یہ 21 جولائی، 2020 کی ایک معمول کی صبح تھی۔ مطیع اللہ جان صبح اٹھے اور اپنی اہلیہ کو سکول چھوڑنے چلے گئے۔
وہ سکول کے باہر تقریباً صبح 11 بجے اپنی گاڑی میں بیٹھے تھے کہ انہیں اغوا کر لیا گیا۔ مطیع اللہ کا شمار پاکستان کے سینیئر صحافیوں میں ہوتا ہے۔ وہ پاکستان کے مخلتف میڈیا اداروں کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔
اغوا کے بعد ان کے اہلیہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ وہ سکول میں تھیں جب انھیں واقعے کا چلا۔
تقریباً 12 گھنٹے بعد مطیع اللہ اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ بحفاظت پہنچ گئے۔ اس واقعے کی سماجی کارکنوں، میڈیا کے افراد سمیت سیاسی رہنماؤں نے مذمت کی۔
حکومت نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد کو رپورٹ بھی پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ تاہم ابھی تک یہ سامنے نہ آ سکا کہ انہیں کس نے اور کیوں اغوا کیا تھا۔ آئی جی پولیس کی رپورٹ کب آئے گی؟ ابھی تک اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
اسد علی طور اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں اور کورٹ رپورٹنگ کا تجربہ رکھتے ہیں۔ پچھلے سال ستمبر میں انھوں نے اپنے خلاف ایک مقدمے کی کاپی ٹوئٹر پر شیئر کی جو راولپنڈی کے ایک رہائشی نے فیڈرل انوسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم برانچ میں درج کرایا تھا۔
مقدمے میں پاکستان کے ریاستی اداروں کے خلاف بات کرنا اور ان کے خلاف ہتک آمیز زبان استعمال کرنے کی دفعات شامل تھیں۔
اس مقدمے میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 505، دفعہ 500 اور 499، جو پاکستانی اداروں کے ہتک کے حوالے سے ہے جبکہ پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کی دفعہ 37 ، 11 اور 20 بھی شامل تھی۔
دفعہ 37 سوشل میڈیا پر غیر قانونی مواد شیئر کرنے کے حوالے سے ہے جبکہ دفعہ 11 نفرت آمیز پوسٹس اور دفعہ 20 کسی شخص کی عزت کو نقصان کے حوالے سے ہے۔
اسد طور نے مقدمہ درج ہونے کے بعد لکھا تھا، ’یہ میرے لیے بہت افسوس ناک بات تھی کہ بحیثیت صحافی ہم خبریں دیتے ہیں لیکن میں خود خبر بن گیا ہوں۔‘ بعد ازاں نومبر 2020 میں لاہور ہائی کورٹ نے اس مقدمے کی سماعت کے دوران اسد طور پر درج مقدمے کو ‘غیر ضروری ‘ قرار دیا تھا۔
مطیع اللہ جان اور اسد علی طور اکیلے نہیں ہیں۔ پاکستان میں صحافیوں پر حملوں اور دیگر کارروائیوں کا ریکارڈ رکھنے والی تنظیم ’فریڈم نیٹ ورک‘ کے مطابق اپریل 2020 سے مئی 2021 کے درمیان پاکستان میں 20-2019 کے مقابلے میں صحافیوں پر حملوں اور دیگر واقعات میں 40 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 20-2019 میں صحافیوں پر حملے اور دیگر حقوق کی پامالیوں کے 91 واقعات کے مقابلے میں مئی 2020 سے اپریل 2021 کے درمیان 148 ایسے واقعات رپورٹ ہوئے۔
بظاہر عام لوگوں کو پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد بہت محفوظ لگتا ہے۔ تاہم اس رپورٹ کے مطابق سال 21-2020 میں ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں یہ صحافیوں کے لیے خطرناک ترین شہر ثابت ہوا ہے۔
فریڈم نیٹ ورک کے اعداد و شمار کے مطابق 21-2020 میں 148 کیسز میں سے 34 فیصد کیس (51 کیس) اسلام آباد میں رپورٹ ہوئے جبکہ سندھ صحافیوں کے لیے دوسرے نمبر پر خطرناک صوبہ رہا جہاں 26 فیصد یعنی 38 واقعات، پنجاب میں 29، خیبر پختونخوا میں 13، پاکستان کے زیر انتطام کمشیر میں نو، بلوچستان میں آٹھ جبکہ گلگت بلتستان میں کوئی بھی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا۔
کئی دہائیوں سے صحافت سے وابستہ اقبال خٹک ان دنوں فریڈم نیٹ ورک کے بانی و سربراہ ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اسلام آ باد تو بظاہر بہت محفوظ شہر لگتا ہے تو یہ صحافیوں کے لیے اتنا خطرناک کیوں؟
اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ شہر اقتدار ہے اور یہاں پرصحافیوں کی منہ سے سخت سوالات نکلتے ہیں جو بعض لوگوں کو اچھے نہیں لگتے۔
’دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں مختلف علاقوں کے لوگ ہیں اور یہیں ملک کے فیصلے کیے جاتے ہے۔ میڈیا کا کام ہے کہ وہ سوال کرے جس کی وجہ سے ان کو حقوق کی پامالی کے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
اقبال خٹک سے جب پوچھا گیا کہ آیا ایسا تو نہیں کہ کچھ واقعات میں صحافی بھی صحافتی اقدار پامال کرتے ہیں، اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ کمزوری اور غلطی ہر انسان کرتا ہے، تاہم ان کوتاہیوں کے حوالے سے فیصلے کرنے کے لیے متعلقہ ادارے موجود ہیں۔
’پاکستان میں ان اداروں کے پاس نہیں جایا جاتا بلکہ الٹا صحافیوں کے حقوق کی پامالی کی جاتی ہے۔ اب حالات یہ ہیں کہ کوئی ٹی وی اور اخبار میں پورا سچ بیان نہیں کر سکتا تو وہ آن لائن پلیٹ فارم استعمال کرتے ہیں۔
’لیکن پاکستان میں ان فلیٹ فارمز کو استعمال کرنے والے صحافیوں پر اجنبی لوگ اٹھ کر مقدمے درج کرتے ہیں اور بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ ایک خاص پیٹرن کے ساتھ آزادی اظہار رائے کو جرم کے زمرے میں لانے کی کوشش کی جا ری ہے۔‘
یہ واقعات کس نوعیت کے ہیں؟
فریڈم نیٹ ورک نے ان واقعات کا ایک بریک ڈاؤن بھی جاری کیا ہے، جس میں سب سے زیادہ واقعات صحافیوں پر مقدمات درج کرنے کے ہیں۔
21-2020 میں پیش آئے 148 واقعات میں سے 27 ایسے ہیں جس میں کسی صحافی پر مقدمہ درج کیا گیا۔
دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ صحافیوں کو زبانی دھمکیوں کے واقعات، جس میں قتل سمیت دیگر دھمکیاں شامل ہیں۔
مجموعی طور پر اپریل مئی 2020 سے اب تک صحافیوں کو دھمکیوں کے 26 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ 25 واقعات قانون نافذ کرنے والوں اداروں کی جانب سے صحافیوں کی گرفتاریاں ہیں۔
اسی طرح اگر صحافیوں کے قتل کی بات کی جائے تو مئی 2020 سے اب تک پاکستان میں چھ صحافیوں کو قتل کیا گیا، جو مجموعی واقعات کے چار فیصد بنتا ہے جبکہ پانچ واقعات میں صحافیوں کی قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔
چھ مقتول صحافیوں میں سے دو سندھ، دو بلوچستان اور ایک ایک خیبر پختونخوا اور پنجاب میں قتل کیے گئے۔
پاکستان میں صحافیوں پر واقعات کی کوریج کے دوران حملوں اور ان کو زدو کوب کرنے کے واقعات بھی سامنے آتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق مئی 2020 سے اب تک صحافیوں کو زد وکوب کرنے کے 15 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جس میں 11 صحافی زخمی ہوئے تھے جبکہ پانچ واقعات صحافیوں کے اغوا یا اغوا کی کوشش کے متعلق ہیں۔
اس کے علاوہ صحافیوں کی ہراسانی کے 15 واقعات بھی رپورٹ ہوئے جو مجموعی کیسز کا 10 فیصد بنتا ہے۔
پاکستان میں میڈیا کی آزادی اور صحافیوں کو آزادانہ خبریں چھاپنے کے حوالے سے عالمی ادارہ رپورٹرز ’ود آؤٹ بورڈ‘ کے پچھلے ہفتے دنیا کے پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان میں میڈیا کی آزادی کا گراف مزید گرکر 180 ممالک کی لسٹ میں 145 نمبر پر آگیا یعنی میڈیا کی آزادی میں پاکستان دنیا کے آخری 35 ممالک میں شامل ہے۔ پچھلے سال پاکستان اسی لسٹ میں 142ویں نمبر پر تھا۔
تاہم پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سمجھتی ہے کہ پاکستان میں میڈیا کو جو آزادی حاصل ہے وہ کسی اور مسلمان ملک یا ترقی پذیر ملک میں نہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے فریڈم نیٹ ورک کے رپورٹ اور پاکستان میں میڈیا کی آزادی پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ پاکستان میں میڈیا کی آزادی پر سوالات اٹھاتے ہیں، ان کو پاکستانی نیوز چینلز پر ٹاک شوز دیکھنے چاہییں۔
’ان ٹاک شوز میں حکومتی وزرا، ترجمان اور حکومت کے دیگر لوگوں کو بلا کر ان سے سوالات کیے جاتے ہیں۔ شاید ہی کوئی دوسری حکومت ہو جس کا ٹاک شوز میں روز اس طرح کا ٹرائل کیا جاتا ہے۔ اس سے پاکستان میں میڈیا کی آزادی ظاہر ہوتی ہے۔‘
پاکستان میں میڈیا کی آزادی کا ثبوت، فواد کے مطابق، نجی اخبارات اور نیوز چینلز کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے جو آزادانہ طریقے سے آرا لوگوں کو پیش کرتے ہیں۔
’پاکستان میں کسی قسم کی میڈیا سنسرشپ نہیں۔ حکومت بہتری کے لیے تنقید کو خوش آمدید کہتی ہے۔ تاہم ہم اس پر بھی یقین کرتے ہیں کہ میڈیا کے ادارے ضابطہ اخلاق بنا کر اس پر عمل پیرا ہوں۔‘
صحافیوں کی سکیورٹی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وفاقی وزارت اطلاعات نے ایک اعلیٰ سطح کمیٹی بنائی ہے جس میں صوبائی حکومت کے نمائندگان شامل ہیں۔
اس کمیٹی کو صحافیوں اور میڈیا کے اداروں کے تحفظ کا ٹاسک سونپا گیا ہے اور اس سلسلے میں اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
پاکستان میں سوشل میڈیا کی آزادی کے بارے میں فواد چوہدری نے بتایا کہ یہ غلط تاثر ہے کہ پاکستان میں آن لائن سپیس کو محدود کیا جا رہا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے پاکستان میں ڈیجیٹل میڈیا کی پہلی پالیسی مرتب کی ہے۔
’ہم نے یہ ضرور کیا ہے کہ انٹرنیٹ پر نفرت انگیز اور تشدد پر ابھارنے والے مواد کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں۔‘
رپورٹ: اظہار اللہ بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو
اے وی پڑھو:
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(15)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(14)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(13)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(12)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(11)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(10)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(9)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(8)۔۔۔ نذیر لغاری
سینے جھوکاں دیدیں دیرے(7)۔۔۔ نذیر لغاری
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ