سدرہ سعید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزدوری کے شعبے سے وابستہ مرد و خواتین کے ہمرا ہ ایک اور طبقہ بھی ہے جو اپنے ننھے ہاتھوں سے بڑے بڑے کام کرتا ہے، یہ ہیں مزدور بچے۔ کوئی با شعور انسان چائلڈ لیبر کا حامی نہیں ہو سکتا۔ یہا ں ایک بات قابل غور ہے کہ چائلڈ لیبر اور جبری مشقت میں فرق ہے۔ سارے مزدور بچے جبری مشقت کے زمرے میں نہیں آتے۔ حالات کی ستم ظرفی کچھ کا بچپن سے ہی امتحان لیناشروع کر دیتی ہے۔
آج صبح ٹوئیٹر پرایک بچے کی ویڈیو دیکھی، جس کے ہاتھ میں کچھ پیسے تھے اور وہ انہیں اکٹھا کر رہا تھا۔ ویڈیو بنانے والا شخص اس سے پوچھتا ہے کہ کام کیا کرتے ہوئے؟ بچہ جواب دیتا ہے، پالش! مزید کہتا ہے:’حلال کی کماتا ہوں حرام کی نہیں کماتا، محنت کرتا ہوں مانگتا نہیں ہوں۔ محنت کرتا ہوں اس کے پیسے ملتے ہیں‘۔ بچہ بتاتا ہے کہ اس والد معذور ہیں اور گھر میں چھ لوگ رہتے ہیں۔ ویڈیو بنانے والا شخص آخر میں بتاتا ہے کہ یہ بچہ گلزار حیدری تھانے کے پاس ایک بیکری کےساتھ جوتے پالش کرتا ہے۔
بچے کی گفتگو آپ کو بچپن میں ہی اس کی پختہ ذہنیت اور اس کی تربیت کا پتہ دے گی جو بار بار اس بات پر زور دیتا ہے کہ میں محنت کرتاہوں، حلال کماتا ہوں۔ یہ صاف ظاہر بھی ہورہا ہے کہ بجےسے جبری مشقت کا کام نہیں لیا جا رہا بلکہ حالات کی ستم ظرفی نے اس کے ننھے کمزور کندھوں پر چھ افراد کا بوجھ ڈالا رکھا ہے، جو وہ اپنے پیاروں کے لیے خوشی خوشی اٹھا رہا ہے۔
آپ ایک بات تو بتائیں، اس بار عید پر چوڑیاں خرید لیں؟ چوڑیوں کا پڑھ کر ذہن میں رنگ برنگی چوڑیوں کا تصور تو آ ہی گیا ہو گا۔ اس تصور کو اور وسعت دیجیے اور پہنچیے حیدرآباد کی ان گلی کوچوں میں، جہاں چوڑیاں بنائی جاتی ہیں۔ لطیف آباد، لیاقت کالونی، امریکن کوارٹر، چوڑی پاڑہ وغیرہ ۔۔۔
ساڑھے تین لاکھ افراد چوڑیاں بنانے کی صنعت سے منسلک ہیں جن میں زیادہ تر عورتیں اور بچے ہیں۔ خاندان کے خاندان اِس کام میں مصروف ہیں۔ ان کےبچے ہوش سنبھالتے ہی چوڑیاں سنبھال لیتے ہیں۔
لطیف آباد 12 نمبر کی لیاقت کالونی میں ایک ایسا گھر ہیں جہاں معصوم چھوٹی بچیوں کے قہقوں کے ساتھ ان کے ہاتھ میں چوڑیاں بھی کھنکتی ہیں۔ جس عمر میں یہ رنگ برنگی چوڑیاں ان بچیوں کے لیے زینت کا سامان ہونا چاہیے، ان کے لیے روزی کمانے کا ذریعہ ہیں۔
یہ کہانی ہے 32 سالہ عمبر کی تین بچیوں کی۔ میٹرک پاس عمبر تین سال قبل شوہر کے کار حادثے میں انتقال کے بعد سے چوڑی جڑائی کا کام کر رہی ہے۔ اپنی ماں کا ہاتھ بٹانے کے لیے تینوں بچیاں پڑھائی کے ساتھ مزدوری بھی کرتی ہیں۔
14 سالہ عائشہ گل نویں جماعت، 12 سالہ عروج فاطمہ چھٹی جماعت اور دس سالہ صباحت تیسری جماعت کی طلبہ ہیں۔ عمبر نے بچیوں کے گورنمنٹ کے اسکول میں داخل کرا رکھا ہے۔ عمبر نے بتایا کہ تینوں بچیاں بہت ذہین ہیں ہر سال تینوں کو پڑھائی میں اعلی کارگردگی پر اسکول کی جانب سےٹرافی بھی دی جاتی ہے۔
یہ چاروں ماں بیٹیاں ایک دن میں تقریبا چوڑیوں کے دس توڑوں کی جڑائی کا کام کرتی ہیں۔
350 چوڑیوں کے گھچے کو یہ لوگ توڑہ کہتے ہیں۔ ایک توڑے کی جڑائی کے عوض انہیں اٹھارہ روپے ملتے ہیں۔ دن میں دس توڑے بنا کر یہ چاروں ماں بیٹیاں کل180 روپے کما لیتی ہیں۔
چوڑی جڑائی کا کام آسان بھی نہیں۔ ان ماں بچیوں کے ہاتھ دیکھیں۔ آگ کی لو نے ان کے ہاتھوں کے نشانات مٹا دیے ہیں۔ ننھی کلیاں بہترین زندگی گزارنے کے لیے اپنا بچپن زندگی کی بھٹی میں جھونک رہی ہیں۔
ایک دوسرے خاندان کا احوال بتاتی ہوں جو حیدر آباد کے علاقے حالی روڈ پر واقع امریکن کواٹر میں رہائش پذیر ہے۔ چوڑیوں کی صدائی کرنے والی 28 سالہ غزالہ کے شوہر رکشہ چلاتے ہیں اور ان کے تین بچے ہیں، جو مزدوری کرتے ہیں۔ 14 سالہ ساجد، بارہ سالہ مزمل اور چار سال کی ننھی انمول فاطمہ۔
ساجد اور مزمل گاڑی کھاتا میں کار مکینک کا کام سیکھ رہے ہیں۔ دونوں کی یومیہ فی کس اجرت پچاس روپے ہے۔ ننھی انمول فاطمہ نرسری میں پڑھتی ہے اور اپنی والدہ کا ہاتھ بٹاتے ہوئے چوڑیوں کو رسی میں پروتی بھی ہے۔ غزالہ کو چوڑیوں کے دس توڑوں کی صدائی کے تین تا ساڑھے تین سو روپے ملتے ہیں۔ صدائی کے کام کے لیے گھر میں بھٹی لگائی جاتی ہے جس میں چوڑیاں پکائی جاتی ہیں۔
غزالہ نے بتایا کہ کورونا وبا کے باعث کام بھی بہت کم مل رہا ہے اور ڈیڑھ ماہ سے تنخواہ بھی نہیں ملی۔ ٹھیکدار کا کہنا ہے مارکیٹس بند ہونے سے مال ملک کے دوسرے علاقوں تک بھی سپلائی نہیں ہو پا رہا۔
انہوں نے بتایا کہ وہ خود بھی دسویں جماعت تک پڑھی ہوئی ہے۔ اس کی ننھی بیٹی کو بھی پڑھنے کا بہت شوق ہے اس لیے چار سال کی عمر میں ہی نرسری میں داخل بھی کرا دیا ہے۔ ان کے بیٹے ساجد نے پانچویں تک اور مزمل نے تیسری جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ سوال پوچھا گیا کہ لڑکوں کو مزید کیوں نہیں پڑھایا تو غزالہ نے بتایا کہ بچوں کے والد کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں لڑکوں کو نہیں پڑھایا جاتا۔
یہ صرف دو خاندان نہیں جو کسمپرسی کے حالات میں زندگی گزار رہیں ہوں ۔ یہاں یتیم بچے اور بیوہ خواتین بھی ہیں جو غربت کے باعث عید کی خوشیاں بھی نہیں منا سکتے۔ ان کے بارے میں جان کر دل پر عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی۔ خیال آنے لگا کہ دل و دماغ پر تو کسی کا بس نہیں۔ ان کی خواہشات، جذبات، سوچنے کے انداز، آگے بڑھنے کی منصوبہ بندی، سب ہماری طرح ہی ہو گا۔ انہیں بھی توجہ اور محبت کی ضرورت ہے۔ لیکن انتہا کی غربت نے ان سفید پوش لوگوں کی زندگی کی رنگنیاں مدہم کر رکھی ہیں۔
ہمارے ہاں ایک مسئلہ کم اجرت بھی ہے جبکہ سارا دن بڑوں کی طرح کام کرنے کے با وجود ان ننھے مزدوروں کو بہت کم اجرت ملتی ہے۔
گلاس بینگل مزدور یونین کے پریس سیکرٹری محمد عابد جمیل سے میں نے ان مزدور بچوں کا احوال جانا۔ انہوں نے بتایا کہ بچوں کو دیہاڑی کے حساب سے کام کی اجرت سو سے ڈھائی سو روپے تک دی جاتی ہے۔ چوڑیوں کو رنگ کرنے کے عوض سو روپے دیہاڑی جب کہ چوڑیوں پر مینا کرنے کے 80 سے 95 روپے فی گھنٹہ دیے جاتے ہیں۔
عابد نے بتایا کہ چوڑیاں بنانے والے زیادہ تر بچے کبھی اسکول نہیں گئے۔ بچوں نے اس چوڑی سازی کو ہی اپنا مقدر بنا لیا ہے اور انہیں یہ کام کرنے میں کوئی حرج بھی محسوس نہیں ہوتا۔ یہ آبا و اجداد سے اپنے خاندان کو یہی کام کرتے دیکھ رہے ہیں۔
عابد نے بتا یا کہ اب تک یونین بھی مزدوروں کو ان کے حقوق دلانے میں ناکام رہی ہے۔ مالکان کی جانب سے نہ علاج کی سہولت ہے نہ ہی کھانے کی حتیٰ کہ فیکٹری میں پینے کا ٹھنڈا پانی بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کورونا وبا کے باعث کئی کئی دن کام بھی بند رہتا ہے اور ان کے گھروں میں روٹی کے لالے پڑے ہوتے ہیں۔
کسی نے خوب کہا کہ بھوک دنیا کا سب سے بھیانک سچ، سب سے تلخ حقیقت، سب سے بڑی کمزوری ہے۔ جن کو روٹی کے لالے پڑے ہیں وہ کیسے پڑھائی، کھیل کود اور اپنی خواہشات کو غربت پر ترجیح دیں؟
ان مزدور بچوں کے آگے نہ بڑھ پانے کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ خود غربت ہے۔ ایک غریب بچہ جو اپنے اور اپنے خاندان کے لیے دن بھر محنت کرتا ہے وہ تعلیم کے لیے وقت کیسے نکال سکتا ہے۔
غریبوں کی ان مجبوریوں نے انھیں معاشرتی غلام بنا کر رکھ دیا ہے۔ مانا بچوں سے کام لینا جرم قرار دے دیا گیا۔ یہ ان کے کھیلنے کودنے اور پڑھنے کے دن ہیں۔ لیکن ان بچوں کو اسکول بھیج کر ان کی مجبوریاں کا بوجھ کون اٹھائے گا؟
مختلف فلاحی تنظیمیں چائلڈ لیبر کے خلاف کام کر رہی ہے لیکن پھر بھی کام کرنے والے بچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، آخر کیوں؟ وجہ وہی ایک، یعنی غربت۔ حکومت اور فلاحی ادارے بچوں کی تعلیم کے لیے مہم چلاتے ہیں لیکن ان کے مسائل کا مستقل حل نہیں نکالتے۔ ان مزدور بچوں کے والدین کا موقف ہے کہ پڑھ لکھ کر بھی کیا کرنا، یہاں تو لوگ پڑھ لکھ کر بھی بےروزگار ہیں۔ اس لیے بچوں کو مزدوری اور ہنر سیکھایا جاتا ہے۔
یہاں یہ بات سوچنے لائق ہے کہ کیا لوگوں کے لیے روزگار کی فراہمی میں حکومت کا بھی کوئی کردار ہوتا ہے؟ برطانیہ اور یورپ کی کئی حکومتیں اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھتی ہیں ۔ بے سہارا بچوں، معذور افراد اور بوڑھے لوگوں کوبہت سی سہولیات فراہم کرتی ہے۔ مستحق طالب علموں کو وظیفہ دیا جاتا ہے اور بیروزگاروں کو بھی اس وقت تک وظیفہ ملتا ہے جب تک انہیں نوکری نہیں مل جاتی۔
پاکستان میں اگر حکومت غریب بچوں کی کفالت کا ہی ذمہ لے لے تو آنے والے وقتوں میں یہی بچے پاکستان کی ترقی کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ فلاحی تنظیموں کو بھی مزید کام کرنا ہو گا۔
ویسے کبھی سوچا ہے یہ بچے مزدوری کے لیے ایسے کیوں سڑکوں پر آتے ہیں؟ کیوں کہ ہم نے ان کے علاقوں میں جانا چھوڑ دیا ہے۔ جو لوگ اصل حقداروں کو ڈھونڈ رہے ہیں ان کے علاقوں میں جائیں، آگے بڑھیں اور انسانیت کو غربت کی دلدل سے نکالیں۔ ان ننھے ہاتھوں کو تھامیں، کمزور کندھوں کا بوجھ ہلکا کریں۔ انہیں آپ کے خلوص کی ضرورت ہے۔ یقین جانیں آپ کو دلی سکون میسر ہو گا۔
یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اردو پر شائع ہوچکا ہے
یہ بھی پڑھیں:
گل ودھ گئی اے مختاریا!|| شمائلہ حسین
کون بنے گا استاد؟۔۔۔عفت حسن رضوی
بھٹو روس میں بھی زندہ ہے ۔۔۔ طیب بلوچ
بلاول: جبر و استبداد میں جکڑی عوام کا مسیحا ۔۔۔ طیب بلوچ
سلیکٹرز آصف علی زرداری سے این آر او کیوں چاہتے ہیں؟ ۔۔۔طیب بلوچ
را کے مبینہ دہشتگردوں سے بھارتی جاسوس کی وکالت تک کا سفر ۔۔۔ طیب بلوچ
عالمی استعمار کے چابی والے کھلونے آصف علی زرداری کو کیوں مارنا چاہتے ہیں؟ ۔۔۔ طیب بلوچ
سدرہ سعید صحافی ہیں جو اور نیٹ ورک کے ساتھ بطور اسائمنٹ ایڈیٹر اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی