اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یورپین یونین پارلیمنٹ اور پاکستان جی ایس پی پلس اسٹیٹس ||شکیل نتکانی

یہی وجہ ہے کہ جب راشد رحمان کو جنید حفیظ کے کیس کی سماعت کے دوران قتل کی دھمکیاں دیں گئیں تو جج بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا رہا یا شاید اس کا ایمان بھی یہ تقاضا کر رہا تھا کہ راشد رحمان اس کیس سے دستبردار ہو جائے۔

شکیل نتکانی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یورپین یونین پارلیمنٹ کے 662 ارکان نے پاکستان کو 2014 میں دیا گیا جی ایس پی پلس سٹیٹس ختم کرنے کی قرارداد کی حمایت میں ووٹ دیا ہے اس سٹیس کے تحت پاکستان اپنی مصنوعات یورپی ممالک میں بغیر کسی ٹیکس یا ڈیوٹی ادا کئے ایکسپورٹ کر سکتا ہے۔ صرف تین ارکان نے مخالفت کی جبکہ 26 ارکان نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لیا۔
قرارداد میں پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین کی بڑھتے ہوئے بیجا استعمال اور پاکستان کے عدالتی نظام کی ایسے الزامات کا سامنا کرنے والے ملزمان کو انصاف کی فراہمی میں ناکامی کو بنیاد بنایا گیا ہے ساتھ ہی فرانس کے خلاف اشتعال انگیز ماحول پیدا کرنے کا ذکر کیا گیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں فرانسیسی شہریوں اور کمپنیوں کے لئے مشکلات پیدا ہو گئی ہیں قرارداد میں اشتعال انگیزی کو مہمیز کرنے میں ریاستی کردار کا بھی ذکر کیا ہے وزیراعظم کی جانب سے ہولوکاسٹ کو توہین کے معاملات سے جوڑنے اور ایک حکومتی ممبر اسمبلی کی جانب سے فرانس کے سفیر کو ملک سے بیدخل کرنے کے حوالے سے قومی اسمبلی میں بحث کے لئے کرائی گئی قرارداد پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا پے۔
دو پاکستانی عیسائی شہریوں پر توہین مذہب کے الزامات کا ذکر بھی قرارداد میں موجود ہے اور کئی سال گزرنے کے باوجود پاکستانی عدالتوں کی جانب سے ان کیسوں کا فیصلہ نہ ہونے کی بات بھی کی گئی۔ توہین کے الزامات کے نتیجے میں صرف فرد واحد کی زندگی خطرے میں نہیں پڑ جاتی اور صرف اسے مشکلات کے پہاڑ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا بلکہ اس کا پورا خاندان برباد ہو کر رہ جاتا ہے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے نامور وکیل راشد رحمان خان کو توہین مذہب کے الزام میں قتل نہیں کیا جاتا بلکہ اس کو محض اس لئے قتل کر دیا جاتا ہے کہ وہ توہین مذہب کے ایک ملزم کا وکیل ہوتا ہے۔
کسی فرد پر توہین کا الزام لگنے کے بعد پورا معاشرہ شدت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال ہو جاتا ہے یہ شدت پسند صرف مذہبی تنظیموں سے وابستہ نہیں ہیں یہ ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتے ہیں جج، وکیل، صحافی، یونیورسٹی/کالجز کے اساتذہ، سیاسی کارکن، تاجر، پولیس افسران اور ملازمین اور سب سے بڑھ کر تعلیم یافتہ بے روزگار لوگ، سب کی سوچ ایک کہ محض الزام پر ہی گھیر لو، تباہ کر دو، مار دو، قتل کر دو۔
یہی وجہ ہے کہ جب راشد رحمان کو جنید حفیظ کے کیس کی سماعت کے دوران قتل کی دھمکیاں دیں گئیں تو جج بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا رہا یا شاید اس کا ایمان بھی یہ تقاضا کر رہا تھا کہ راشد رحمان اس کیس سے دستبردار ہو جائے۔ اب اس مسئلے پر انتہا پسندی صرف لوگوں کی حد تک ہوتی تو کوئی بڑی بات نہیں تھی پاکستان کا قیام مزہب کی بنیاد پر ہوا اس کے بعد ریاست نے مزہب کو ایک کارگر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا کبھی عالمی سطح پر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اور کبھی ملکی سطح پر۔ توہین کے معاملے میں بھی ریاست نے وہی کردار ادا کیا جو یہ اپنے قیام کے وقت سے ادا کرتی آئی ہے لیکن اب کچھ سالوں سے اس معاملے پر انتہا پسندوں اور حکومت کی سوچ ایک ہونے کی وجہ سے عالمی سطح پر مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ معاشی مسائل کا شکار ملک اب جی ایس ٹی پلس کے سٹیس سے محرومی کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ یورپی یونین صرف یہ ایک قدم اٹھا چپ کرکے بیٹھ جائے بلکہ اس بات کا امکان ہے کہ مزید سخت اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
ریاست توہین کے معاملے پر انتہا پسندوں کی سوچ کی نہ صرف تائید بلکہ ایسے اقدامات اٹھاتی ہے جسے ترقی یافتہ ممالک اظہار رائے پر پابندی تصور کرتے ہیں یو ٹیوب پر حکومت نے کئی ماہ پابندی لگائے رکھی پاکستانی عدالتوں کے جج جن میں لاہور ہائیکورٹ کے موجودہ چیف جسٹس بھی شامل ہیں روزانہ کی بنیاد پر عدالتیں لگا کر بیٹھ جاتے تھے اور ایف آئی اے کو طلب کرکے احکامات جاری کرتے تھے کہ ایسی ویسی پوسٹ کرنے والوں کو ڈھونڈو اور ان کو گرفتار کرو۔ ان ججوں میں سب سے نمایاں نام جسٹس شوکت صدیقی ہے جو عدالت میں بیٹھ کر آنسو بہا بہا کر ایسے احکامات صادر کیا کرتا تھا۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ہر روز اپنے شہریوں کو ایسے دھمکی آمیز میسج بھیج رہی ہوتی ہے کہ خبردار دھر لئے جاؤ گے سونے پر سہاگا وزیراعظم، وزراء، حکومتی اہلکاروں کے بیانات اور شدت پسندوں میں ہزار ہزار روپئے تقسیم کرنے جیسے واقعات کرتے ہیں ان سارے اقدامات سے ریاست کے توہین کے معاملات میں دلچسپی اور سوچ کا اندازہ ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا سمجھتی ہے کہ توہین کے معاملات پر شدت پسندوں اور ریاست کی سوچ ایک جیسی ہے آپ کا وزیر خارجہ دنیا کا واحد وزیر خارجہ ہے جو مسلسل اس معاملے پر بے تکان بولتا ہے۔
ان حالات میں ریاست کے پاس بس صرف دو راستے رہ گئے ہیں یا تو انتہاء پسندی اور شدت پسندی کی سوچ سے چھٹکارا پا لے اور اس کے خاتمے کے لیے اقدامات اٹھائے جن میں سب سے پہلے مساجد اور مدارس کا کنڑول اپنے ہاتھ میں لے، ایسی پالیسیاں ترتیب دے جس سے انتہا پسندی اور شدت پسندی کی حوصلہ افزائی کی بجائے حوصلہ شکنی ہو یا پھر وزیر اعظم ٹی وی پر آ کر ایک خطاب کے ذریعے پوری قوم کو اعتماد میں لے اور فرانس کے سفیر اور پاکستان میں موجود فرانسیسی شہریوں کو گرفتار کر کے ان کے سر تن سے جدا کر دیئے جائیں، فرانسیسی کمپنیوں کے اثاثہ جات پر قبضہ کر لیا جائے اور فرانس کے ساتھ اعلان جنگ کر دیا جائے کیونکہ اب لگ یہی رہا ہے فرانس سمیت پورا یورپ توہین کے مسئلے پر نہ تو ہمارے وزیراعظم اور نہ ہمارے وزیر خارجہ کی بات کو اہمیت دینے کو تیار ہے الٹا وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے والے اقدامات اٹھانے جا رہے ہیں جبکہ دوسری جانب ہم بطور قوم اور ریاست توہین کے مسئلے پر فرانس اور یورپ کی آزادی اظہار کی توجیہ قبول کرنے کو تیار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: