مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تین عشرے پہلے کی بات ہے کہ کراچی کے حالات بہت خراب تھے۔ قتل و غارت اور ہنگاموں کے بعد شہر میں کرفیو لگادیا گیا۔ فوج گشت کرتی تھی۔ کوئی کرفیو کی خلاف ورزی کرتا تو گولی تو نہیں مارتی تھی لیکن سڑک پر ٹھکائی کردیتی۔
ہم انچولی میں رہتے تھے۔ محرم الحرام آگیا۔ رات کو چند گھنٹوں کے لیے کرفیو میں نرمی کی جاتی جس میں مجالس ہوجاتی تھیں۔ زیادہ لوگ نہیں آتے تھے۔
چار محرم کو ہمارے چھوٹے ماموں کے گھر سے جلوس اٹھتا تھا۔ درجنوں علم، تابوت اور ذوالجناح سجایا جاتا۔ کئی ماتمی انجمنیں آتیں اور سیکڑوں عزادار شریک ہوتے تھے۔
اس سال صرف ایک علم اٹھایا گیا اور ہم چند عزادار ادھر ادھر رک کر نوحہ پڑھنے کے بجائے سیدھے امام بارگاہ چلے گئے۔
اہل تشیع کے لیے عزاداری ضروری ہے لیکن حالات کے مطابق اس میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے۔
بدن میں جان ہے تو نماز میں بے شک سورہ یاسین پڑھیں۔ نہیں تو سورہ کوثر سے نماز کا بھی وہی ثواب ہے۔
عالمگیر وبا نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ وائرس قابو میں نہیں آرہا۔ اہل تشیع کے اپنے بڑے بڑے نام یہ موذی بلا کھا گئی ہے۔
اس سال یوم علی کی مجالس اور جلوسوں میں بہت احتیاط کرنی چاہیے۔ مجالس آن لائن کرلیں۔ جگہ جگہ جلوسوں کے بجائے ایک مختصر جلوس نکال لیں۔ کم لوگ ہوں، ایک دو علم ہوں اور تھوڑے وقت میں مکمل کرلیں۔
یہی درخواست اہلسنت کے لیے ہے۔ تراویح مختصر رکھیں۔ قرآن گھر پر پڑھ لیں۔
عید کی شاپنگ بہت ضروری ہے تو اب آن لائن سب کچھ ملتا ہے۔ بازاروں میں رش ہوگا تو موت قہقہے لگائے گی۔
خدا تب رحم کرے گا، جب آپ اپنی سی احتیاط کریں گے۔ خدا کے لیے رحم کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارے ایٹم بم دے کر ویکسین مل سکتی ہو تو پاکستان کو لے لینی چاہیے۔ قومی اثاثے گروی رکھنے سے مل سکتی ہو تو لے لینی چاہیے۔ عالمی رہنماؤں کے پیر پکڑنے سے مل سکتی ہو تو لے لینی چاہیے۔
بھارت کا حال دیکھیں، برازیل کا دیکھیں، میکسیکو، اٹلی اور فرانس کا دیکھیں۔
عوام مرتے رہے تو ایٹم بم، قومی اثاثے، جھوٹی عزت اور مصنوعی افتخار کس کام کا؟
ہم اس وبا کے دوران میں کیسے کیسے لوگ گنوا چکے ہیں۔ جانے کس کس کو کھو بیٹھیں گے۔
اذانیں دینے اور دعائیں مانگنے سے وبا ٹل سکتی تو سعودی عرب اور ایران میں ایک بھی موت نہ ہوتی۔
سو ارب ڈالر کے عالمی قرضے اور بیس بائیس ارب ڈالر کے زر مبادلہ ذخائر والا پاکستان ویکسین کے لیے دو ڈھائی ارب خرچ نہیں کرسکتا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصل مسئلہ عقل اور جہل کا ہے۔ دانش اور جذبات کا ہے۔ تفکر اور حماقت کا ہے۔
مارکس اور رسل اور ڈاکنز اور کارل ساگاں کے مقلدین مولانا وحید الدین خان کے انتقال پر کیوں غمزدہ ہیں؟ اس لیے کہ وہ مذہبی "عالم” یا مذہبی "رہنما” نہیں، دانشور تھے۔
ریشنلسٹ یعنی عقلیت پسندی والے، دانشوروں کے پرستار ہوتے ہیں، چاہے وہ مخالف سمت میں کھڑے ہوں، مذہبی ہوں اور ریشنلزم کو رد کرتے ہوں۔
سچ کہوں؟ مذہبی دانشور بھی ریشنلسٹ لوگوں کو پسند کرتے ہیں۔ ان کے نظریات کو مسترد کرتے ہیں لیکن ان کے سوالات پر خوش ہوتے ہیں، ان پر غور کرتے ہیں۔
اصل مسئلہ عقل اور جہل کا ہے۔ دانش اور جذبات کا ہے۔ تفکر اور حماقت کا ہے۔
کفر کے فتوے ہمیشہ جہالت کی فیکٹریوں سے آتے ہیں۔ توہین کے الزامات ہمیشہ جذباتی مریض لگاتے ہیں۔ مذہبی سیاست دانوں کے مقلد صرف احمق ہوتے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر