نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

فلسطینی تحریک مزاحمت کل اور آج||حیدر جاوید سید

آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ یاسر عرفات کی پی ایل او (اب اس کی قیادت اور فلسطینی اتھارٹی کی صدارت محمد عباس کے پاس ہے) سیکولر نظریات کی حامل تھی اور ہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسرائیل اور فلسطینی پی ایل او کے درمیان اوسلو معاہدہ 1993ء میں ہوا تھا۔ یہ معاہدہ درحقیقت امریکہ کے دو ریاستی منصوبہ کا بیانیہ تھا۔
پی ایل او نے اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کیا اور اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی (حکومت) کو۔ اوسلو معاہدہ کے تحت دونوں فریقین، اسرائیل اور فلسطین کو 1995ء میں دوبارہ مذاکرات کی میئر پر بیٹھنا تھا اور یہ بیٹھے بھی۔ تب حماس بھی اس معاہدہ کے تحت بننے والے فلسطینی سیٹ اپ کا حصہ تھی۔
اوسلو معاہدہ کی روح یہ تھی کہ اسرائیل اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق 1967ء کی جنگ کے دوران ہتھیائے گئے علاقوں سے دستبردار ہوکر اپنی سابقہ پوزیشن پر چلا جائے گا۔
اسرائیل اس معاہدہ پر اس کی روح کے مطابق عمل کرتا تو مشرقی یروشلم فلسطینی اتھارٹی کے زیراختیار آجاتا ہے ایسا ہوتا تو تنازع ہی ختم ہوجاتا لیکن پھر یہ ہوا کہ ادھر شدت پسند یہودی اوسلو معاہدہ کے مخالف ہوئے تو دوسری طرف حماس اور اسلامی جہاد نامی تنظیمیں اس معاہدہ کے خلاف ہوگئیں۔
اوسلو معاہدہ کرنے والے اسرائیلی وزیراعظم اسحق رابن کو صہیونی انتہا پسند ایگل عمیر نے قتل کردیا اور پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات کی موت کی وجہ زہر خورانی بتائی گئی اس کے حوالے سے دو باتیں سامنے آئیں اولاً یہ کہ زہر محافظ دستے میں سے کسی نے دیا جبکہ دوسری رائے میں ان کی اہلیہ پر شک کا اظہار کیا گیا۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ یاسر عرفات کی پی ایل او (اب اس کی قیادت اور فلسطینی اتھارٹی کی صدارت محمد عباس کے پاس ہے) سیکولر نظریات کی حامل تھی اور ہے۔
پی ایل او میں خطہ فلسطینی کی تینوں آبادیوں مسلمان، عیسائی اور مقامی یہودی شامل تھے جبکہ سلفی عقائد کی حامل حماس اور اسلامی جہاد میں مسلمان ہیں۔
حماس کا دعویٰ ہے کہ ان کی تنظیم میں مقامی عیسائی بھی شامل ہیں۔
ثانیاً یہ کہ اسرائیل اور حماس کی پچھلی جنگ کے دوران یہ الزام بھی سامنے آیا کہ اسرائیل حماس کے اہم مقامات کو نشانہ بنانے میں اس لئے کامیاب ہوسکا کہ اس جنگ سے قبل غزہ اور ملحقہ علاقوں میں کام کرنے والے متحدہ عرب امارات کے میڈیکل مشن کے ارکان نے اسرائیل کے لئے جاسوسی کی اور اہداف کی نشاندہی کی۔
یہ الزام محض ہوائی ہرگز نہیں تھا بلکہ حماس کی قیادت نے باضابطہ طور پر شام کے توسط سے متحدہ عرب امارات سے احتجاج کیا اور مستقبل میں متحدہ عرب امارات کے کسی بھی امدادی مشن کے غزہ میں داخلہ پر پابندی عائد کردی۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان حالیہ جنگ جمعتہ الوداع کے دن سے شروع ہوئی۔ دیسی ساخت کے دو سو کے لگ بھگ میزائل حماس کی طرف سے اسرائیلی آبادیوں اور اہم مقامات کی طرف پھینکے گئے۔
زیادہ تر میزائل اسرائیل کے ایئر ڈیفنس سسٹم نے فضا میں ہی ناکام بنادیئے۔ کچھ میزائل اپنے ہدف کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہے۔
پچھلے ہفتہ بھر سے جاری اسرائیل و حماس جنگ میں9اسرائیلی اور ایک بھارتی سیاح خاتون مارے گئے جبکہ تادم تحریر 200کے قریب فلسطینی جاں بحق ہوئے ان میں 27بچے بھی شامل ہیں۔ 1170 مردوزن اور بچے زخمی ہوئے۔
اسرائیلی طیاروں اور توپوں کی بمباری سے غزہ کے کھنڈرات میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ پی ایل او اپنے سیکولر نظریات کی وجہ سے اسرائیل فلسطین تنازع کو دو اقوام کا تنازع قرار دیتی تھی اور اب بھی اس کا یہی موقف ہے۔ مقابلتاً حماس اور اسلامی جہاد اسے مسلم یہودی جنگ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
قومی آزادی کی تحریک کو مذہبی رنگ دینے سے حماس اسرائیل کے لبرل حلقوں کی فلسطینیوں کے لئے موجود حمایت گنوابیٹھی۔ اس وقت اسرائیلی لبرل حلقے پی ایل او کے لئے تو نرم گوشہ رکھتے ہیں لیکن حماس اور اسلامی جہاد کے لئے نہیں البتہ اسرائیل کی سوشلسٹ پارٹی اسرائیل حماس جنگ کو انسانیت کے لئے المیہ قرار دیتی ہے۔
حالیہ جنگ نے غزہ کے لوگوں کو ایک نئے المیہ سے دوچار کردیا ہے۔
حماس اور اسرائیل کی پچھلی جنگ میں مصر نے غزہ سے ملحقہ سرحد بند کرکے محصور فلسطینیوں کی مشکلات میں اضافہ کیا تب اردن بھی مصر کا ہمنوا تھا۔
موجودہ صورتحال میں او آئی سی اور عرب لیگ دونوں مجرمانہ خاموشی کے مظاہرے میں مصروف ہیں۔ عرب لیگ شاید ماضی کی طرح کا کردار اس لئے ادا نہ کرسکے کہ اس کے چند اہم رکن ممالک نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کر لیے ہیں۔
مصر، ترکی اور اردن پہلے سے ہی سفارتی تعلقات میں بندھے ہوئے ہیں۔ اردن اور مصر مکمل خاموش ہیں۔
رجب طیب اردگان بڑھکوں کی عادت سے دلپشوری فرمارہے ہیں۔
گزشتہ روز حماس کے ایک رہنما کا ویڈیو پیغام سامنے آیا جس میں انہوں نے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے توسط سے حکومت پاکستان سے مدد کی اپیل کی ہے۔
ہمارے یہاں جس بنیادی حقیقت کو نظرانداز کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ قومی آزادی کی تحریک خالص مذہبی رنگ میں پیش کرنے اور اسلام و یہودیت کی لڑائی کے نعرے مارنے والوں نے فلسطینی عوام کی جدوجہد کے لئے دنیا میں موجود اخلاقی حمایت میں کمی کروائی ہے۔
مثلاً فرانس جو فلسطینی اتھارٹی کا ہمیشہ پرجوش حامی رہا ہے اس نے ریاستی طور پر پہلی بار اسرائیلی جارحیت کی کھل کر حمایت کی اور فضائی حملے بڑھانے کا مطالبہ کرڈالا گزشتہ روز فرانسیسی صدر نے فرانس میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاجی مظاہروں پر پابندی عاید کردی۔
اس کی ایک وجہ فرانس میں دہشت گردی کے حالیہ چند واقعات میں عرب اور خصوصاً فلسطینی مہاجر نوجوانوں کا ملوث ہونا بھی کہا جارہاہے۔
بہرطور تلخ حقیقت یہ ہے کہ خسارے میں غزہ کے فلسطینی عوام ہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author