مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایک خط اور سرائیکی قوم پرستوں کا فرض||حیدر جاوید سید

پہلے ایک خط پڑھ لیجئے پھر تفصیل سے بات کرتے ہیں۔ خط لکھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کی درخواست پر ان کا اسم گرامی کالم میں شامل نہیں کررہا۔ مکتوب نگار لکھتے ہیں

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلے ایک خط پڑھ لیجئے پھر تفصیل سے بات کرتے ہیں۔ خط لکھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کی درخواست پر ان کا اسم گرامی کالم میں شامل نہیں کررہا۔ مکتوب نگار لکھتے ہیں
’’سیدی! میرا تعلق اس خاندان سے ہے جو 1947ء کی تقسیم کے نتیجہ میں ہجرت کر کے سرائیکی وسیب میں آکر آباد ہوا۔
میرے والد یہیں پیدا ہوئے ہم سارے بہن بھائی بھی اسی وسیب میں پیدا ہوئے۔
اپنی مادری زبان کے علاوہ ہم روانی اور درست تلفظ سے سرائیکی بولتے لکھتے پڑھتے ہیں۔ سرائیکی برادری سے رشتہ داریوں اور مقامی رنگ میں رنگے جانے کے باوجود عمومی صورتحال یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں ہمیں مہاجر کہہ کر کلیجہ چھلنی کردیا جاتا ہے۔ میں آپ کے توسط سے اپنے وسیبی بہن بھائیوں سے یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ کیا ہجرت لوگ خوشی سے کرتے ہیں۔
1947ء کا بٹوارہ ہمارے بزرگوں کی رضامندی سے ہوا؟
تقسیم حالات کا جبر تھی اور ہجرت اس جبر کا حصہ، ہمارے خاندانوں نے اس دھرتی پر قیام کے بعد کبھی پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا۔
دیکھتے بھی کس کو، ہجرت کے دوران خاندان کے کچھ لوگ قربان ہوگئے جو بچ رہے وہ یہاں آن بسے۔ ہمارا تو سب کچھ اسی دھرتی سے ہے۔
ہمارے والدین نے مقامی ثقافت و زبان کو اپنانے میں تعصب برتا نہ بخیلی کی۔
مجھے اپنے سرائیکی ہونے پر فخر ہے لیکن جو لوگ باتوں باتوں میں ہمیں مہاجر ہونے کا طعنہ دیتے ہیں وہ ہمیں بتائیں گے کہ ہمیں سرائیکی ہونے کی سند کہاں سے ملے گی
یہ سند ہماری نسل کا حق ہے یا ابھی دوچار نسلوں کو ہجرت کی سولی پر لٹکنا ہوگا تب جاکر ہمیں سرائیکی تسلیم کیا جائے گا۔ سیدی!
ہمیں کون بتائے گا کہ سرائیکی بولنے، سرائیکی ثقافت پر فخر کرنے اور دھرتی سے رشتہ بنانے کے باوجود ہم مہاجر کیوں ہیں اور وہ کون سا عمل ہے جس کی انجام دہی پر ہمیں سرائیکی مان لیا جائے گا‘‘۔
خط لکھنے والے نوجوان سے مجھ تحریر نویس کے برادرانہ مراسم کے باوجود خود مجھے کافی عرصہ بعد معلوم ہوا کہ یہ برادر عزیز بھی بٹوارے کے زخم خوردہ خاندانوں کے سپوت ہیں۔ سرائیکی بولنے اور اس میں اظہار کی جو قدرت انہیں حاصل ہے میں ہمیشہ اس کا معترف ہوا۔ علم و ادب،تاریخ، ادیان اور دوسرے موضوعات پر اس کا وسیع مطالعہ ہے یہ برادر عزیز ان دنوں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔
خط کے ایک ایک لفظ نے میرا دکھ بڑھایا۔ حیران ہوں کہ ایسے کج بحث اور کم ظرف کون ہیں جو وسیبی قومی شناخت کو برہمنی سمجھتے ہوئے اس پر فقط اپنا حق فائق سمجھتے ہیں
اصولی طور پر تو انہیں خوش ہونا چاہیے کہ بٹوارے کے زخم خوردہ خاندانوں کی وہ نئی نسل جن کے بزرگ سرائیکی وسیب میں آن بسے تھے اپنا رشتہ اس دھرتی، ثقافت اور روایات سے جوڑتی ہے۔
قومی شناخت تو ایک اعتراف ہے۔ یہ "برہمنیت” ہرگز نہیں کہ فلاں عہد سے بسنے والے سرائیکی ہوں گے اور باقی شودر قرار پائیں گے۔ ہجرتیں شادیانے بجاکر نہیں ہوتیں، صدیوں سے کسی جگہ آباد لوگوں کو تاریخ کے جبر کے ہاتھوں جب ہجرت کرنا پڑتی ہےتو ان میں سے بہت کم نئے مقام پر رچ بس پاتے ہیں۔
سرائیکی وسیب اس اعتبار سے خوش قسمت ہے کہ بٹوارے کے زخم کردہ خاندانوں کی نئی نسل اس دھرتی سے اپنا رشتہ جوڑتی ہے انہوں نے الگ سے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کی بجائے خود کو مقامیت کے رنگ میں رنگا۔
طعنے بازوں کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ وہ ان کے جذبات کا خون کریں یا شناخت کا بھونڈا مذاق اڑائیں۔
سرائیکی قومی تحریک کو ایسے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے یہ سوچ کر ہم نے اپنے ان دوستوں کے ساتھ جو ایک وقت میں نیشنل سرائیکی پارٹی کے پلیٹ فارم سے سرائیکی قومی تحریک میں شامل تھے ’’وسیب زادے‘‘ کی اصطلاح متعارف کروائی تھی۔ ہمارا موقف تھا کہ جو بھی وسیب میں آباد ہے اس کی نسلی شناخت جو بھی ہو وہ وسیب زادہ ہے۔
یہ بدقسمتی ہی ہے کہ نیشنل سرائیکی پارٹی اپنی ابتدائی اٹھان کے اگلے مرحلہ میں تحلیل ہوگئی۔ دوست مختلف سرائیکی جماعتوں کا حصہ بن گئے۔ ہمیں بھی غم روزگار پھر لاہور لے آیا۔
سرائیکی قوم پرست جماعتوں اور خصوصاً ان جماعتوں میں موجود دوستوں کی خدمت میں درخواست کروں گا کہ وہ اس صورتحال میں اپنا کردار ادا کریں۔
وسیب کے لوگوں کو آپس میں جوڑے رکھنے اور وسیبی شناخت کے دفاع کے لئے میدان عمل میں آئیں۔
سرائیکی قومی تحریک لسانی تعصبات یا یوں کہہ لیجئے مقامی مہاجر کی تقسیم کا وسیب متحمل نہیں ہوسکتا۔
وسیب میں آباد سب لوگوں کے مفادات زندگی اور آخری آرام گاہ اسی وسیب سے تھے اور ہیں۔
سرائیکی صوبہ کی تحریک وسیبی شناخت کی قومی تحریک ہے، لسانی عصبیت کی تحریک ہرگز نہیں۔
اپنے نوجوان دوست اور برادر عزیز کے دکھی کردینے والے خط سے میں جو خطرات محسوس کررہا ہوں خدا کرے وہ میرے وسیب کا مقدر نہ بنیں
لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ سرائیکی قوم پرست رہنمائوں، ادیبوں، شاعروں اور اہل دانش کو وسیب کی یکجہتی کے لئے اپنا کردار موثر انداز میں ادا کرنا ہوگا، یہی وقت اور قومی تحریک کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: