مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیرہ اسماعیل خان کے خطرناک کھیل۔۔||گلزار احمد

یہ چودہ میل کی چوڑائی میں پھیلا ہوتا اور سمندر کی طرح ایک طرف اس کا کنارہ دریا خان اور بھکر تھا اور دوسری طرف مغرب میں چودہ میل سمندر کی طرح دور ڈیرہ اسماعیل خان کا ساحل تھا۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے بچپن کے زمانے میں ڈیرہ اسماعیل خان میں لڑکے بعض بہت خطرناک کھیل کھیلتے تھے جس سے زخمی ہونے اور بعض سے جان جانے کا خطرہ پیدا ہو جاتا تھا۔ شھر چونکہ دریاے سندھ کے کنارے آباد ھے اس لیے گرمیوں میں اکثر لڑکے دوپہر دریا میں نہاتے اور بہت سے پیراکی نہ جاننے کی وجہ سے ڈوب جاتے۔ جب دریا پر تربیلہ ڈیم نہیں بنا تھا تو گرمیوں میں شیر دریا سندھ بہت خطرناک تھا ۔
یہ چودہ میل کی چوڑائی میں پھیلا ہوتا اور سمندر کی طرح ایک طرف اس کا کنارہ دریا خان اور بھکر تھا اور دوسری طرف مغرب میں چودہ میل سمندر کی طرح دور ڈیرہ اسماعیل خان کا ساحل تھا۔
انگریزوں کے زمانے کی کتابوں میں لکھا ھے کہ ایک زمانے کشتیوں پر ڈیرہ سے بھکر کا فا صلہ تین دن میں طے ہوتا تھا۔ جو اب تیس منٹ میں طے ہوتا ھے۔ کناروں پر دریا کی گہرائی بھی دس سے بیس فٹ ہوتی جس میں گھمر گھیر ایک دایرے کی شکل میں پڑتے اور اگر آپ تیرتے ہوے گھمر گھیر میں آ جاتے تو جان بچانا مشکل ہو جاتا تھا۔
ہمارے شھر کے درجنوں لوگ اس دریا میں ڈوب کے مر گیے جن میں اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ میں خود بھی ایک دفعہ ساون کے مہینے چھ چھ فٹ کی لہروں میں گھر گیا اور اللہ کی مہربانی سے زندگی واپس ملی ۔ ہوا یوں تھا کہ میں نے دریا کی ایک بہت گہری ڈھنڈ میں غوطہ لگایا تیراک تو ٹھیک ٹھاک تھا مگر جب اوپر آ رہا تھا تو میری پیٹھ پر سانپ کی طرح گد گدی ہوئی کیونکہ دریا کے اندر بڑے بڑے سانپ بھی آ رھے ہوتے تھے۔
میں نے پھر نیچے ڈبکی لگا دی اور تھوڑے فاصلے پر جب باھر آنے لگا تو وہی گد گدی پھر محسوس ہوئی کیونکہ سانپ بھی اسی ڈائریکشن میں تیر رہا تھا۔ خیر میرے اوسطان خطا ہو گیے اور اس طرح دو تین اور ڈبکیاں لگاتے میری تمام انرجی بھی خرچ ہو گئی۔ اب میرے تیرنے کی قوت ختم ہو گئی اور دریا کی طوفانی لہریں خود مجھے کھینچنے لگیں ۔مگر کچھ فاصلے پر پانی کی گہرائی چار فٹ آ گئی اور میرے پاوں زمین سے لگ گیے اور میں وہیں جم کے کھڑا ہو گیا اور پھر لوگوں نے وہاں سے نکالا۔ خیر بہت سے لوگ ہمارے سامنے دریا میں ڈوبے اور کئی دنوں کے بعد انکی باڈی دریا سے تیرتی ملتی۔
ایک اور خطرناک کھیل کانگا ماڑی تھا۔ یہ کھیل اونچے اونچے ٹاہلی ۔جامن یا آم کے درختوں پر کھیلا جاتا جو درخت اوپر آپس میں ملے ہوتے تھے۔ چھ چھ لڑکوں کے دو ٹیمیں بنتی تھیں۔ لکڑی کا ایک دو فٹ کا ٹکڑا ہم لے لیتے۔ پہلے چھ لڑکے درخت کے اوپر چڑھ کر بندروں کے طرف مختلف جگہ ٹہنیوں پر بیٹھ جاتے۔ نیچے والی ٹیم درخت کے اوپر دو فٹ لکڑی کا ٹکڑا کسی مشکل جگہ پھینکتی ۔
جب وہ ٹکڑا اوپر پھنس جاتا تو نیچے والے لڑکے اوپر چڑھتے اور کسی ایک لڑکے کو ہاتھ سے ٹچ کرنے کی کوشش کرتے اوپر والے لڑکے کوشش کرتے کہ دو فٹ لکڑی کے ٹہنیوں پر پھنسے ٹکڑے کو نیچے گرا دیں۔ اگر وہ ٹکڑا نیچے گرا دیتے تو گیم پھر سے شروع ہوتی اگر نہ گرتا تو اوپر والے لڑکے ٹہنیوں پر بندروں کی طرح دوڑتے تاکہ مخالف ٹیم کا کوئی کھلاڑی پکڑ نہ لے ۔
اگر کوئی پکڑا جاتا تو اب نیچے والی ٹیم اوپر درخت پر بیٹھتی اور اوپر والے نیچے آ جاتے۔ اس گیم میں خطرہ یہ تھا کہ ہم پکڑے جانے کے خوف سے ایک درخت سے دوسرے درخت جمپ لگا دیتے اور اگر ٹہنی ٹوٹ جاتی تو کھلاڑی نیچے گرتا ارو کوئی ہڈی تڑوا بیٹھتا۔بہر حال اس میں مجھے خراشیں تو بہت آئیں مگر ہڈی نہیں ٹوٹی اور اب اس کھیل کا سوچ کر بھی ہمارا تراہ نکل جاتا ھے اور اپنے آپ کو جاہل کہنے کے سوا چارہ نہیں رہتا۔

%d bloggers like this: