اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قدرت اللہ شہاب کا سونیا صدف کے نام خط|| محمد رمضان علیانی

محترمہ اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ مجھے تنخواہ اور دوسری مراعات اس لئے ملتی تھی کہ میں آفسر شاہی کی بجائے حکومت وقت کا قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے احکام کی تعمیل کرنے کا پابند تھا

رمضان علیانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

السلام و علیکم محترمہ اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ سیالکوٹ۔ امید ہے آپ اپنی کرسی پر براجمان ہوگی اور بطور اسسٹنٹ کمشنر ڈیوٹی انجام دے رہی ہوں گی۔ میں نے سوچا کہ پچھلے دو دنوں سے فیس بک سمیت مختلف سوشل میڈیا پر آپ کی وجہ سے لوگوں کو پاکستان کی اعلیٰ ترین اور ذہین ترین قابل آفیسرز جیسے عرف عام میں بیوروکریسی کہتے ہیں ان پر انگلیاں اٹھانے کا موقع مل گیا ہے۔ میں نے بہت عرصہ ایک چھوٹے افسر سے لے کر صدر مملکت اور مختلف وزرائے اعظم اور فوجی ڈکٹیٹروں کے قریب رہ کر خدمات سر انجام دینے کا موقع ملا ہے اور اس دوران میں کئی اضلاع میں بطور ڈپٹی کمشنر بھی آئین پاکستان میں موجود لفظ” پبلک سرونٹ” کام کیا ہے جھنگ میں کافی عرصہ تعینات رہا ہوں۔
محترمہ اسسٹنٹ کمشنر صاحبہ مجھے تنخواہ اور دوسری مراعات اس لئے ملتی تھی کہ میں آفسر شاہی کی بجائے حکومت وقت کا قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے احکام کی تعمیل کرنے کا پابند تھا۔ پرانی گاڑی میں سفر کرتا تھا دفتر میں باامر مجبوری پنکھا چلاتے تھے ورنہ درختوں کے سایہ ہی میرے لئے ٹھنڈی ہوائیں ہوتی تھی۔ عام آدمی کو اتنے اخلاق سے پیش آتا تھا کہ وہ مجھے اپنا رشتہ دار محسوس کرتا تھا۔ یہ بندوق ہاتھ میں لئے جو وردی والا آپ کی گاڑی کا دروازہ کھولتا ہے یہ تنخواہ اس کی ڈیوٹی کی نہیں لیتا بارش کے دوران چھتری ☔ اٹھانے کی ذمہ داری اس پولیس والے کی نہیں ہوتی۔
سچی بات تو یہ ہے کہ میں چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر موجود ہوتا تھا آپ کا تو پتا نہیں لیکن آج کل کے بیوروکریٹس دفتر ٹائم میں ہی دفتر امور سر انجام دیتے ہیں اگر کوئی مجبور شخص کسی طرح آپ کی سرکاری رہائش گاہ جیسے صاحب کا بنگلہ بولا جاتا ہے وہاں تک پہنچ بھی جائے تو سائل کا مسئلہ حل ہو نا ہو اس سے اس بابت ضرور پوچھ گچھ ہوتی ہے آپ کی جرت کیسے ہوئی یہاں پر انے کی۔
سونیا صدف بی بی آپ بھی میری طرح کی آفیسر ہیں آپ سمیت درجنوں آفیسرز کو لوگ نفرت کی نگاہ سے کیوں دیکھتے ہیں کبھی تنہائی میں بیٹھ کر سوچئے گا آپ کا اندر کا انسان جیسے ضمیر کہتے ہیں اگر وہ ذندہ ہے تو آپ کو آئینہ دکھائے گا کہ کیا کیا وجوہات ہیں۔ میری کتاب "شہاب نامہ” تو آپ نے ضرور پڑھی ہوگی اس میں ایک غریب خاندان کا ذکر بھی ضرور پڑھا ہوگا ایک بوڑھی عورت کی سولہ آنے کی رشوت جو کہ میری ذندگی بھر کی واحد رشوت میرے پاس ہمیشہ محفوظ رہی۔ ماسٹر رحمت اللہ کو جو زمین الاٹ کی تھی وہ بھی آپ نے پڑھی ہوئی گی۔ جانے دیں یہ ساری کہانیاں اس وقت کے بیوروکریسی کی تھی جیسے نا شعور تھا نا زیادہ علم نا کوئی لالچ کہ کل کیا ہوگا۔ آپ کو اپنی فکر ہے بچوں کے مستقبل کا احساس ہے اعلیٰ گھر بہترین رہن سہن، بنک بیلنس اور نئے ماڈل کی جدید گاڑی آپ کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے لیکن ہمارے دور میں عزت سب سے زیادہ اہمیتِ رکھتی تھی لوگوں کو ہمارے ساتھ بیٹھنے سے کوئی منع نہیں کرتا تھا دفتر کا نائب قاصد جماعت کرواتا تھا اور میں ڈپٹی کمشنر اس کے پیچھے باجماعت نماز ادا کرتا تھا ہر شخص سے دونوں ہاتھوں سے سلام کرتے تھے آپ کو یہ گلہ بھی نہیں کرنا چاہتا کہ آپ جیسے کچھ اسسٹنٹ کمشنر صاحبان کو کوئی سائل دور سے سلام کر ہی دے تو وہ جواب دینا توہین سمجھتے ہیں حالانکہ جواب دینا واجب ہے۔
بی بی ابھی بھی وقت ہے کہ اپنے اندر تبدیلی لائیں تو خود کو اعلیٰ مخلوق نہ سمجھیں بلکہ عام انسان سمجھیں لوگوں کے مسائل حل کریں یہ اختیارات قوم کی امانت ہے جو اللہ پاک نے آپ کے ہاتھ میں موجود قلم میں رکھ دیئے ہیں اس کا استعمال حق پر کریں اور بچوں کی فکر مستقبل کے مطلق کچھ نہ سوچیں اللہ پاک ہی مالک ہے۔
آخر میں آپ سے یہ گزارش ضرور کرنی ہے کہ سیالکوٹ کے واقعہ میں بوڑھی عورت فریاد اللہ پاک نے سن لی ہے جس نے میرا بھی دل دکھایا ہے اس واقعہ سے آپ کو اور آپ کے دیگر بیوروکریٹس کو سبق سکھنا چائیے۔
اللہ پاک آپ کا حامی و ناصر ہو۔
قدرت اللہ شہاب

رمضان علیانی کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: