جون 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چلّی میں لیفٹ کی فتح دائیں بازو کے حکمران اتحاد واموس کو بدترین شکست||عامر حسینی

اس چناؤ کے زریعے 155 ڈیلی گیٹ آئین ساز کونسل کا حصّہ ہوں گے جو کم از کم نو ماہ میں اور زیادہ سے زیادہ ایک سال میں نئے آئین کا ڈرافٹ تیار کریں گے۔ پھر اس ڈرافٹ کو ایک عام ریفرنڈم کے زریعے نافذ کرنے یا اسے رد کرنے کا فیصلہ ہو گا۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لاطینی امریکہ کے اہم ترین ملک چلّی میں حکمران دائیں بازو کے اتحاد واموس چلّی کو بدترین شکست کا سامنا۔ ووٹر نے 28 فیصد ووٹ ڈالے اور 155 ممبران پہ مشتمل آئین ساز کونسل میں اس کی 38 نشستیں ہوں گی- لیفٹ پارٹیوں کو 53 نشستیں اور آزاد امیدواروں کو 46 نشستیں ملنے کا امکان ہے۔

لاطینی امریکہ کے ملک چلّی میں نئے آئین کی تشکیل کے لیے آئین ساز کونسل کے انتخاب میں 90 فیصد گنتی مکمل ہوچکی ہے اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق کونسل میں ازاد امیدوار 45 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑا گروپ بن کر ابھرے ہیں۔ سنٹر لیفٹ نے25 اور فار لیفٹ نے 28 نشستیں لی ہیں- کامیاب ہونے والے ازاد امیدواروں کی اکثریت کو چلّی کے لیفٹ گروپوں اور جماعتوں کی حمایت حاصل تھی۔

چلی میں پھر سے لیفٹ کی برتری

چناؤ کے غیر سرکاری نتائج سے واضح طور پہ معلوم ہورہا ہے کہ آئین ساز کونسل میں فار لیفٹ، سنٹر لیفٹ اور لیفٹ کی طرف رجحان رکھنے والے آزاد امیدواروں کی اکثریت باہمی اشتراک کریں۔ چلّی میں 31 سال بعد بائیں بازو کی سیاست اور مطالبات سے مطابقت رکھنے والے آئینی ڈرافٹ کی تشکیل کے امکان روش ہوگئے ہیں۔

اس چناؤ کے زریعے 155 ڈیلی گیٹ آئین ساز کونسل کا حصّہ ہوں گے جو کم از کم نو ماہ میں اور زیادہ سے زیادہ ایک سال میں نئے آئین کا ڈرافٹ تیار کریں گے۔ پھر اس ڈرافٹ کو ایک عام ریفرنڈم کے زریعے نافذ کرنے یا اسے رد کرنے کا فیصلہ ہو گا۔

نئے آئین کی تشکیل کا فیصلہ 2019ء میں چلّی میں سماجی تفریق کے بڑھ جانے کے بعد ملک گیر احتجاجی تحریک کے بعد کیا گیا تھا۔ اس کے لیے ملک گیر ریفرنڈم ہوا جس میں 78 فیصد اہل ووٹر نے نئے آئین کی تشکیل کے حق میں ووٹ دیا گیا۔ الیکشن اپریل 2020ء میں ہونا تھے جو کورونا کی لہر کے سبب ملتوی ہوئے تھے۔

چلّی میں فار لیفٹ الائنس کی قیادت کمیونسٹ پارٹی آف چلّی کررہی ہے جس نے 46 امیدوار آئین ساز کونسل کے انتخاب میں اتارے تھے جن میں سے 28 کو کامیابی ملی ہے اسے فار رائٹ کی بڑی فتح قرار دیا جارہا ہے۔ فار لیفٹ نے جن تیرہ آزاد امیدواروں کو سپورٹ کیا وہ بھی کامیاب ہوگئے۔ اس سے امکان ہے کہ فار لیفٹ کو آئین ساز کونسل میں اکتالیس اراکین کی سپورٹ حاصل ہوگی۔ سنٹر لیفٹ کم از کم بیس کامیاب آزاد امیدواروں کی حمایت کے ساتھ کونسل میں اڑتالیس اراکین کی حمایت رکھے گا اس طرح لیفٹ مجموعی طور پہ آئین ساز کونسل میں 155 میں سے 87اراکین پہ مشتمل ہوسکتا ہے۔ اسے شوشل ڈیموکریٹس، گرین اور ہیومن رائٹس گروپوں کی حمایت سے منتخب ہونے والے ازاد امیدواروں اور 17 مقامی چلّی باشندوں کے نمائندوں کی بھی مکمل حمایت حاصل ہوگی۔

 

چلّی میں سفید فام نسلی گروہ آبادی کا79فیصد ہے اور مقامی آبادی21 فیصد ہے۔ ملک میں مزدور اور کسانوں کی کل آبادی کا 95 فیصد ہیں۔
مذہبی اعبتار سے رومن کتھولک 45 فیصد، لامذہب 36 فیصد ،15 فیصد پروٹسنٹ اور 3 فیصد دیگر مسیح فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں ایک فیصد کا تعلق دوسرے مذاہب سے ہے۔

دائیں بازو کی جماعتیں کمزور نکلیں

یونیورسٹی آف رچمنڈ میں پولیٹکل سائنس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر جینفر پربل نے کہا ہے کہ آئین ساز کونسل کے چناؤ کا نتیجہ صاف اشارہ ہے کہ دایاں بازو سرمایہ دار میڈیا میں پیش کیے گئے اندازوں سے بھی کہیں زیادہ کمزر تھا۔ چلّی کی عوام نے نیولبرل ازم ، منڈی کی معیشت اور نجی ارتکاز دولت کی حامی سیاسی جماعتوں کو شٹ اپ کال دی ہے۔

چلّی میں بائیں بازو کے حمایت یافتہ امیدواروں کی کامیابی پہ عوام میں جشن کا سماں ہے۔ لوگ گلیوں اور بازاروں میں والہانہ انداز سے نکل کر دائیں بازو کی شکست اور عوام دوست قوتوں کی فتح کا جشن منارہے ہیں ۔
اکثر کی رائے ہے کہ “ہمیں ایک ایسے آئین کی ضرورت ہے جو چلّی کے سارے باشندوں کی مدد کرے ناکہ وہ صرف دولت مندوں کی خدمت گزاری کا کام سرانجام دے۔ ہمیں عوام دوست آئین چاہیے۔”

حکومت مخالف ملک گیر تحریک

چلّی میں اپریل 2019ء میں دائیں بازو کے اتحاد واموس چلّی کی حکومت کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک چلی تھی۔ اس تحریک میں مزدور، طالب علم ، کسان اور درمیانے طبقے کی بہت بڑی تعداد نے حصّہ لیا۔ تحریک کی قیادت بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں، تنظیميں اور ان کے حمایت یافتہ فرنٹ کررہے تھے۔ تحریک کا مرکزی نعرہ نئے آئین کی تشکیل تھا دیگر مانگوں میں بے روزگاری ، مہنگائی، بھوک ،غربت کا خاتمہ تھا۔ چلّی کی اس ملک گیر احتجاجی تحریک نے دائیں بازو کی اشراف پسند، نیولبرل اور افربا پرور سرمایہ دارانہ پالیسیوں کو یکسر مسترد کردیا تھا۔ اتنے بڑے پیمانے پہ احتجاج سے مجبور ہوکر چلّی کے ارب پتی صدر چلّی میں نئےآئین کی تشکیل کرنے یا نہ کرنے پہ ملک گیر ریفرنڈم کرانے پہ مجبور ہوئے جس میں 78 فیصد ووٹر نے نئے ائین کی تشکیل کے حق میں ووٹ دیا۔

چلّی میں آئین ساز کونسل کے ساتھ ساتھ بلدیاتی اداروں میں بھی انتخابات کا انعقاد ہوا ہے جس میں اکثر شہروں میں سنٹر و فار لیفٹ کے امیدوار کونسلر اور مئیر منتخب ہوئے ہیں۔ دائیں بازو کے حمایت یافتہ امیدواروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

چلّی میں دائیں بازو کی شکست میں کارفرما دیگر عوامل میں سے ایک فوری عنصر دائیں بازو کی اتحادی حکومت کا کورونا وبا سے نمٹنے میں ناکامی بھی بتائی جارہی ہے۔ اس وبا نے چلّی کے نظام صحت کے اشراف پسند ہونے کو ننگا کردکھایا۔

پوسٹ کورونا سیاسی منظر نامے میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو اکثر ممالک میں شکست کا سامنا کرنے کے امکانات زیادہ ظاہر کیے جارہے ہیں-


پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت کی 6 ریاستوں کے انتخابات میں دائیں بازو کی مرکز میں اقتدار کی مالک بی جے پی کو پانچ ریاستوں میں کھلی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کیرالہ و بنگال میں تو اسے بائیں بازو اور سوشل ڈیموکریٹ جماعتوں کے اتحاد کے ہاتھوں بدترین شکست ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: