نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نون لیگ کے لئے سوچنے کی باتیں||حیدر جاوید سید

فقیر راحموں ایسے ہر موقع پر کہتا ہے شاہ جی، تم بس میراایک کام ضرور کرنا۔ وہ کیا، دریافت کرنے پر کہتا ہے، مستقل پڑائو اٹھ جائے تو مجھے ملتان کی مٹی میں سپردخاک کرنا تاکہ مٹی مٹی سے مل جائے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیجئے کمرشل لبڑلز اور سول سپر میسی کے ’’دیسی‘‘ ترجمان چڑیا والے بابا جی بھی کہہ رہے ہیں اس وقت حکومت کے خلاف کارگر ہتھیار مذہبی کارڈ ہے۔ نون لیگ بھی موقع سے فائدہ اٹھائے گی‘‘۔
قومی اسمبلی کے پچھلے دو اجلاسوں میں نون لیگ نے چڑیا والا بابا جی کو مایوس بالکل نہیں کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا نون لیگ اپنے اقتدار کے آخری اٹھارہ ماہ کے دوران ’’کسی‘‘ کی سرپرستی میں کھیلے گئے مذہبی کارڈ کا جواب دینے کا فیصلہ کرچکی ہے؟
بظاہر ایسا ہی لگتا ہے گزشتہ روز (جمعہ کو) اس کے ارکان قومی اسمبلی نے ایوان میں جو رویہ اپنایا اس سے تو صاف لگتا ہے کہ لیگی قیادت موقع سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کرچکی ہے۔
چڑیا والا بابا جی نے نون لیگ، جے یو آئی اور جماعت اسلامی کو فکری ہم خیال بھی قرار دیا اور حوالے سے بھی ارشاد فرمایا آنے والے دنوں میں تینوں ایک پیج پر ہوں گے۔
نجم سیٹھی (چڑیا والے بابا جی) اور نون لیگ کے دوسرے ہمدردان (تجزیہ نگار و اینکرز) بھی تقریباً اسی طرح کی باتیں کرتے رہے ہیں مگر چند واقفان حال کہتے ہیں کہ یہ لائن شاہد خاقان عباسی کی ہے۔ اب چونکہ میاں شہباز شریف ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں تو ممکن ہے کہ وہ مذہبی کارڈ کھیلنے کی اس حکمت عملی کا حصہ نہ بنیں بلکہ دوسرے محاذوں پر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی پالیسی اپنائیں۔
ان باتوں اور آراء کے بیچوں بیچ یہ عرض کرنا ازبس ضروری ہے کہ اگر نون لیگ نے حکومت کے خلاف مذہبی کارڈ کھیلا تو ممکن ہے فوری طور پر فائدہ ہو لیکن اس کا نقصان زیادہ ہوگا۔
اہم ترین نقصان یہ کہ سنٹرل پنجاب کے جی ٹی روڈ میں جو نون لیگ کا بیس کیمپ ہے، مذہبی قوتیں مضبوط ہوں گی۔ ان حالات میں ہم تو یہی عرض کرسکتے ہیں کہ سیاسی حکمت عملی اپنائی جائے۔ مذہبی شدت پسندی کے پلڑے میں وزن ڈالنے کی بجائے سیاست بدلے کی بھاونا نہیں اپنے پارٹی منشور پر عمل کرنے اور اس پر رائے عامہ کو ہم خیال بنانے کو کہتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ جو غلطی بلکہ بلنڈر 2017ء اور2018ء میں تحریک انصاف نے کیا وہی اب نون لیگ کرے۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ نون لیگ سنٹرل لبرل یا بائیں بازو کی جماعت ہرگز نہیں اس کی شناخت ہی دائیں بازو کی فکروسیاست ہے لیکن یہ تلخ حقیقت اس کی قیادت کو سمجھنا ہوگی کہ اپنا سیاسی وزن مذہبی کارڈ کھیلنے والوں کے پلڑے میں ڈال کر حاصل وصول کچھ نہیں ہوگا نقصان کا خطرہ زیادہ ہے۔
اس امر کو بہرطور مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر نون لیگ محض حکومت دشمنی میں مذہبی کارڈ کھیلتی ہے یا کھیلنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے تو اس سے ان قوتوں کے مقاصد پورے ہوں گے جو ہمیشہ سے معاشرے کی تقسیم در تقسیم کو اپنی بالادستی کے لئے نہ صرف ضروری سمجھتی ہیں بلکہ انہوں نے ہر وقت ایک آدھ مذہبی شدت پسند تنظیم کو گود لیا یا تخلیق کیا۔
ایک فقط نون لیگ ہی نہیں، دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی موجودہ حالات میں سیاسی شعور کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
تحریک انصاف نے پچھلی دہائی کے آخری اٹھارہ ماہ کے دوران شیخ رشید کی طرح جس طور مذہبی کارڈ کھیلا اس کی کسی نے تحسین نہیں کی تھی۔
یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اس وقت بالادست قوتیں شدت پسندوں کی ہمنوا تھیں اور یہ سب نون لیگ کی دشمنی میں ایک پلیٹ فارم پر تھے۔ ملی مسلم لیگ بنوانا پھر تحریک لبیک کو گود لینا۔ پی ٹی آئی کے مذہبی کارڈ کھیلنے کی حکمت عملی کی حوصلہ افزائی ان ساری باتوں کے پیچھے مقصد ایک ہی تھا اور وہ نون لیگ کو ایوان اقتدار سے رخصت کروانا۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حکومت کی غلط پالیسیوں، مہنگائی، غربت، بیروزگاری اور دوسرے مسائل کو بنیاد بناکر رائے عامہ ہموار کرنا زیادہ مناسب ہوگا بجائے مذہبی شدت پسندی کے بڑھاوے کے لئے کردار اد کرنے کے۔
چڑیا والے بابا جی جیسے کمرشل لبڑلز کے بارے میں کل تک تو نون لیگ کہتی تھی کہ یہ خفیہ قوتوں کے آلہء کار ہیں اب کیا ہوگیا کہ ایسے لوگوں کو غیراعلانیہ ترجمان کا درجہ دے دیا گیا؟
ہمیں یہ امر بہرطور مدنظر رکھنا چاہیے کہ مذہبی انتہا پسندی کے بڑھاوے سے ہمیشہ جمہوری قوتوں کو نقصان پہنچا اور ’’بالادست‘‘ مضبوط ہوئے۔
اسی طرح یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنا ہوگی کہ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد طالبان جس کردار کے متقاضی ہیں اس سے ایک نئی خانہ جنگی کا دروازہ کھلتا دیکھائی دیتا ہے۔
مئی سے ستمبر تک کے پانچ ماہ خصوصی اہمیت رکھتے ہیں۔ نون لیگ اور دیگر سیاسی جماعتوں کو سنجیدگی کے ساتھ اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ’’کوئی حلقہ‘‘ ان پانچ مہینوں میں ہی پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کو بڑھاوا دے کر مرضی کے حالات پیدا کرنا چاہتا تھا کہ اس کے ’’بھاگ لگے رہیں‘‘۔
معروضات کچھ اور بھی ہیں لیکن فی الوقت یہی عرض کرنا مقصود ہے کہ سیاسی حکمت عملی کے طویل المدتی مثبت نتائج نکل سکتے ہیں جبکہ مذہبی عسکریت پسندوں کی معمولی سی حمایت یا خود مذہبی کاڈ کھیلنے کا فیصلہ کسی بھی طرح درست نہیں ہوگا۔ ’’بالادست قوتیں‘‘ تو چاہتی یہی ہیں کہ مذہبی شدت پسندی بڑھے اور وہ عالمی طاقتوں کو یہ باور کراتی پھریں دیکھیں اگر ہم نہ ہوئے تو شدت پسند جنہیں سیاسی حمایت حاصل ہے، ملک پر قابض ہوجائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author