال ہے جبکہ صدر اور وزیراعظم سب سے آسان ہدف ہیں اس سب کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب جو کچھ بھی ہو رہا ہے ان کی مرضی و منشا سے ہو رہا ہے یہ نہایت پست بات ہے کہ آپ ایک تین بار کے الیکٹڈ پرائم منسٹر کو تو اس بات پر غدار قرار دے دیں کہ اس نے آرمی چیف کا نام لے کر ان پر تنقید کی لیکن ایک آئین شکن کہ جس نے اپنے ادارے میں لیے گئے حلف کی واضح خلاف ورزی ایک سے زیادہ بار کی ہو، جو سیاسی قائدین کے قاتل ہوں وہ آپ کی نظر میں ہیرو رہیے۔

اگر آپ کبھی غور کریں تو جتنے نیوز شوز ہمارے چینلز پر نشر ہوتے ہیں وہ اگلے دن تک باسی ہو چکے ہوتے ہیں مجال ہے کہ پاکستانی چینلز پر کوئی نیوز ٹاک شو ایسا بھی نشر ہوتا ہو کہ جو ایک سال بعد بھی دیکھا جا سکے ایک چیز ہوتی ہے ”شیلف ویلیو“ مطلب کہ کون سی چیز یا بات کتنے عرصے تک اپنی افادیت قائم رکھ سکتی ہے وہ اس کی ”شیلف ویلیو“ ہے اگر آپ غور کریں تو ہمارے ملک کے چینلز پر نشر ہونے والے ننانوے فیصد شوز کی شیلف ویلیو ایک دن سے زیادہ نہیں ہے لیکن اگر آپ اس پر ہونے والے خرچے کو جانیں تو آپ کے اوسان خطا ہو جائیں اور آپ سوچیں کہ اس فضول بکواس کے لیے اتنا انتظام کیوں؟

نیوز اینکرز میں سے شاید ایک بھی ایسا نہ ہو کہ جس کی تنخواہ ہزاروں میں ہو اور اگر آپ انہی میں سے بیشتر کا پورا کیرئیر ایک جرنلسٹ کے طور پر جانچنے کی کوشش کریں تو ایک شو ایسا نہ مل سکے کہ جس میں آپ کو کسی اور کا واضح ایجنڈہ نظر نہ آ رہا ہو۔

یہ سب کچھ طاقت وروں کے اپنے عزائم کے حصول کے مختلف طریقے ہیں جن کو عوامی مفاد کے طور پر عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے نان ایشوز کو اہم ترین معاملات کے طور پر مین سٹریم میڈیا میں بھرپور جگہ دی جاتی ہے تاکہ اصل کارروائی جب ڈالی جا رہی ہو تو عوام شعیب ملک کی شادی، قندیل بلوچ کے ساتھ گزرا جیو کا ایک دن، اسلام آباد کی سڑکوں پر بندوق لہراتا سکندر، تھر کی پیاس، سندھ میں نایاب کتا ویکسین، خیبر پختون خواہ میں لگے ایک ارب درخت، میاں نواز شریف کے پلیٹ لٹس، بانوے کا ورلڈ کپ، ساحر اور شائستہ لودھی کا مارننگ شو، کراچی کا کچرا، کراچی کے کچرے سے یاد آیا عامر لیاقت کی دوسری، تیسری، چوتھی شادی، وسیم بادامی کی نعت، اقرار الحسن کی بیت بازی اور مافیا کے خلاف کارروائیاں، عمران خان کی اقوام متحدہ میں کی تقریر، قاسم علی شاہ کی کرامات، اوریا مقبول کی پیش گوئیاں، زید حامد کا جہاد، اور اس سب کے ساتھ MTJ کا روحانی اشتہار دیکھتے رہیں رہ گئی انٹر ٹینمنٹ تو اس کے لیے ہم نے دو آتشہ کام کیا ہوا ہے کہ فہد مصطفیٰ بھائی کے شو میں جاؤ حواس باختہ حرکتیں کرو چائنہ کی موٹر سائیکل لو تفریح کرو اور گھر جاؤ کیونکہ سونا تو فہد بھائی اور ان کے ساتھ ہر شو میں مخصوص کیے گئے سٹار جن میں ہمایوں سعید، عدنان صدیقی، شائستہ لودھی وغیرہ وغیرہ آپ کو جیتنے دیں گے نہیں لہٰذا جو مل رہا ہے وہ لے لیں۔

علی نقوی کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: