اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آزادی صحافت اور پاکستان ||اسلم ملک

آغاز کیا تو استاد نے بتایا کہ خالی جسٹس نہیں۔۔۔۔مسٹر جسٹس/ جناب جسٹس نہ لکھا تو توہین عدالت ہوگی۔ کسی سول جج یا مجسٹریٹ کا ذکر بھی واحد کے صیغے میں کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔
اسلم ملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 گزشتہ سے پیوستہ روز دن بھر آزادی صحافت کا چرچا رہا۔
مجھے صحافت میں چوالیسواں سال ہے۔
میرے مشاہدے کے مطابق تو صحافت جس قدر آج آزاد ہے ، پہلے کبھی نہیں تھی۔
آغاز کیا تو استاد نے بتایا کہ خالی جسٹس نہیں۔۔۔۔مسٹر جسٹس/ جناب جسٹس نہ لکھا تو توہین عدالت ہوگی۔ کسی سول جج یا مجسٹریٹ کا ذکر بھی واحد کے صیغے میں کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔
اور پچھلے دنوں ہمارے نوجوان صحافی چیف جسٹس کیلئے بے دریغ گھٹیا زبان استعمال کرتے رہے ۔
سب سے” حساس” ادارے کیلئے اشارے کنائے میں سب ہی کچھ لکھا جارہا ہے۔
وزیراعظم کیلئے جو زبان کوئی استعمال کرتا ہے چھپ جاتی اور یہ اب تک برداشت بھی کیا جارہا ہے۔. نواز، شہباز کے خلاف ایسا ممکن نہیں تھا.
ایک خاتون کے حمزہ سے نکاح کے دعوے کی خبر چھپی تو ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز کو ہٹادیا گیا. حالانکہ بات کچھ سچی ہی تھی کہ چیف جسٹس نے اپنے چیمبر میں صلح صفائی کرائی. اور DGPR کو کیا پتہ کہ کیا چھپ رہا ہے اور وہ رکوائے.
کسی مفروضہ سنسر کا بھی ذکر ہورہا ہے۔اب کون سا سنسر ہے؟
اس سنسر شپ کا اب آپ تصور بھی نہیں کرسکتے جب پورا اخبار تیار کرکے چیک کرانے کیلئے بھیجنا ہوتا تھا اور وہاں بیس پچیس فیصد حصہ قیبچی سے کاٹ لیا جاتا تھا۔ اخباروں میں سفید جگہیں نمایاں ہونے لگیں تو یہ پابندی بھی لگادی گئی کہ چیک شدہ فالتو مواد سے وہ جگہیں پر کریں ۔
ایک سیلف سنسر البتہ ہمیشہ ہوتا ہے۔
مثلاً کسی جگہ فرقہ وارانہ فساد ہوتا تھا تو ہم کسی کے حکم کے بغیر خود ہی شیعہ سنی کا حوالہ نہیں دیتے تھے. یہ نیک نیتی اور احساس ذمہ داری سے ہوتا تھا کہ معاملہ بڑھتا نہ جائے.
اگر خدانخواستہ ایک پارٹی کی خاتون لیڈر مخالف پارٹی کے لیڈر کے ساتھ حالتِ غیر میں پکڑی جائے . موقع کی ویڈیوز بھی بن جائیں . اب یہ خبر تو بڑی ہے کہ ہمیں آپس میں لڑانے والے آپس میں کس طرح ملے ہوئے ہیں. لیکن کیا تصویر یا ویڈیو اخبار یا ٹی وی پر چلانا درست ہوگا؟ یقیناً نہیں، آزادی صحافت کی بھی حد ہوتی ہے.
….
احوالِ واقعی یہ ہے کہ ہمیں مالک کی تحریری یا غیر تحریری پالیسی پر ہی چلنا ہوتا ہے۔ اشتہاری پارٹیوں کی لوٹ کھسوٹ سے چشم پوشی کرنی ہوتی ہے۔ مالک کی دوستیوں، دشمنیوں، سیاسی وابستگیوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔
سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف فیصلہ دیا. ایک اخبار نے لیڈ لگائی، باقی میں سنگل کالم چند سطریں بھی نہیں چھپیں. کس نے روکا تھا؟
صحافی دوست بتائیں۔۔۔ کوئی خبر ہے، نیوز ڈیسک کے تمام ارکان چاہتے ہوں کہ وہ لگنی چاہئے۔ مالک یا انتظامیہ منع کردے تو وہ لگے گی؟
ایسے ہی مذموم مقاصد والی کوئی خبر ، پورا نیوز ڈیسک چھاپنے کے خلاف ہو، مالک یا انتظامیہ کا آرڈر ہو کہ لگے گی تو کوئی اسے روک سکتا ہے؟
کون سا رپورٹر یا اینکر ہے جو مالک کی مرضی کے خلاف خبر چلاسکتا ہے؟
ایک اخبار یا ٹی وی چینل آج دوسری پارٹی خرید لیتی ہے یا مالک کی کسی اور پارٹی سے ڈیل ہوجاتی ہے تو ہم کل نئی پالیسی پر چل رہے ہوں گے.
تو عزیزو ! آزادی صحافت بھی کارکنوں کیلئے نہیں مالکان کیلئے ہوتی ہے۔
+
آزادی صحافت کے جائزوں میں ایک انڈیکیٹر کے طور پر صحافیوں کی ہلاکتوں کا ذکر بھی ہوتا ہے حالانکہ یہ سب ان کے صحافی ہونے کی وجہ سے نہیں ہوتیں۔ قصبات میں بیشتر نامہ نگار بلا معاوضہ کام کرتے ہیں ۔ بلکہ اس کام پر اخراجات بھی اپنی جیب سے کرتے ہیں۔ مقصد اپنی سماجی حیثیت بنانا ہوتا ہے۔ ان کے اصل کاروبار دوسرے ہوتے ہیں۔ جن میں دوسروں سے مقابلہ بھی ہوتا ہے۔ ملک میں جن تنازعات کی وجہ سے دوسرے لوگ قتل ہوتے ہیں، اسی تناسب سے نامہ نگار بھی ہوتے ہیں۔ لیکن یہ سب بھی صحافیوں کے قتل شمار کر لئے جاتے ہیں۔ البتہ confllict والے علاقوں میں ان کی ٹارگٹ کلنگ بھی ہوئی اور ان کے اداروں نے بھی انہیں فائرنگ ، دھماکوں وغیرہ میں آگے سے آگے دھکیل کر مروایا.

یہ بھی پڑھیے:

اسلم ملک کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: