’’چھلک جانے والے معیشت کبھی بھی کامیاب نہیں رہی۔ اب وقت ہے کہ معیشت کو انتہائی  نچلے اور درمیانی درجے سے اوپر اٹھایا جائے۔‘‘یہ بیان نہ تو ترقی پذیر دنیا کے کسی نام نہاد سوشلسٹ یا مارکسسٹ رہنما کا ہے اور نہ ہی پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کا، جو آئے دن مدینہ کی ریاست کے حوالے دے دے کر کبھی لنگر خانے اور پناہ گاہیں کھولتے ہیں تو کبھی سستے گھروں کی تعمیر کے لیے قرضے دینے کے منصوبوں کے بارے میں بیان دیتے رہتے ہیں۔

مزید کچھ بھی کہنے سے پہلے اس بنیادی سوال کا جواب کہ چھلک جانے والی معیشت ہوتی کیا ہے؟ یہ وہ معیشت ہے، جس میں امراء اور طاقت ور اداروں کو ان کے کاروبار میں قلیل المدت ترقی کی خاطر اس لیے چھوٹ دی جاتی ہے کہ ان کو پہنچنے والا فائدہ طویل مدت کے لیے عوام تک بھی پہنچے۔ اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ امراء اور صنعتکاروں کی تجوریاں منافع سے بھر جانے کے بعد جو کچھ چھلک جائے، اسے اس لیے وہیں چھوڑ دیا جائے کہ معاشرے کے عام افراد اور کارکن اسے اٹھا لیں اور اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھر سکیں۔ یوں ان کی بہت کم عرصے کے لیے چند بنیادی ضروریات جزوی طور پر پوری ہو جائیں، تو وہ دوبارہ اپنی ہمت جمع کر کے اپنے اپنے آجر اداروں کی کاروباری ترقی کے لیے پسینہ بہانے لگتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی نے چند روز قبل اپنی ایک رپورٹ جاری کی، جس کے مطابق پاکستان کے مقتدر ادارے اور طاقت ور اشرافیہ ملکی معیشت سے سالانہ تقریباﹰ ساڑھے سترہ بلین ڈالر کے برابر رقوم ہڑپ کر جاتے ہیں۔ یہ رقوم پاکستانی معیشت کے حجم کے چھ فیصد کے برابر بنتی ہیں اور انہیں نگل جانے والی اشرافیہ میں کارپوریٹ سیکٹر، بڑے بڑے جاگیردار اور با اثر سیاست دان سبھی شامل ہیں۔

عالمی ادارے کی اس رپورٹ کے مطابق کارپوریٹ سیکٹر پاکستانی معیشت سے اپنے لیے سب سے زیادہ رقوم لیتا ہے، جو تقریباﹰ پونے پانچ بلین ڈالر بنتی ہیں۔ دوسرے اور تیسرے نمبر پر ملک کے وہ امیر ترین طبقات ہیں، جو مجموعی آبادی کا ہیں تو ایک فیصد مگر قومی آمدنی کا نو فیصد حصہ حاصل کرتے ہیں۔ ان میں بڑے بڑے رقبوں اور جاگیروں والے وہ ‘بڑے‘ بھی شامل ہیں، جو ہیں تو ملکی آبادی کا 1.1 فیصد مگر ملک بھر میں زمین کے 22 فیصد حصے کے مالک ہیں۔

یہی وہ دو طاقت ور طبقات ہیں، جو پاکستان میں کئی دہائیوں سے ہر بار قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے رکن منتخب ہوتے ہیں اور ہر نئی پرانی سیاسی جماعت کا مستقل حصہ بھی رہتے ہیں۔ ہر قانون انہی کی مرضی سے بنتا ہے کیونکہ وہ خود قانون سازوں میں شامل ہوتے ہیں۔ یو این ڈی پی کی اسی رپورٹ کے مطابق ان مالیاتی اور اقتصادی آسائشوں میں پاکستان کی طاقت ور فوج کا حصہ 1.7 بلین ڈالر ہے، جو وہ بڑے بڑے زمینی رقبوں، ترقیاتی منصوبوں اور ٹیکسوں میں چھوٹ کے ذریعے حاصل کرتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی فوج بڑے بڑے منصوبوں کی تعمیر و تکمیل کے ٹھیکے لیتی ہے اور عظیم الجثہ کاروباری ادارے بھی چلاتی ہے۔ رہائشی تعمیراتی سیکٹر کا بڑا ادارہ بھی پاکستان فوج ہی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں طاقت ور طبقات ہی یہ طے کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک ہاتھ سے اپنے ہی دوسرے ہاتھ کو کتنا مال دینا ہے۔پاکستان جیسے ملک میں صدقات، خیرات اور زکوة بھی چھلک جانے والی معیشت ہی کی ایک مثال کے مختلف پہلو ہیں۔ اس حوالے سے اقتصادی تیزی مقدس اسلامی مہینوں میں اس وقت دیکھنے میں آتی ہے، جب صدقے زکوة کی صورت میں مذہبی ذمہ داریاں انجام دی جاتی ہیں۔

پاکستان کے حالات آزاد منڈی کی معیشت والے کسی بھی ملک سے زیادہ مختلف نہیں۔ یہی معاملات شدت کے فرق کے ساتھ امریکا جیسے ملکوں میں بھی نظر آتے ہیں، جو دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اور آزاد منڈی کی معیشت کا ‘مکہ‘ کہلاتا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے ابھی حال ہی میں چھلک جانے والی معیشت کو ناکام قرار دیتے ہوئے امریکا میں کم از کم فی گھنٹہ اجرت بڑھا کر 15 ڈالر کر دینے کا اعلان بھی کیا۔ یہ ایک دن میں اوسطاﹰ آٹھ گھنٹے کی محنت کا معاوضہ ہے، جو پاکستانی کرنسی میں تقریباﹰ ساڑھے اٹھارہ ہزار روپے یومیہ بنتی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں کم از کم ماہانہ سرکاری تنخواہ پندرہ ہزار روپے ہے۔

سوال یہ ہے کہ آیا پاکستان میں چھلک جانے والی معیشت کے بارے میں حکمران جماعت تحریک انصاف کا اپنا کوئی زاویہ نگاہ ہے؟ کیا اپوزیشن کی بڑی سیاسی اور مذہبی جماعتیں اپنے کسی اجلاس میں چھلک جانے والی معیشت کے بارے میں کبھی غور کرتی ہیں؟ انیس سو اسی اور نوے کی دہائیوں میں جب ملک میں بائیں بازو کی چند کمزور سی سیاسی جماعتیں ابھی موجود تھیں، تب ایسے موضوعات، نظریات اور ان پر بحثیں سننے اور پڑھنے کو مل جاتے تھے۔

امریکی صدر بائیڈن کے بیان نے یاد دلایا تو احساس ہوا کہ گزشتہ تین دہائیوں سے بھی زائد عرصے میں پلوں کے نیچے سے اتنا پانی بہہ گیا ہے کہ اب شاید چھلکنے کے لیے کچھ بچا ہی نہیں۔ اپنے سیاسی منشور میں ‘سوشلزم ہماری معیشت ہے‘ کا نعرہ شامل کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کو اب یہ تو معلوم ہو گا کہ کراچی کے علاقے کلفٹن میں کسی بڑے بنگلے یا پلازہ کی قیمت کیا ہے یا سندھ میں کتنی شوگر ملیں ایسی ہیں، جو ابھی اس پارٹی کے ‘گروپ آف کمپنیز‘ میں شامل نہیں ہوئیں۔ مگر یہ بھلا کس کو یاد ہو گا کہ یہ چھلک جانے والی معیشت ہی تھی، جس کے مقابلے میں اس پارٹی کی بانی قیادت نے اپنے کارکنوں کو اسلامی مساوات کا نعرہ دیا تھا۔

پاکستان مسلم لیگ ن کا تو کیا ہی کہنا کیونکہ وہ ہمیشہ ہی سے اسی چھلک جانے والی معیشت کی نہ صرف حامی رہی ہے بلکہ اسی کی مدد سے اس پارٹی کے ‘بڑوں‘ نے لکھ پتی سے کروڑ پتی اور پھر کروڑ پتی سے ارب پتی ہونے کا سفر طے کیا۔ اس کا عملی نتیجہ یہ کہ اسی گزشتہ تین عشروں سے زائد کے عرصے میں چھلک جانے والی معیشت کا نظریہ اور اس کے مخالف نظریات پاکستانی عوام کی نظروں سے ہی نہیں بلکہ یادداشت سے بھی اوجھل ہو گئے۔

پاکستانی حکمرانوں، سیاست دانوں اور سماجی و اقتصادی اشرافیہ کو آج وہ بات یاد دلانے کی ضررت ہے، جو جنوبی افریقی رہنما نیلسن منڈیلا نے عشروں پہلے کہی تھی اور جو آج بھی پاکستان جیسے معاشروں پر صادق آتی ہے: ”غربت کا خاتمہ خیرات سے نہیں، انصاف سے ہوتا ہے۔‘‘

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو