مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آئی اے رحمن، ایک اُجلے انسان دوست||حیدر جاوید سید

صحافتی زندگی کا آغاز بطور رپورٹر کیا مگر شہرت کالم نویسی میں کمائی۔ سماجی و سیاسی موضوعات پر ان کے انگریزی کالموں کا اردو اخبارات میں ترجمہ تواتر کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آئی اے رحمن کے سانحہ ارتحال پر حال دل بیان کرنا چاہتا تھا پھر روزمرہ کے معاملات اور شاہراہوں پر ہوئی گرماگرمی سے بنے ماحول کی وجہ سے تاخیر ہوگئی۔ حالات بہتری کی طرف پلٹ رہے ہیں ایک کڑوی حقیقت یہ ہے کہ اگر حکومت اور ریاست دونوں انتہا پسندی ختم کرنے میں سنجیدہ ہیں تو حکومت دو قدم آگے بڑھے 1973ء کے دستور میں دی گئی شہری مذہبی اور سیاسی آزادیوں سے متصادم نظریات رکھنے والی تنظیموں پر پابندی لگائے اوراس کے ساتھ ایک قدم مزید بڑھاتے ہوئے مذہب میں ریاست کے کردار کو ختم کرے تاکہ پاکستانی وحدت میں آباد تمام لوگوں کے ساتھ ریاست کا برتائو یکساں ہو۔
میری دانست میں مرحوم آئی اے رحمن زندگی بھر اسی فہم کا پرچار کرتے رہے جو بالائی سطور میں عرض کی۔ آئی اے رحمن 90برس کی عمر میں دنیائے سرائے سے رخصت ہوئے۔
1930ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر ہریانہ میں پیدا ہوئے۔ 1947ء کے بٹوارے میں ان کا خاندان ہریانیہ سے پاکستان منتقل ہوا۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے ہریانہ سے ہی حاصل کی۔ ہجرت کرکے پاکستان پہنچے تو باقی ماندہ تعلیم لاہور میں حاصل کی۔ 1960ء کی دہائی میں اپنے زمانہ طالب علمی کے دوران ہی وہ ترقی پسند حلقوں میں معروف ہوئے۔ لگ بھگ ساڑھے چھ دہائیاں عملی صحافت سے منسلک رہے۔
صحافتی زندگی کا آغاز بطور رپورٹر کیا مگر شہرت کالم نویسی میں کمائی۔ سماجی و سیاسی موضوعات پر ان کے انگریزی کالموں کا اردو اخبارات میں ترجمہ تواتر کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔ انسانی حقوق کمیشن کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے بجا کہا کہ آئی اے رحمن کے سانحہ ارتحال سے مزاحمتی تحریک یتیم ہوگئی ہے۔
تقریباً22سال تک وہ انسانی حقوق کمیشن کے ڈائریکٹر رہے اور ایک طویل عرصہ تک کمیشن کے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔ ایچ آر سی پی سے ریٹائرمنٹ کے باوجود وہ کمیشن سے منسلک رہے اور پیرانہ سالی کے باوجود روزانہ اپنے دفتر جاتے۔ کچھ عرصہ سے دفتر جانا ترک کردیا تھا مگر احباب سے رابطے میں رہتے۔
آئی اے رحمن ترقی پسندوں کے سرخیلوں میں شمار ہوتے تھے۔ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے لئے ان کی خدمات قابل فخر و لائق تحسین ہیں۔
پچھلی تین ساڑھے تین دہائیوں میں ان سے متعدد ملاقاتیں ہوئیں۔ ہمیشہ شفقت و محبت فرمائی۔ ایک یادگار ملاقات سال 1990ء میں ہوئی۔
مجھے معراج محمد خان کا ماہنامہ ’’زنجیر‘‘ کے لئے انٹرویو کرنا تھا۔ خان صاحب نے کہا نوجوان میں تمہیں 45منٹ دے سکتا ہوں کیونکہ مجھے کہیں جانا ہے۔ مقررہ وقت پر ان کے انٹرویو کے لئے پہنچا تو وہاں آئی اے رحمن بھی تشریف فرما تھے ہلکی پھلکی گپ شپ کے بعد انٹرویو شروع ہوا تو 45منٹ کب گزرگئے کسی کو علم نہ ہوا۔ یہ انٹرویو تقریباً 3گھنٹے کا ہوا۔ ان دنوں انٹرویو ٹیپ ریکارڈ پر ریکارڈ کیا جاتا تھا بعدازاں سوال جواب کی صورت میں تحریر۔ انٹرویو ختم ہوا تو معراج محمد خان نے آئی اے رحمن کی طرف دیکھا اور معذرت بھرے انداز میں کہنے لگے ’’یار میری وجہ سے تاخیر ہوگئی‘‘۔ رحمن صاحب بولے کوئی بات نہیں یہ انٹرویو زیادہ اہم تھا پھر انہوں نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا، نوجوان مطالعہ اور معلومات دونوں خوب ہیں، مجھے خوشی ہوئی اس لئے درمیان میں مداخلت نہیں کی۔
ہم نے ایک کھانے پر جانا تھا وہاں کچھ دوست خان صاحب کا انتظار کررہے تھے۔ ایک بڑے بزرگ کی طرح انہوں نے جس انداز میں حوصلہ افزائی کی اس سے ملی خوشی کا احساس آج بھی زندہ ہے۔
آئی اے رحمن کے بھتیجے اور ہمارے دوست راشد رحمن ایڈووکیٹ ملتان میں انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھ کر قتل ہوئے۔ یہ دکھ وہ کبھی نہیں بھلاپائے۔
راشد رحمن بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے معلم جنید حفیظ کے وکیل تھے ان پر مقدمہ کی پیروی سے دستبردار ہونے کے لئے بہت دباو تھا مگر وہ کسی دباو کو خاطر میں نہ لائے۔
آئی اے رحمن نے چھ دہائیوں سے اوپر اس ملک میں مزاحمتی جدوجہد میں حصہ لیا۔ وہ ایک ایسے سماج اور نظام کے قیام کے خواہاں تھے جہاں انسان کی بطور انسان تکریم ہو، انصاف بلاامتیاز ملے اور وسائل کی منصفانہ تقسیم یقینی ہو۔
اپنے افکار، جدوجہد اور تحریروں سے انہوں نے تین نسلوں کو متاثر کیا ان کے سانحہ ارتحال سے صرف مزاحمتی تحریک اور انسانی حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والوں کو ہی نقصان نہیں ہوا بلکہ پاکستانی سماج ایک ایسی بلند پایہ شخصیت سے محروم ہوگیا ہے جو علم و فکر، جدوجہد اور استقامت میں اپنی مثال آپ تھی۔
اپنی جدوجہد کے ماہ سال کے دوران مختلف مواقع پر انہوں نے ریاستی جبر کا بھی سامنا کیا اور ہمیشہ ثابت قدم رہے۔ کالم کے آغاز میں موجودہ حالات کے تناظر میں جن دو امور کا تذکر کیا وہ بھی آئی اے رحمن کی فہم کے عین مطابق ہیں
یعنی اولاً یہ کہ سماجی وحدت، شہری و سیاسی اور مذہبی آزادیوں کے منافی نظریات رکھنے والی تنظیموں پر پابندی اور ثانیاً ریاست و حکومت کا غیرمذہبی رویہ اپنانا۔
ہمیں ٹھنڈے دل کے ساتھ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس معاملے پر پوری اسلامی دنیا میں سے د و تین ممالک صرف تحریری طور پر احتجاج کرتے ہیں اس پر ہم اپنے گھر میں مرنے مارنے پر کیوں اتر آتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: