اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

برطانوی محاصرہء ملتان   (ایک ڈرامائی بیانیہ۔تیسرادرشن)||امجد نذیر

کچھ نقصان برداشت کرنے کے بعد سپاہِ ملتان پیچھے ہٹی اور واپسی کا سفر شروع کر دیا، اُنہیں ملتان کے قلعہ تک پہنچنا تھا تا کہ دفاعی مورچوں کی پناہ میں دُشمن پر دوبارہ بھاری بھرکم حملے کئے سکیں ۔

امجد نذیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یکم اپریل 1848 تا 26 جنوری 1849
مآخذات: (جاہن جونز کولے، مرزا ابن حنیف، پروفیسرعزیزالدین احمد، احمد رضوان اور دوسرے ذرائع)
تعارف : تعارف : ریاست ملتان کی قدامت، دریائے سندھ اور چناب کی عطا کردہ خوشحالی اور اہم ترین محلِ وقُوع کیوجہ سے ریاست ملتان کے ایک نہیں کئی محاصرے ھوئے اور ھوئے ھونگے، کُچھ معلوم اور کچھ نا معلوم ۔ مثلا 325 قبل مسیح میں سکندر مقدونی (جِسے ایران میں سکندر ملعون کے نام سے جانا جاتا ہے) کا محاصرہ، ٧١٢ میں محمد بن قاسم کی یلغار، 1175 میں محمد غوری کا حملہ، 1296 میں علاوٗالدین خِلجی کا محاصرہ، 1320 میں غیاثالدین بلبن کی تباہ کاریاں، 1397 میں تیمور لنگ کے پوتے پیر محمد کا قبضہ، 1810 سے 1818 تک نجیت سنگھ کی پئے در پئے یلغاریں اور قبضہ وغیرہ مگر تاریخ میں جسقدر جُزیاتی تفصیل برطانوی محا صرے اور ملتانی مزاحمت کی موجود ھے شاید کِسی اور کی موجود نہیں ۔
کسی بھی ڈرامائی بیانیے میں واقعات، کردار، تنازعات اور انجام ڈرامائی ایکشن کی جان ھوتے ھیں، اور 1848 میں کئیے گئے برطانوی محاصرے میں یہ تمام خصوصیات برجہء اُتم موجود ہیں، اِسی لئے برطانوی محاصرہ شاید واحد محاصرہ ھے جسے اپنے ڈرامائی خوبیوں سمیت دوبارہ بیان کیا جا سکتا ھے ۔ زیر نظر تحریر اسی نوعیت کی ایک کوشش ہے ـ آخر میں یہ عرض کرنا بھی ضروی ہے کہ راقم الحروف نے جاہن جوہنز کولے کے ‘پروٹاگونسٹ’ اور ‘اینٹاگونسٹ’ کو اَدل بَدل کرڈالا ہے اور مزید حالات و واقعات کی منظر کشی کے لئے درج بالا مصنفین سے استفادہ کیا ہے تاکہ ملتان دھرتی کا دفاع کرنے والوں کو تاریخ میں اُن کا درُست مقام دلوایا جا سکے ـ
اور یہ عرض کر نا بھی ضروری ہے کہ رنجیت سنگھ کی جارحیت کے پس منظر میں پنجابی (سِکھ) حُکمران ہونے کے ناطے مُولراج کی سیاسی حیثیت بھی سرائیکی اور ملتانی مورخین و مبصرین کے نزدیک زیادہ پسندیدہ نہیں رہی ـ راقم الحروف نے زیر نظر تحریر، جو تحقیق، ترجمہ اور تخلیق کا مرکب ہے، عروُس البلاد ملتان کی محبت اور اہمیت کے پیش نظر لِکھی ہے تاکہ برطانوی عسکری یلغار کیساتھ ساتھ تقریبا” پونے دو سو سال پہلے کے ملتان اوراسکے گردو نواح کا معاشرہ اور انگریزوں کے ساتھ مختلف معرکوں کا منظر اپنی جُزیات سمیت دِکھایا جا سکے ـ اِس پورے منظر میں مُولراج اور دوسرے سکھ ، مسلمان اور ہندو مزاحمت کاروں، سپاہیوں اور مُجاہدوں کی جو بھی سیاسی اور تاریخی حیثیت بنتی ہے، اُسکا فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا گیا ہے ـ
تیسرا درشن :
چارو نا چار لیفٹینینٹ ایڈورڈزاب میدانِ کارزار میں اُترپڑا ـ اپنی موجودگی اور مثال کے ذریعے وہ اپنی فوج کی ہمت اور حوصلے میں بھی اضافہ کرنا چاہتا تھا ـ خلفشارِ حرب میں کُود کر وہ سب سے آگے جا کھڑا ھوا جہاں 3 ھزار سپاہی اور 80 گُھڑسوار پہلے ہی سے موجود تھے ـ اُس نے سپاہیوں کی بائیں جانب لمبی لمبی گھاس اور جھاڑ جَھنکار میں چُھپ کر اپنی پوزیشن سمبھال لی ـ 18 جُون 1848 کوصُبح کے سات آٹھ بجے کُنہری کے مقام پر ہردو جانب، یعنی مُولراج کی فوج اور بہاولپوری سپاہیوں کے درمیان، توپوں کی گھنگھرج شروع ہو گئی ـ
ملتا نی فوج میں میں لگ بھگ 10,000 (دس ھزار) سپاہی تھے ۔ جن میں تقریبا” دو ھزار کے قریب گُھڑ سوار اور دس بڑی بندوقیں شامل تھیں ۔ جبکہ نواب بہاولپور کی امدادی فوج میں 9000 (نو ھزار) سپاہی اور گیارہ بندوقیں ۔ ھردو جانب کئی گھنٹوں تک گولا بارُود اورکراس فائرنگ جاری رھی، یہاں تک کہ نواب صاحب کے ارسال کردہ معاون دستہ نے، کچھ نقصان اٹھا کر فائرنگ کم کر دی اور پیچھے ہٹنا شروع کر دیا ۔ جبکہ ملتان کے مہاراجہ مُولراج کی فوج نے مسلسل بمباری جاری رکھی اور دھیرے دھیرے آگے بڑھتی رھی ۔ صورت حال اپنے خلاف جاتے ھوے دیکھ کر بہاولپوری دستہ مزید پیچھے ہٹتا گیا اور پَس منظر میں کوئی محفوظ ٹھکانہ تلاش کر کے فائرنگ رینج سے اوجھل ہو گیا ۔ جو لوگ زخموں کی تاب نہ لا کر جان کی بازی ھار چکے تھے وہ میدان جنگ میں سورج کی لرزہ خیرہ کرنوں پر معلق جُھلستے رہ گئے ۔ پہلے ایکشن پر ہی سبق آموز شکست سے دوچار ھونے کے بعد یا پھر معا ملے کی دورُخی پیچیدگی کو سمجھتے ھوئے ‘کہ اپنی دھرتی کا دفاع کرنے والوں کیخلاف محاز آرائی مُناسب نہیں’ یا تو نواب صاحب کا بھیجا ھوا امدادی دستہ خود ھی واپس چلا گیا یا پھر نواب صاحب نے گھبرا کر اُنہیں واپس بلا لیا ۔ مگر ایک بات واضح ھے کہ اِس مختصر تعاون کے بعد نواب نے پھر کبھی کوئی دستہ ملتان پر لشکر کشی کے لئے روانہ نہ کیا ۔
اب صرف لیفٹینینٹ ایڈورڈ کی مُٹھی بھر فوج ہی مولراج کی حوصلہ مند سپاہ کا سامنا کرنے کے لئے باقی رہ گئی – اِن دونوں کے درمیان ابھی کوئی دوسری محاذ آرائی نہیں ھوئی تھی ۔ ایڈورڈ، کارٹلینڈ کے تازہ دم سپاہیوں (بشمول کچھ مقامی غداروں) ، گَنوں اور گھوڑوں کی آمد کا منتظر تھا اور اُسکی کوشش یہی تھی کہ فتح اور شکست کے اس دوراہے پر وہ مُولراج کی فوج کو اس وقت تک ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھنے دے جب تک کارٹلینڈ کی عسکری کمک اُس تک پہنچ نہ جائے ۔ البتہ صورتِ حال کو بھانپتے ھوئے کماندار مولراج نے اپنی دھواں دھار پیش رفت جاری رکھی اور تمام تر توپوں کا رُخ ایڈدوڈ کی پوزیشن کی طرف موڑ دیا ۔ اپنی پیادہ فوج کو دُشمن کیطرف بڑھنے کا اشارہ کیا ۔ بندوقوں سے فائر کھول دیا، جبکہ اُسکے گُھڑ سواروں نے دُشمن کے بائیں اور عقب کو گھیرے میں لے لیا ۔ ذلت اور رسوائی سے بھر پور شکست ایڈورڈ اور اسکے سپاہیوں کے سروں پر مَنڈلانے لگی ۔ بس اب دشمن کی تھوڑی سی پسپائی اور ذراء سے قدم اکھڑنے کی دیر تھی کہ مولراج کی فوج اُنکو نیست و نابود کرکے رکھ دیتی ۔ کیونکہ بہاولپور کا اتحادی دستہ پہلے ہی میدان چھڑ کر بھاگ چکا تھا اور کارٹلینڈ کے آدمی اور اسلحہ ابھی تک راستے میں تھے ۔
ایسی صورتِ حال میں وہ یا تو اکیلے اکیلے یا پھر چھوٹے چھوٹے گروھوں کی شکل میں ایڈورڈ کی قریب از مَرگ فوج کو جوائن کر سکتے تھے ۔ مگر ایڈرورڈ نے رہا سہا حوصلہ جمع کرتے ھوئے تہیہ کیا کہ وہ ہتھیار ڈالنے یا بھاگ کھڑا ھونے کی بجائے بہادرانِ مُلتان کی مزاحمت کو کم از کم اِتنی دیر اور روکے گا جِتنی دیر میں کارٹلینڈ کے ھمراہ مزید اسلحہ اور افراد پہنچ سکیں ۔ تقریبا” 8 بجے اُس نےکارٹلینڈ کو ایک بار پھر خط لکھا اور کہا: "کہ مَیں لگ بھگ 3 بَجے تک مزید مُولراج کی چڑھائی کو روکنے کی کوشش کروں گا، اگر اُس وقت تک نئی بندوقیں اور سپاہی نہ پہنچے تو بے عزتی کی موت اور عِبرت ناک شکست ھمارا مُقدر بن جائیں گے” ۔
اِسی امید کے سہارے ایڈورڈ نے اَپنی اُکھڑتی ھوئی سانسیں سنمبھال کر ہر ممکنہ طور پر مضبوط سے مضبوط اور بہتر سے بہتر پوزیشن اختیار کرنے کی اور وقت لینے کی کوشش جاری رَکھی ۔ ایک چال چلتے ھوئے اُسنے اپنے آدمیوں کو زمین پر اسطرح دراز ھو جانے اور کوئی بھی فائر نہ کرنے کا حکم دیا کہ سپہ سالار مُولراج اور اسکے وفادار سپاہیوں کو انکی پوزیشن، توانائی اور تعداد کا ہرگز اندازہ نہ ھو سکے ۔ وہ یہ چاہتا تھا کہ مولراج کے سپاہی اُنکی موت یا پسپائی قیاس کر کے آگے بڑھیں اور وہ قریب سے اُنکا نشانہ باندھ سکیں ۔ایڈورڈ کو زمین کی ھمواری یا نا ھمواری اور نرمی اور سختی کا قطعا” کوئی اندازہ نہیں تھا اور اسے خدشہ تھا کہ ایسی جگہ پر اپنی مُختصر آرٹلری اور گُھڑ سواروں کو حرکت دینا مشکل بھی ھوگا اور پُر خطر بھی ـ
لیکن اس تمام صورتِ حال کے با وجُود اُسکو فائدہ یہ حاصل ھوا کہ مُولراج اور اُسکی فوج کو اُنکی بالکل درست تعداد اور مُقام کا اندازہ نہیں ھو رہا تھا اور اَگر اُنہیں اندازہ ھوتا کہ دُشمن کی تعداد بہت کم اور حوصلہ اور اَسلحہ اس سے بھی کم باقی رہ گئے ھیں تو شاید ایک اور زوردار ہلے میں ہی وہ اُنکا کام تمام کر دیتے ۔ تاھم انہوں نے کچھ فاصلے تک مُحتاط پیش رفت ضرور کی – آگے بڑھے مسکیٹوں (باروُد بھری بڑی بندوقوں) سے کچھ راونڈ فائر کئے اور دشمن کی پوزیشن مزید کمزور کر دی ۔ ایڈورڈ کے آدمیوں نے جوابی فائرنگ کی مگر پتھراَوصاف ایڈورڈ نے اپنی جگہ نہ چھوڑی ۔ پھر بھی مولراج کے آدمیوں کی مُسلسل پیش رفت سے گھبرا کر کچھ دیر میں ہی اُن کے پاوں اکھڑنے لگے اور ناہنجار ایڈودڈ کو یقین ھونے لگا کہ اگر کارٹلینڈ کی اِمداد فوری طور پر نہ پہنچی تو وہ اور اُسکے مٹھی بھر پیروکاروں کا صفایا ہو جا ئے گا ۔ اُسکے اپنے الفاظ میں جو اس نے کارٹلینڈ کو لِکھے”میرے خیال میں میرے پاس زندہ رہنے کے لئیے شاید دس منٹ سے زیادہ باقی نہیں ہیں” ـ
مولراج کے جانباز سپاہیوں نے اب کم و بیش صورتِ حال بھانپ لی تھی ۔ اور اُنہیں اندازہ ھو چلا تھا کہ ایک زور دار ہلہ بول کر وہ دشمن کو نیست و نا بود کر سکتے ہیں ۔ ایڈورڈ موت و حیات کی جنونی کیفئت میں مبتلاء تھا، اُسے یہ خوف کھائے جارھا تھا کہ اگر فوری طور پر کُچھ نہ کیا گیا تو چند گھنٹوں میں اُنکی وہ حال ھوگا کہ لوگ اگینو اور اینڈرسن کو بھول جائیں گے ۔ اُس نے ملتانی سپاہ کی مزید پیش رفت روکنے اور وقت لینے کی ایک آخری کوشش کی ۔ اور اپنی کمان میں موجود گھڑ سواروں کو آگے بڑھ کر فائر کرنے کا حُکم دیا جس کے نتیجے میں ایڈورڈ کے بہت سے سپاہی اور ملتان کے کُچھ مُجاہد بھی مارے گئے ۔ اس غیر متوقع جھڑپ کو دیکھ کر ملتانی جوانوں نے آگے بڑھنے کا ارادہ ترک کر دیا مبادہ انکے اندازے کے بر خلاف ایڈورڈ کی کمان میں کوئی بڑی فوج نہ چھپی ھوئی ھو ۔ اور یہی اُنکی سب سے بڑی غلطی تھی – مکار ایڈود کو جو وقت درکار تھا وہ اُسے مِل گیا اور کارٹلینڈ کی معیت میں منتظرہ کُمک پہنچ ہی گئی ۔
پہلے ایک گَن ، پھر دوسری اور پھر تیسری اور اِسی طرح ایک ایک کرکے تمام آرٹلری اور تازہ دم رجمنٹ (جس میں لوکل غدار اور انگریز سپاہی دونوں شامل تھے) لیفٹینینٹ ایڈورڈ کی کمان میں آن پہنچے ۔ اور پھر وہی ھوا جس کا ڈر تھا ـ
پہلے ایک توپچی نے فائر کھولا، پھر دوسرے اور پھر تیسرے نے اور اِسی طرح ایک ایک کر کے تمام توپچیوں نے ملتانی مورچوں پر چھوٹے بڑے گولے داغنا شروع کر دیے ۔ پَل بھر میں نَو وارد آرٹلری نے آگ اُگلنا شروع کر دی ۔ اب مولراج کے تھکے ماندے سپاہیوں کا مقابلہ ایڈورڈ کی تازہ دم فوج سے تھا جسکی تعداد پانچ ھزار سے کم نہ ھوگی ۔ اُنہوں نے آو دیکھا نہ تاو یکمُشت چھ توپچیوں اور بیسیوں بندوقوں سے سرزمینِ مُلتان کا سینہ چَھلنی کرنا شروُع کر دیا۔ اَب سے کُچھ دیر پہلے کے نیم مردہ و نومید ایڈروڈ کے تن بدن میں بجلیاں دوڑنے لگیں اور وہ میدان جنگ میں اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر اپنے جوانوں کو ہدایات دیتا اور ہمت افزائی کرتا دکھائی دیا ـ عَین اُسی طرح اُسکے افسران اُسکے احکامات کو آگے بڑھا تے رہے ۔
ھر چند کہ لیفٹینینٹ ایڈورڈ کے جوان تھک چکے تھے اور انکی سانسیں اکھڑنے لگیں تھیں لیکن پھر بھی وہ افسران بالا کی تائید میں اندھ دھند فائرنگ کئے جا رھے تھے کیونکہ اب کافی ایندھن اُن کے پاس موجود تھا ۔ ایڈورڈ نے رفتہ رفتہ انہیں آگے بڑھنے کا حکم دیا، ملتان کی سپاہ تھوڑی سی پیچھے کو سِرکی، ایڈورڈ کے سپاہی کچھ اور آگے بڑھے اور کچھ آگے جا کر اُنہوں نے تلواریں سونت لیں اور بندوقوں پر سنگینیں چڑھا لیں ۔ گُھڑ سوار نہ ھونے کی وجہ سے وہ مزید آگے نہیں بڑھ سکتے تھے مگر مولراج کی تھکی ماندی سپاہ پہلے ہی حوصلہ ہار کر پسپائی اختیار کرنےلگی تھی مگر دونوں کے درمیان کراس فائرنگ جاری تھی ۔ کچھ دیر توازن کے بعد گُھمسان کی لڑائی ھوئی، دونو ں اطراف میں کافی جانی و مالی نقصان ھوا جِسکی تعداد اور دعوے تاریخ میں متنازعہ ہی رھے ۔ البتہ ملتانی دفاع کاروں کی تقریبا” سات آٹھ بندوقیں دَھرلی گئیں ۔
کچھ نقصان برداشت کرنے کے بعد سپاہِ ملتان پیچھے ہٹی اور واپسی کا سفر شروع کر دیا، اُنہیں ملتان کے قلعہ تک پہنچنا تھا تا کہ دفاعی مورچوں کی پناہ میں دُشمن پر دوبارہ بھاری بھرکم حملے کئے سکیں ۔ لیکن پہلے دونوں افواج نے اپنے جوانوں کی، جو اِس معرکے میں کام آئے تھے، اپنی اپنی رسومات کے مطابق تدفین کی، زخمیوں کو ساتھ لیا اور اگلے معرکے کی تیاری شروع کر دی ۔
کُمک کی فراھمی سے ایڈورڈ کی انگریز ی افسران اور غداروں پر مشتمل فوج میں اب کئی گُنا اضافہ ھو چکا تھا ۔ مجموعی طور پر اُنکی بٹالئین کی تعداد 18000 بشمول 4000 سواروں کے ھو چکی تھی ۔ جس میں جنرل کارٹلینڈ کے رسمی، لیفٹینینٹ ایڈورڈ کے غیر رسمی سپاہی جو اس نے دریائے سندھ کے دائیں کناروں سے جمع کئے تھے اور بہاولپوری سپاہی، جن کی قیادت کرنے کے لئے لیفٹینینٹ لیک کو جالندھر سے بھیجا گیا تھا، سب شامل تھے ۔ تقریبا” 31 توپیں، توپچیاں اور بندوقیں (اپنی اور مقبوضہ سب ملا کر) اب اُنکی دستبرد میں تھیں ۔
مُلتانی افواج نے حِکمت کے تحت سُرعت سے مُلتان شہر کیطرف مارچ شروع کر دیا اور سورج کُنڈ سے پہلے انگریزوں کی اتحادی فوج کے آگے کوئی مزاحمت پیش نہ کی ۔ سورج کُنڈ شہر کے جنوب مغرب میں ایک چھوٹا سا گاوں ھے ۔ ملتان شہر اور سورج کنڈ کے درمیان ایک بُھربُھرے اور غیر منظم کناروں والی آڑی ترچھی گہری، تیز اور نہایت کارآمد نہر بہتی ھے اور کِسی مہربان اژدھے کی طرح قلعہ کے قریب سے گزرتی ھوئی جنوب مغربی راستے سے کئی میل آگے کو چلی جاتی ھے ۔ گرمیوں کے پانچ چھ ماہ اس میں خوب خوب پانی رواں دواں رہتا ھے اور مختلف مقامات سے کئی اور چھوٹے بڑے نالے کھالے اِسمیں سے نکلتے ھیں جو کاشتکاری کے بڑے بڑے رقبوں کو سیراب و آباد کرتے ہیں ۔ ملتان شہر کی ہریالی و آبیاری میں اس نہر کا کردار انتہائی اھم ھے ـ
(جاری) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

                                               

***

اے وی پڑھو:

تریجھا (سرائیکی افسانہ)۔۔۔امجد نذیر

چِتکَبرا ( نَنڈھی کتھا )۔۔۔امجد نذیر

گاندھی جی اتیں ٹیگور دا فکری موازنہ ۔۔۔امجد نذیر

گامݨ ماشکی (لُنڈی کتھا) ۔۔۔امجد نذیر

سرائیکی وسیع تر ایکے اتیں ڈائنامکس دی اڄوکی بحث ۔۔۔امجد نذیر

امجد نذیر کی دیگر تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: