مئی 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آدھا چاند آدھی عید ۔۔||گلزار احمد

قصے بیان کیے جاتے۔لک چھپائی گیم ہوتی۔کوئی گیت بانسری چلتی یا ایک دوسرے کا بازو پکڑ کر چھڑانے کا مقابلہ ہوتا جسے مقامی گِسنی کہتے تھے۔ لیکن شھر اور گاوں کے درمیان کچا راستہ تقریباً بند ہو جاتا۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے بچپن کے زمانے میں ڈیرہ اسماعیل خان شھر کے جس گاوں میں میری رہائیش تھی وہ شھر سے بمشکل تین کلو میٹر کے فا صلے پر دریاے سندھ کے کنارے واقع ہے۔ اس گاوں کے زیادہ تر لوگ زراعت پیشہ اور مویشی پال کر دودھ بیچا کرتے تھے۔میرا باپ ایک سرکاری ملازم تھا۔ اس لیے کافی روشن خیال اور تجربہ کار انسان تھا۔ لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کی تعلیم پر بھی زور دیتا جس کی گاوں میں سخت مخالفت ہوتی۔ خیر جو بات بتانا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ہمارا گاوں صرف شھر سے تین کلو میٹر قریب ہونے کے باوجود کیمونیکیشن کے حساب سے بالکل کٹا ہوا تھا۔ بجلی ۔ٹیلیفون تو تھے ہی نہیں کئی سالوں کے بعد آئے اور سورج غروب ہوتے ہی لوگ گھروں کے اندر چلے جاتے یا پھر جوان لڑکے رات کو چوکوں پر اکٹھے ہوتے۔ثوبت پکتی۔
قصے بیان کیے جاتے۔لک چھپائی گیم ہوتی۔کوئی گیت بانسری چلتی یا ایک دوسرے کا بازو پکڑ کر چھڑانے کا مقابلہ ہوتا جسے مقامی گِسنی کہتے تھے۔ لیکن شھر اور گاوں کے درمیان کچا راستہ تقریباً بند ہو جاتا۔ ہمارے بچپن کے زمانے جِن بھی بہت ہوتے تھے اور دو بوھڑ کے درخت جِنوں کی رہائیش کے لیےبہت مشھور تھے۔یہ درخت تقریباً سو سال پرانے ہو چکے ہیں۔ایک درخت تو بوھڑ گراونڈ مدینہ کالونی کا ھے جو چھ ماہ پہلے مقامی لوگوں کے احتجاج اور عمر امین خان کی فوری کاروائی کی وجہ سے کٹتے کٹتے بچا۔ سمجھ نہیں آتا اس بوھڑ پر رھنے والے جِنوں نے اس بوھڑ کاٹنے والوں کی گردن کیوں نہ مروڑ دی۔ یا شاید یہ جن یہاں سے ہجرت کر گیے ہیں۔ہم جب چھوٹے تھے تو اس بوھڑ درخت کے قریب سے رات کو گزرنا آیت الکرسی پڑھنے کے بغیر بہت مشکل تھا۔
دوسرا بوھڑ کا درخت لائین پولیس کے مشرقی راستے کے موڑ پر تھا۔ان درختوں پر ہمارے بزرگوں نے کئی جن دیکھے تھے اور چوکوں پر قصے سناتے تھے لیکن میرے ان مقامات پر راتوں کو گزرنے کے باوجود مجھے ان درختوں پر کوئی جن نظر نہیں آیا۔ ہاں ایک دفعہ میں اور مرحوم پروفیسر ڈاکٹر غلام فرید نماز مغرب سے پہلے دریا سندھ کے کنارے چہل قدمی کر رھے تھے جب ہم انڈس ہوٹل سے تقریباً سو میٹر شمال جا رھے تھے تو مغربی سائیڈ پر ویران سی جگہ پر کھجوروں کے درخت تھے جہاں انکی چوٹی پر اچانک انگارے پھلجھڑیوں کی شکل میں نکلنے لگے۔
ہم دونوں ٹہر کر تقریباً ایک منٹ یہ نظارہ دیکھتے رھے اور پھر نماز مغرب کے لیے چلے گیے۔لیکن اس پُر اسرار انگاروں کی حقیقت آج تک نہیں سمجھ سکے۔ تو بتانا یہ تھا کہ شام کے بعد شھر سے رابطہ جنوں کے ڈر کی وجہ سے بھی کٹا رہتا۔ہمارے گاوں کے دودھ بیچنے والے گوالے جنہیں مہیڑ بولتے تھے وہ صبح سویرے شھر دودھ دینے چلے جاتے۔رمضان کے آخری دن گاوں والوں نے روزہ رکھا ہوتا کہ اچانک وہ گوالے دس بجے واپس گاوں آ کر اعلان کرتے کہ شھر میں عید ھے روزہ توڑو عید مناو۔ اب کمیونیکیشن کا یہ حال تھا کہ رات گیے علماء کرام کے پاس شھر میں چاند دیکھنے کی گواہیاں پہنچتی وہ عید کا اعلان کر دیتے ہم کو خبر نہ ہوتی۔ گوالوں کی بریکنگ نیوز پر ہم نہا دھو کےجب تیار ہو کر عید نماز پڑھتے تو عید کا رنگ پھیکا پڑ چکا ہوتا۔۔
میرے باپ کی پوسٹنگ پیزو ہو گئی اوروہ بمع فیملی وہاں رھنے لگے ایک دفعہ بارہ بجے دن چاند کی گوہیاں آ گئیں اور وہاں کے علماء نے عید کا اعلان کر دیا۔ اب پیزو والوں کا طریقہ یہ تھا کہ ڈھول والے ساتھ لیتے اور ایک مجمعے کی شکل میں ہر دروازے پر جاتے روزہ تڑواتے کیلیے کچھ مٹھائی کھلا دیتے۔میرے بابا نے مجمعے کے پریشر میں روزہ توڑ دیا اور ڈھول والا مجمع چلا گیا لیکن میری ماں نے روزہ توڑنے سے انکار کر دیا۔ کچھ بچیاں سویاں لے کر آئیں اور ماں کو کھانے کا کہا۔
ماں نے کہا رکھ دو پھر کھاوں گی۔ان بچیوں نے مجمعے کو رپورٹ کر دی پھر ڈھول والا مجمع جو ایک کلومیٹر جا چکا تھا واپس ہمارے دروازے پر پہنچ گیا اور بابا سے کہا کہ گھر والوں کو روزہ تڑوائیں چنانچہ میری ماں نے مجبوراً لڑکیوں کے سامنے سویاں کھائی تب ڈھول ہمارے دروازے سے رخصت ھوا۔ تیسرا واقع شیوا اڈہ صوابی کا ھے۔ ان دنوں رویت ہلال کمیٹی سے دو دن پہلے مردان صوابی میں روزہ رکھا گیا تھا۔
میرا بیٹا اپنے دوست کے ساتھ وہاں موجود تھا کہ انکے 29 روزے کے بعد عید ہو گئی۔بیٹے نے عید پڑھی اور خوب وہاں کا دوستوں کے ساتھ شغل میلہ دیکھا۔ عید کر کے شام کو جب ہمارے پاس گلبرگ پشاور پہنچا کیونکہ میری پوسٹنک پشاور تھی تو رات کو رویت ہلال کمیٹی کو چاند نظر نہ آیا اور دوسرے دن ہمارا 30 واں روزہ تھا چنانچہ ہمارے بیٹے کو عید منا کر بھی روزہ رکھنا پڑ گیا۔ اسی طرح جب ہم پشاور تھے تو پوپلزئی صاحب کے اعلان کی وجہ سے کبھی ہم بھی ایڈوانس روزہ رکھ لیتے جب عید سے ایک دن پہلے ڈیرہ چھٹی منانے آتے اور تیس روزے ادھر ہو جاتے تو ہمارا۔۔31واں۔۔ ہوتا۔ اب سنا ھے کوئی کیلنڈر بننے والا ھے مگر دو تین عیدوں کی روایت ابھی جاری ہے۔کیونکہ بندے کو سیکھنے پر وقت تو لگتا ھے
جاری ہے

%d bloggers like this: