عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل میں کوشش کرتا رہا کہ کمیونسٹ پارٹی آف لبنان کے عظیم دانشور استاد کامریڈ حسن ہمدان کے بارے میں اپنے پڑھنے والے نوجوان قارئین کو کچھ بتاؤں لیکن یکے بعد دیگرے مجھے پڑنے والے کاموں نے اپنے کامریڈ کا تذکرہ کرنے سے روکے رکھا۔ حالانکہ آج سے دو دن پہلے کامریڈ کی برسی تھی اور اس دن دنیا بھر میں کامریڈ کو ان کے نظریہ سے وابستہ لوگوں نے یاد کیا- ان پہ کالم لکھے اور سرخ سلام پیش کیا۔ عرب دنیا ہی نہیں بلکہ لاطینی امریکہ، افریقہ، یورپ، ایشیاء اور آسٹریلیا جیسے براعظموں میں بسنے والے انسان دوست کامریڈ حسان ہمدان کو سرخ سلام پیش کرتے رہے۔
ہمارے عظیم نظریاتی استاد کامریڈ کو اکثر لوگ ان کے قلمی نام "مہدی عامل” کے نام سے جانتی ہے۔ ان کو اکثر "عرب کا گرامچی” کہا جاتا ہے۔
یہ مئی کی 18 تاریخ تھی اور سال تھا 1987ء جب حسن ہمدان مغربی بیروت میں اپنے اپارٹمنٹ سے نکلے ۔ سیر کرنے کے بعد گھر کی طرف واپس لوٹ رہے تھے تو الچیریا اسٹریٹ تک پہنچے جو ان کے گھر ککے بہت قریب تھی – دو آدمی ان کا نجانے کب سے پیچھا کررہے تھے۔ انھوں نے ان کا نام لیکر پکارا، استاد ہمدان نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو انہوں نے ان پہ گولیاں برسادیں۔ وہ شدید زخمی ہوکر وہیں کرپڑے۔ ان کو وہاں سے ایک راہ گیر نے امریکن یونیورسٹی آف بیروت کے ہسپتال میں پہنچایا جہاں ان کی موت ہوگئی۔ ہمارے کامریڈ کی اس وقت عمر محض 51 سال تھی لیکن وہ علم و دانش و تجربے کے کوہ گراں تھے۔ ان کی موت محض کمیونسٹ پارٹی آف لبنان کے لیے بہت بڑا نقصان نہ تھی بلکہ یہ محنت کش طبقے کی نجات کے علمبردار ہر ایک انسان دوست کا نقصان تھی۔
جس عہد میں استاد کامریڈ کی جان لی گئي یہ وہ زمانہ تھا جب لبنان میں جاری خانہ جنگی کا آخری مرحلہ چل رہا تھا- یہ خانہ جنگی 1975ء میں شروع ہوئی تھی اور 1990ء میں ختم ہوئی یعنی استاد کی شہادت کے تین سال بعد۔ یہ جنگ مختلف مرحلوں سے گزری تھی جس میں لبنانی سماج کی مختلف پرتیں اور ان پرتوں کے اندر سے بنی عسکری تنظیمیں شریک تھیں – اکثر مسلح ونگز ایک دوسرے کے خلاف بیرونی طاقتوں کے آلہ کار بنکرلڑتے رہے۔
اس دوران فلسطینی اور عرب کی بائیں بازو کی تنظیمیں جن میں خود کمیونسٹ پارٹی آف لبنان بھی شامل تھی لبنانی عرب کرسچن دایاں بازو کے خلاف لڑائی کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک میں آگئیں۔ اور پھر اس نے اس وقت کی شام اسرائیلی افواج کو لبنان میں مداخلت کی راہ دے دی اور اس وقت کی لبنانی فوج اور شامی افواج نے لبنان میں فلسطینی اڈے تباہ کردیے گئے۔ 1982ء میں جب فلسطینیوں نے اپنے اڈے تنزانیہ میں منتقل کرلیے تو جنگ بایاں بازو پہ حملہ آوری میں بدل دی گئی۔
سیاسی – جہادی اسلام پسند مسلح عسکریت پسندوں نے کمیونسٹوں کے خلاف جنگ چھیڑی دی جوکہ سارے لبنان میں مضبوط جڑیں رکھتے تھے۔ 1984ء میں ان عسکریت پسندوں نے 52 کمیونسٹوں کو اغوا کرلیا ۔ ان کو کمیونزم ترک کرنے کو کہا گیا جب انہوں ایسا کرنے سے انکار کیا تو انھیں قتل کردیا گیا اور ان کی لاشیں بحیرہ عرب میں پھینک دی گئیں۔
فروری کی 17 تاریخ تھی اور سال وہی 1987ء تھا- حسین مروہ اپنے بستر پہ استراحت کررہے تھے۔ کچھ لوگ ان کے گھر دآحل ہوئے اور کو فائرنگ کرکے شہید کردیا۔ مروہ لبنان کمیونسٹ پارٹی – ایل سی پی کے دانشور کامریڈ تھے۔ وہ ایل سی پی کے ترجمان اخبار "الطارق کے ایڈیٹر تھے۔ انھوں نے کئی درجن کتب عرب ثقافت اور تاریخ پہ لکھی تھیں – ان کا موقف تھا کہ عربوں کی ثقافت محض مذہب اور جذبات کی ثقافت نہیں رہی بلکہ اس ثقافت میں سائنس اور عقل کی بھی گہری جڑیں تھیں۔ دسویں صدی کے جو مفکرین تھے جیسے الفارابی و ابن سینا و ابن رشد و الرازی یہ سب کے سب عقہ، منطق اور مادیت پرستانہ افکار کو آگے لیکر جانے والے تھے۔ حسین مروہ کی شہادت کے وقت عمر 78 سال تھی۔
حسین مروہ کا قتل اس لڑائی کا شاخسانہ تھا جو لبنان کمیونسٹ پارٹی اور سیاسی-جہادی اسلام پسند عسکریت پسند ملیشیاؤں کے درمیان چھڑ گئی تھی ۔ لبنان کمیونسٹ پارٹی اور لیفٹ کی دیگر جماعتیں اور گروپ لبنان میں مذہبی بنیاد پرستی کے خلاف لڑرہے تھے۔ اور جنوبی لبنان کمیونسٹ پارٹی آف لبنان کا گڑھ تھا وہاں مذہبی بنیاد پرست پارٹی کے سیاسی اور فکری میدانوں میں فعال کامریڈوں کو نشانہ بنارہے تھے۔ فروری میں حسین مروہ کے قتل سے اگلے دس دنوں میں لبنان کمیونسٹ پارٹی کے 40 انتہائی فعال کامریڈ قتل کیے گئے، 17 اراکین اغوا کرلیے گئے ۔ جنوبی لبنان کے ایک شہر نبطیہ میں ایک مفتی نے فتوا دیا کہہ "جنوبی لبنان میں ایک بھی کمیونسٹ زندہ رہنے نہیں دیا جائے گا” – کمیونسٹوں کی حمایت رکھنے والے گاؤں اور قصبوں پہ بنیاد پرست ملیشیاؤں نے حملے کیے- ادھم السید جو ایل سی پی کے یوتھ ونگ کے سیکرٹری ہیں وہ ان کو "شہید گاؤں” کا نام دیتے ہیں جن میں صرفہ، کفر رمان اور حولہ شامل تھے جو کبھی پارٹی کا قلعہ ہوا کرتے تھے۔ ایل سی پی کے اراکین یا تو مارے کئے یا فرار ہوگئے یا انھوں نے سیاست ہی چھوڑ دی۔
استاد کامریڈ حسن ہمدان کا قتل بھی اس ہی لڑائی کا شاخسانہ تھا۔
آج عرب اور مغرب کی دنیا کے بہت سارے نوجوان حسن ہمدان کے نام سے استاد کامریڈ کو کم ہی جانتے ہیں ۔ اکثر ان کو مہدی عامل کے نام سے جانتے ہیں۔ وہ اپنے زمانے کی نسل میں سب سے زیادہ عزت پانے والے محبوب مارکس وادی مفکر اور نظریہ ساز تھے۔ استاد کامریڈ نے اپنے علمی ورثے میں بہت ہی اہم کتابیں چھوڑیں جن میں انقلابی نظریات سے لیکر شاعری تک کو زیر بحث لایا گیا ہے۔
حسن ہمدان کے نام پہ بیروت میں "مہدی عامل کلچر سنٹر” قائم کیا گیا ہے- اور اس مرکز میں پوری دنیا سے نوجوان اسکالر ان کے کام اور شخصیت کے بارے میں تحقیق کرنے آتے رہتے ہیں۔
آج جب میں استاد کامریڈ کی شہادت کے دن کی مناسبت سے یہ مضمون لکھنے بیٹھا ہوں تو اسرائیل کی نسل پرست حکومت کا فلسطین پہ جارحیت جاری ہے۔ پوری دنیا میں ایک بار پھر مسئلہ فلسطین پوری شد و مد سے اٹھایا جارہا ہے۔ پاکستان میں ایک اشاعتی ادارہ معروف فلسطینی قوم پرست عرب دانشور ایڈورڈ سعید کی کتاب ” کیوسچن آف فلسطین” کے اردوترجمے بعنوان "مسئلہ فلسطین” کا اشتہار بار بار سپانسر کررہا ہے۔ اس کا دعوا ہے کہ مسئلہ فلسطین پہ لکھی گئی کتابوں میں سے یہ ابتک کی بہترین کتاب ہے۔ تو مجھے استاد کامریڈ حسن ہمدان کی اس مسئلے پہ لکھی اپنی نوعیت کی واحد کتاب کی یاد آرہی ہے۔ کتاب کا عنوان تھا:
مدخل إلى نقض الفكر الطائفي-القضية الفلسطينية في ايديولوجية البرجوازيةاللبنانية
"فرقہ وارانہ نظریہ پہ تنقید کا تعارف: لبنانی بورژوازی کی فکر میں مسئلہ فلسطین”
اس کتاب میں اس نے ان بنیادی مفاہیم کو پیش کیا جو لبنانی سرمایہ دار طبقے کی فکر کے اساس تھے اور ان مفاہیم میں جو تضادات تھے ان پہ اس نے تنقید کی – اور یہ تنقید اس نے محنت کش طبقے کے نکتہ نظر سے کی- وہ اپنی تنقید میں بورژوازی کی فکر کی سیاسی جہت پہ تنقید کرتا ہے یہ وہ جہت ہے جو یہ طبقہ مسئلہ فلسطین پہ بات کرتے ہوئے چھپا لیتا ہے۔
استاد کامریڈ حسن عبداللہ ھمدان نے اپنی کتاب مذکورہ میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ایک تو لبنانی سرمایہ دار طبقہ جو ہے وہ سامراجیت کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے غالب طبقہ بنا ہے لیکن نوآبادیاتی نظام سے لبنان کی ریاست کا جو مابعد نوآبادیاتی نظام ڈھانچہ بنا وہ ایسی ریاست کا ڈھانچہ ہے جو اپنے مخدوم سرمایہ دار طبقے کی بقا ہی فرقہ واریت میں دیکھتی ہے۔ لبنانی بورژوازی گماشتہ ہونے کی وجہ سے رجعت پسند طبقات کو ختم کرکے ان کی جگہ مغربی طرز کی جدید بورژوا جمہوری سیکولر ریاست اور سماج کا قیام کرنے کی بجائے رجعت پسند طبقات سے اتحاد کرکے الٹا لبنانی ریاست کا ڈھانچہ اور اپنی سیاست کو ہی فرقہ واریت کے ساتھ جوڑ دیا۔ اور وہ مسئلہ فلسطین کو بھی "فرقہ واریت” سے ہی جوڑ کر دیکھتی ہے۔ سامراج اور لبنانی سرمایہ دار طبقے نے لبنانی سماج میں جس قسم کی سرمایہ داریت کو فروغ دیا اس کے نتیجے میں لبنان کے جو دیہی اور مضافاتی علاقے تھے وہاں بے روزگاری ، بھوک، غربت نے ڈیرے ڈالے اور بڑے پیمانے پہ لبنانی دیہی اور مضافاتی قصبوں سے ہجرت بیروت اور دیگر چند بڑے شہروں میں ہوئی اور بڑے پیمانے پہ محنت کش اور غیر محفوظ مستقبل رکھنے والے بے روزگاروں کی بڑی تعداد نے جنم لیا جن سے لبنانی بورژوازی کو کوئی ہمدردی نہیں تھی۔ اس نے محنت کشوں اور کسانوں کی بڑھتی ہوئی مانگوں اور ان کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون کو توڑنے کے لیے سب سے بڑا ہتھیار فرقہ واریت کا استعمال کیا۔ اس کی واضح مثال لبنانی صنعتی و سروسز سیکٹر میں جان بوجھ کر مسلمانوں اور میرونائٹ کرسچن کے درمیاں اختلافات کو ہوا دی گئی ۔اور ایسے ہی مسلمان محنت کشوں اوردیہی آبادی کو باہم لڑانے کے لیے سنّی اور شیعہ کے درمیان منافرت کو ہوا دی گئی – جبکہ عالمی سامراجی قوتوں نے بایاں بازو کے ساتھ اور ترقی پسند پاپولسٹ عرب نیششنلسٹ پاپولسٹ سیاست کا راستا روکنے کے لیے ان کے خلاف ملاؤں سے بلاسفیمی ہتھیار استعمال کرایا۔ اور اخرکار 1975ء میں یہ جو فرقہ واریت کا ہتھیار تھا اس نے لبنان میں خانہ جنگی کو جنم دیا- کرسچن میرونائٹ کی دایاں بازو کی قلیشیا کتائب ، سنّی دایاں بازو کی ملیشیا اور ایسے ہی شیعہ دایاں بازو کی ملشیا امل اور ان کے پیچھے لبنانی بورژوازی طبقہ اور اس کے مربی عالمی سامراجی طاقتوں نے صرف لبنان میں قومی جمہوری انقلاب کو فرقہ واریت سے تباہ کیا بلکہ اس نے فلسطین کی قومی آزادی کی تحریک کو زبردست نقصان پہنچایا۔ آج تک لبنان کا ریاستی آئینی ڈھانچہ فرقہ وارانہ بنیادوں پہ قائم ہے اور جب تک فرقہ پرستی پہ مبنی لبنانی ریاست کا ڈھانچہ برقرار ہے تب تک لبنان کو ایک عوامی سوشلسٹ ریاست نہیں بنایا جاسکتا ۔
” ان قضية فلسطين يجب ان تحل لا على ضوء المصالح البترولية والامبراطورية البريطانية الأميركية الصهيونية بل في ضوء مصلحة سكان فلسطين أنفسهم , وعلى اساس احترام حقهم في حياة الاستقلال والحرية” ”
"مسئلہ فلسطین کو نہ تو تیل کے سوداگروں کی روشنی میں حل کیا جاسکتا ہے اور نہ برطانوی-امریکن- صہیونی سلطنت کے مفادات کے تحت حل کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ یہ مسئلہ فلسطینی آباادی کے اپنے مفادات کی روشنی میں حل کیا جاسکتا ہے۔ اور اس کی بنیاد ان کے زندہ رہنے کے حق، آزادی اور خود مختاری کے حقوق کے احترام پہ استوار کرنا ہوگی”
.
ھمدان اپنے اپارٹمنٹ میں اسٹڈی کارنر(گوشہ مطالعہ) میں ڈیسک پہ بیٹھا کرتے تھے۔ اب اس جگہ پہ ان کا پوٹریٹ رکھا ہوا ہے۔ یہ وہ جگہ جہآن وہ بیٹھ کر رات کئے تک کام کرتے تھے۔ استاد کامریڈ کی توجہ کا بنیادی مرکز یہ سوال تھا: کیسےان مارکس واد خیالات کو تخلیق کیا جائے جو عرب حقیقت سے مطابقت رکھتے ہوں؟ یہ ایک ایس سوال ہے جو اس زمانے کے تیسری دنیا کے ان مفکرین کو ہمیشہ ستاتا رہا جن کا واسطہ مارکس واد سے پڑا تھا۔
پیرو کے مارکس وادی جوزے کارلوس مارٹی کا مضمون ” پیرو کی حقیقت پہ سات تشریحی مضامین” انڈیز کے مقامی لوگوں کی تاریخ اور جدوجہد کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ ان مقامی باشندوں پہ ہسپانوی/ اسپینش فاتحین کے غلبے سے پیدا ہونے والے نئے بندوبست اراضی اور نئے لیبر سسٹم سے پیدا ہونے والی حقیقت کا جائزہ لیتا ہے۔ مصری سوشلسٹ سلمہ موسی کا مقالہ ” ہمارے فرائض اور بدیشی ممالک کے ٹاسک” سماج واد(سوشلسٹ) تصورات کو استعمال کرتے ہوئے مصری سماج بارے ایک بیانیہ فراہم کرنے کی کوشش تھی۔ ای ایم ایس نمبودرپد کی "تاریخ کیرالہ اور 1938 کی کا قانون برائے مزارعت” ہندوستانی سماج کی حقیقت کو مارکس واد تصورات کی بنیاد پہ سمجھنے کی کوشش تھی۔ کامریڈ مارٹی کا مقالہ 1928ء میں، مصری سماج وادی سلمہ موسی کا مقالہ 1930ء میں اور نمبودرپد کا 1938ء میں سامنے آیا تھا۔
حسن عبداللہ ہمدان کے ابتدائی مضامیں میں سے ایک مضمون ” الاستعمار و التخلف” یعنی "نوآبادیاتی نظام اور پسماندگی” ایل سی پی کے ترجمان رسالے "الطارق” میں 196٭ء میں شایع ہوا تھا۔ اس نے اس مضمون میں لکھا تھا:
"اگرآپ یہ جاہتے ہیں کہ ہمارے مارکس وادی خیالات دن کی روشنی دیکھ پائیں اور سائنسی تناظر سے اپنے گردو پیش کی حقیقت کو دیکھنے کے قابل ہوں تو ہمیں مارکس وادی فکر سے شروع نہيں کرنا چاہئیے کہ اسے اپنی حقیقت پہ چسپاں کردیں بلکہ ہمیں اپنی حقیقت سے شروع کرنا چاہئیے اور اسے اپنی تاسیسی تحریک کی بنیاد بنالینا چاہئیے۔ جو کوئی بھی اپنے سماج کے تاریخی ارتقا اور اس کے اپنے ثقافتی سرچشموں سے شروعات کرتا ہے تو تبھی وہ حقیقی مارکس وادی بن سکتا ہے۔نوآبادیاتی پسماندگی کی حقیقت کو دریافت کرنا پڑے گا اور پھر مارکس ازم اس کی تشریح کرے گا۔”
"عرب کو پسماندہ ہونے کا طعنہ دے کر شرمسار کیا جاتا ہے۔ یہ ایسے تھا جیسے وہ سوائے ناکام ہونے کے کچھ اور کرنے کے قابل ہی نہ تھے۔ لیکن عربوں کی تباہی کا سبب ان کی ثقافت نہ تھی بلکہ جو کچھ ان پہ مسلط کیا گیا تھا وہ ان کی تباہی کا سبب تھا۔ نوآبادیاتی حکمرانی جو ایک سو سال مسلط رہی اس نے ان کی سیاسب، و معشیت کے نظام کے ساتھ ساتھ ان کے سماج کو بھی بدل ڈالا۔ پرانی عرب اشرافیہ دیوار سے لگادی گئی یا ایک نئی دنیا میں جذب ہوگئی جہاں وہ ان قوتوں کے نمائندہ تھی جو ہر طرف موجود تھیں۔ نئی اشرافیہ کا جنم ہوا جو خارجی قوتوں کی نمائندہ تھی نہ کہ اپنی آبادی کی۔ پیرس کو چھینک آتی تو ان کو سردی لگنے لگ جاتی تھی۔ امریکی سفیر منتخت نمائندوں سے کہیں زیادہ اہم ہوگیا تھا۔( ایک پرانا لطیفہ اکثر گردش آتا تھا کہ امریکہ میں انقلاب کیوں نہیں آتا؟ کیونکہ وہاں امریکی سفارت خانہ نہیں ہے۔) پسماندگی کا تجربہ عربوں کا نقص نہیں تھا بلکہ اس کا سبب وہ طرز زندگی تھا جس میں وہ زندگی گزار رہے تھے جو ان کے لیے ساخت کیا گیا تھا۔ مارکس واد کو اس تصور کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔”
جب استاد حسن عبداللہ ہمدان وہاں لبنن میں ان خیالات کا اظہار ہورہا تھا تو پاکستانی مارکس وادی ڈاکٹر حمزہ علوی نے اپنا "نظریہ طریق پیداوار” پیش کیا۔ ہندوستان میں "طریق ہائے پیداوار” پہ بحث ہورہی تھی۔ مصر میں سمیر امین نے اسی تصور کے گرد کام کیا۔ ان سب کی طرح حسن ہمدان نے نے بھی "پسماندگی” کو ثقافتی معنوں میں نہیں دیکھا بلکہ اس نے اسے اس عالمی آڈر کے معنی میں دیکھا جو بطور خاص ساخت کیا تھا: جنوب خام مال اور اور ان کے لیے منڈیاں بنائے اور جبکہ شمال فنش آئٹم بنائے اور بڑی تعداد میں سماجی دولت کمائے۔ پسماندگی کا احساس اس نظام کا عکس تھا۔ جنوب میں جو سیاسی گند تھا ول بھی اسی معاشی محکومی سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ سارے مفکر محکومیت بارے نظریہ بنانے کی کوشش کررہے تھے۔
ہمدان 1936ء میں پیدا ہوئے اور 20 سال بعد وہ فرانس میں پڑھنے چلے گئے۔ اس دور میں لبنان میں ترقی پسند شروعات ہوئی تھی وہ بند ہوچکی تھی۔جب لبنان میں عرب قوم پرستی اور اشتراکیت نے جگہ بنانا شروع کی تو ان دونوں قوتوں نے مسلح بغاوت کی جسے لبنانی اشرافیہ نے کچل دیا جن کو امریکی مداخلت کار فوج کا تعاون حاصل تھا۔ فرانس میں ہمدان نے عرب کمیونسٹوں کے ایک خفیہ گروپ میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ الجزائر کی جنگ آزادی اپنے عروج پہ تھی اورچارلس ڈی گال ملک کے اندر اختلافی آوازوں کو اپی بات کرنے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ ہمدان کو مناسب لگا کہ وہ فرانس کو چھوڑ دے اور الجزائر منتقل ہوجائے۔ 1963ء میں وہ الجزائر چلا آیا- یعنی وہ نئی نئی آزادی حاصل کرنے والے ملک میں ایک ایسے وقت میں پہنچا تھا جب فرانز فینن کو فوت ہوئے محض دو سال ہوئے تھے۔ اس کی بیوی صبح کی شفٹ میں ٹاؤن قسطنطنیہ میں فرانسیسی زبان کی کلاسیں لیتی تھی اور شام کو وہ فرانز فینن پہ دروس دیا کرتا تھا۔ انھی دنوں اس نے "انقلاب افریقہ ریویو” نامی رسالے میں فینن پہ مضمون لکھا تھا۔
جب لبنان میں دوبارسیاسی خمیر تیار ہونے لگا تو ہمدان واپس لبنان آگیا۔ لبنان نے 1968ء میں اپنی دوسری کانگریس منعقد کی ہس کانگریس میں ادھم السید بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ کہ ہم نے اپنے تصورات اور اپنے نظریات سر فہرست رکھے۔ ایل پی ی نے اپنے آپ کو مسئلہ فلسطین پہ سویت یونین کے موقف سے فاصلے پہ کرلیا۔ اس نے اسرائیل کی بھرپور مزاحممت کا اعلان کیا اور قومی تحریک کی تعمر کا فیصلہ کیا۔ اس کانگریس کے بعد پروگریسو سوشلسٹ پارٹی کے نامزد کردہ لبنانی وزیر داخلہ کمل جنبلات نے ایل سی پی کو قانونی طور پہ کام کرنے کی اجازت دے ڈالی۔ 1970ء سے 1975ء کے درمیان لیفٹ جبر سے ننکلا تو ٹریڈ یونین سرگرمیوں ميں اضافہ ہوگیا۔ ایک سال میں 35 مزدور ہڑتالیں ہوئیں۔ 1972ء میں غندور فوڈ ورکرز کی ہڑتال طلبا تحریک کے ساتھ ہی ہوئی ۔ سن 1974ء میں 50 ہزار لوگوں نے تعلیم کی نجکاری کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے۔ ایل سی پی کے ممتاز رہنما الیاس حبر کہا کرتے تھے کہ انھوں نے ایسا واقعہ اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
جنوبی لبنان میں تمباکو کے کیتھوں میں کسان ہڑتال پہ چلے گئے جب جنوبی لبنان ٹوبیکو فارمرز ایسوسی ایشن نے پرانی قیادت کے اثر سے باہر آنے کی کوشش کررہی تھی۔ ہمدان نے اپنا قلمی نام مہدی عامل اختیار کیا۔ عامل اس نے جنوبی لبنان میں جبل عامل سے لیا جہاں پہ ملک کی شیعہ آبادی کے گھر تھے۔ یہ علاقہ قعاشی اعتبار سے افتادگان خاک اور کمزدور ترین حالت کے لوگوں کا تھا۔ تمباکو کی فصل کاشت کرنا جان جوکھوں کا کام تھا۔ اور سموکر کے لیے یہ بدترین فصل تھی۔ لیکن یہ فصل کسانوں کو نقد زر فراہم کرتی تھی تو انہوں نے روایتی فصلوں اور اپنے لیے غلہ اگانے کی بجائے اسے اگانا شروع کردیا تھا لیکن جو نقد رقم ان کے ہاتھ آتی وہ ریاست کی اجارہ داری کے مقابلے ميں بہت کم ہوتی تھی۔ تمباکو کی فصل سے جڑے کسانوں کی جدوجہد جیسے بڑھتی گئی ، ویسے ویسے کمیونسٹ تحریک بھی وہاں پہ بڑھتی گئی۔ مہدی عامل کا نام اختیار کیے ہوئے ہمدان نے تمباکو کے کسانوں کے مراکز تک سفر کیا اور ان کو اشتراکیت اور اس کا لبنان کے عصری مسائل تعلق پہ دروس دیے۔ وہ گھروں اور مساجد میں کسانوں کے اجتماعات سے خطاب کیا کرتا تھا- اس کی بیوی ایولین اپنی یادوں کو تازہ کرتے بتایا کرتی تھی۔ اور کسان اسے نہایت شوق اور احترام سے سنا کرتے اور مکمل خاموشی کا سماں ہوا کرتا تھا۔ وہ ان کو وضاحت سے بتاتا تھا کہ پسماندگی کیسے کام کرتی ہے اور لبنان کا دایاں بازو جو خود کو فلانگ کہلاتا تھا کیسے بیرونی طاقتوں کا نمائندہ ہے۔ برسوں بعد جب استاد کامریڈ حسن ہمدان کی شہادت ہوچکی تھی تو ایولین کو پتا چلا کہ کہ کسانوں میں وہ ایک افسانوی شخصیت کے طور پہ جانے جاتے تھے اور وہ اسے ” سبز داڑھی والا” کہا کرتے تھے۔
ایولین برن یاد کیا کرتی تھیں کہ مہدی عامل اگٹر ایک قول دوہرایا کرتے تھے:” مارکس وادی ہونا ایک ایسا فرد ہونا ہے جو روزمرہ زندگی کی مشکلات کا حل فراہم کرسکتا ہو۔”
حسن ہمدان اٹھارہ مئی 1987ء میں اس وقت قتل کیے گئے جب دو سال بعد سوویت یونین کا تجربہ بھی ناکام ہونا شروع ہوگیا تھا۔ اس سے پہلے ایل سی بھی کو بھی بڑے دھچکے لگے تھے۔ لبنان کی خانہ جنگی میں شرکت کرنے کا مطلب تھا کہ یہ فرقہ واریت کے نعرے کو کچھ جگہ دے۔ جنگ کرسچن اور مسلمانوں کے درمیان ہورہی تھی۔ یہ ناممکن ہوگیا تھا کہ اس کی منطق کے ساتھ نہ بہا جائے جیسا کہ مہدی عامل نے اپنی انتہائی تنبیہ آمیز کتاب "فرقہ واریت اور لبنانی خانہ جنگی” میں اس کا خدشہ بھی ظاہر کیا تھا۔ ادھم السید اور جاناں نخل بھی اس کی تائيد کرتے ہیں۔ بدلے ہوئے نئفے تناظر ميں ایل سی پی کی تنظیم کو مستحکم کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔ اس نے ڈگمگانا شروع کردیا تھا۔
ہمدان کی شہادت کے بعد اگلے دو عشرے جو گزرے ان میں عرب دنیا میں لیفٹ کو سخت مصائب اورر تکالیف ک سامنا کرنا پڑا۔ عرب قوم پرست حکومتوں نے بڑے پیمانے پہ کمیونسٹ پارٹیوں کو تباہ و برباد کردیا۔ ان کے پھلنے پھولنے کی جگہ بالکل ہی سمٹ کر رہ گئی تھی۔ ٹريد یونین سرگمیاں بھی اب اتنی آسان نہ تھين جتنی یہ پہلے ہوا کرتی تھیں۔ پرانی یونین کی روایت سے ربط ٹو جانے اور ایک بڑی تعداد میں مہاجر مزدوروں کی آمد اور ویزے پہ پابندیوں نے یونین سرگرمی کو بتدریج ناممکن بنادیا تھا۔ مذہبی سیاست کے ابھار اور فرقہ واریت کے نفاذ نے مارکس واد کی عقل پرست دنیا کو روزمرہ زندگی میں اجنبی بنادیا تھا۔
تاہم 90ء اور 2000ء کے عشرے میں متحرک سیاسی تحریکوں کا ابھار ہوا۔ نئی سیاسی تحریکیں فلسطین سے یک جہتی، تیونس کی کانوں میں اور مصر کے کارخانوں میں بہادر ٹریڈ یونین کوششوں ، عورتوں کے حقوق اور تارکین وطن مزدوروں کے حقوق کے گرد نئی سماجی تحریکوں نے جنم لیا۔ ان سب کوششوں نے مل کر عرب دنیا میں بہار عرب کو پیدا کیا۔ مثال کے طور پہ مصر میں "عیش و حریۃ پارٹی” (روٹی و آزادی پارٹی) نے پھر سے سوشلسٹ روایت سے تعلق جوڑا مصر میں فوجی غالب ریاست اور سیاسی اسلام کے خلاف ایک نئی قسم کی سیاست کو رائج کیا۔
آج عرب دنیا میں سیاست کے اندر بائیں بازو کے خیالات کو پھر سے قبولیت ملنا شروع ہوئی ہے۔ ہمدان عرف مہدی عامل جیسے مارکس وادیوں کے خیالات اور کتابوں میں دلچسپی کی ایک نئی لہر سامنے ہے۔ تیونس،۔ مصر، شام، لبنان اور فلسطین میں احتجاجی مظاہروں میں مہدی عامل کے بڑے بڑے پوٹریٹ لوگوں کے ہاتھوں میں نظرائے۔
نوٹ: اس مضمون کے لیے حسان ہمدان کی کتابوں سے مدد لینے کے علاوہ لیفٹ ورڈبکس کے ایڈیٹر وجے پرشاد کے مضمون سے بھی مدد لی گئی ہے
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر