اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

صرف جہانگیر ترین ہی کیوں؟||سارہ شمشاد

انہیں تو لوٹا ہوا پیسہ واپس لانے میں دلچسپی ہے اور ایسا صرف اسی صورت ہوگا جب لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے گی تاکہ وہ پیسہ ملک و قوم پر خرچ کیا جائے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ منی لانڈرنگ کا لفظ ڈال کر کیس کو کریمنل بنایا گیا۔ مکمل منی ٹریل موجود ہے، اپنی بیگناہی ثابت کروں گا، چینی سکینڈل میں جہانگیر ترین اور علی ترین نے عبوری ضمانت لی ہے۔ جہانگیر ترین کا چینی سکینڈل میں نام آنے پر تحریک انصاف کے سینکڑوں کارکنوں کو شدید صدمہ ہوا کہ ان کے کپتان کا ایک اہم اور مضبوط ترین ساتھی کے ساتھ ان کی حکومت میں آخر یہ سب کچھ کیا ہورہا ہے۔تاہم اس سے کپتان کے کسی کو نہیں چھوڑوں گا کے دعوے کو تقویت ملتی ہے، آفرین ہے تحریک انصاف کے کارکنوں پر جنہوں نے پٹواری بننے سے مکمل طور پر انکار کردیا اور برملا کہا کہ اگر جہانگیر ترین بے گناہ ہیں تو عدالت میں منی ٹریل دے کر خود کو بے گناہ ثابت کریؒں تاکہ ان پر لگائے جانے والے الزامات غلط ثابت ہوسکیںاور عوام کی نظروں میں سرخرو ہوں۔ ادھر جہانگیر ترین کی تعریف نہ کرنا بھی بڑی زیادتی ہوگی کہ انہوں نے بلاچوں چراں خود کو احتساب کے لئے پیش کردیا اور یوں کپتان اور ترین کی یاری پر حرف نہیں آنے دیا لیکن اب جب سے منی لانڈرنگ کے حوالے سے ان کا نام سامنے آرہا ہے تو اس پر وہ کافی مضطرب اور پریشان نظر آتے ہیں۔ مجھے اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ جہانگیر ترین بیگناہ ہیں یا قصوروار۔ مگر ایک بات پر شدید تکلیف ہے کہ اس ملک میں عمران خان کے دور حکومت میں بھی بلاامتیاز اور غیرجانبدار احتساب ایک خواب ہے۔ جہانگیر ترین پر لگے الزامات درست ہیں یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی ثابت کرے گا لیکن ایک سوال جو بحیثیت پاکستانی میں اپنے نظام سے پوچھنے کی جسارت کروں گی کہ کیا اس ملک میں جہانگیر ترین سے بڑا کوئی اور مجرم نہیں ہے کیا اس ملک کے تمام مسائل صرف جہانگیر ترین کے ہی پیدا کردہ ہیں۔
نوازشریف، آصف زرداری سمیت دیگر کئی سیاستدانوں پر کرپشن کے کیسز عدالتوں میں طویل عرصے سے چل رہے ہیں تو ایسے میں صرف جہانگیر ترین کو ہی معتوب ٹھہرانا کہاں کی دانش مندی ہے۔میں پھر یہ واضح کرنا چاہوں گی کہ جہانگیر ترین کے کیس کا فیصلہ عدالت کرے گی لیکن جہانگیر ترین کو جس طرح ٹارگٹ کیا جارہا ہے وہ اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ اب یہ گلا سڑا سسٹم انہیں کسی طور بھی قبول کرنے کے لئے تیار ہی نہیں۔ یہی نہیں بلکہ جہانگیر ترین کو جس انداز میں ٹارگٹ کیا جارہا ہے اس سے یہ واضح پیغام لوگوں کو دیا جارہا ہے کہ اس کرپٹ اور بوسیدہ سسٹم کے خلاف کھڑے ہونے والوں کا یہی حشر کیا جائے گا۔ یہ طرز عمل مجھ سمیت 22کروڑ پاکستانیوں کے لئے باعث تشویش ہے۔ بلاشبہ تحریک انصاف کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھانے کے لئے جہانگیر ترین کو بہت زیادہ قربانی دینا پڑی تو انہیں انتخابی عمل سے ہی مکمل طور پر آئوٹ کردیا گیا اور چینی سکینڈل آگیا۔اس حوالے سے شفاف تحقیقات ضرور ہونی چاہئیں اور ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے لیکن کیا کوئی یہ بتانے کی جرات کرے گا کہ چوہدری مونس الٰہی کے خلاف کوئی کارروائی تاحال عمل میں کیونکر نہیں لائی گئی ہے۔نیب نے چوہدری برادران کو کلین چٹ کیونکر دیا ور اب جو شوکت ترین نے کابینہ میں شامل ہونے کے لئے نیب کیسز ختم کرنے کی جو شرط رکھی ہے اس بارے ہمارے ارباب اختیار کیا کہنا پسند کریں گے۔اس دہرے معیار کو احتساب سے زیادہ انتقامی کارروائی ہی کہا جائے گا۔
وطن عزیز میں منی لانڈرنگ کرکے پلی بارگین کرنے والوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے لیکن اکیلے جہانگیر ترین کو جس انداز میں ٹارگٹ کیا جارہا ہے اس سے منظم سازش کا جہاں عندیہ ملتا ہے وہیں جنوبی پنجاب کے عوام کو یہ پیغام بھی دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جہانگیر ترین کا تعلق چونکہ اس ملک کے سب سے پسماندہ اور طویل عرصے سے محرومیوں کے شکار علاقے جنوبی پنجاب سے ہے اس لئے انہیں جان بوجھ کر ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ لیکن خسرو بختیار اور ہاشم جواں بخت کے خلاف کارروائی بھی ہون یچاہیے یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ وطن عزیز میں کوئی بھی دودھ کا دھلا ہوا نہیں ہے بلکہ سب نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں اس لئے اگر جہانگیر ترین پر کوئی مقدمہ ہے تو اس کا میڈیا ٹرائل کرنے کی بجائے اسے عدالتی سطح پر لڑا جانا چاہیے۔ اس قسم کے طرز عمل سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ہمارا نظام ہی دراصل گل سڑ چکا ہے اور یہ خود لوگوں کو کرپشن کرنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ اگر وزیراعظم عمران خان وطن عزیز سے کرپشن ختم کرنے کے واقعی خواہاں ہیں تو کرپشن کے دروازوں کو بند کرنے کی طرف توجہ دیں مگر انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ آج تک انہوں نے اداروں کی بحالی کے لئے کسی قسم کی کوئی Ammenments نہیں کیں، انتخابی اصلاحات ہوں یا نیب یا بیوروکریسی کو لگام دیئے کا معاملہ، سب جگہ خان صاحب کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا جس کی ایک بڑی وجہ نمبرز پورے نہ ہونا بھی ہے۔
کرپشن سے پاک نظام کی طرف توجہ دی جائے اور ایسا صرف اسی وقت ہوگا جب سب مل کر وطن عزیز کو کرپشن فری ملک بنانے میں اپنا حصہ ڈالیںاور ایسا صرف اسی صورت ہوگا جب کسی کو انتقامی کارروائی کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ جہانگیر ترین منی ٹریل عدالت میں پیش کرنے کے لئے تیار ہیں تو اداروں بالخصوص ایف آئی اے ، ایف بی آر پر بھی لازم ہے کہ وہ چھان بین کرتے وقت اس بات کو یقینی بنائے کہ کسی کے ایما پریا کسی کو خوش کرنے کے لئے تو جہانگیر ترین کے مقدمات کو مزید الجھایا نہیں جارہا ہے یا معاملات واقعی سنگین نوعیت کے ہیں۔ اس وقت اگر کوئی وطن عزیز میں سب سے زیادہ ٹیکس ادا کررہا ہے تو اس میں جہانگیر ترین سرفہرست ہیں اور اس بات کا اعتراف ان کے دوست عمران خان کئی مرتبہ کرچکے ہیں اس لئے اداروں پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ انتقامی کارروائی کا نشانہ بنانے کے تاثر کو
زائل کریں۔ جہانگیر ترین کی تحریک انصاف کے لئے کاوشیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اسی طرح لودھراں میں تعمیراتی اور فلاحی کاموں میں بھی وہ پیش پیش رہے ہیں۔ مجھے جہانگیر ترین کے احتساب پر قطعاً کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن احتساب وہی ہوتا ہے جو غیرجانبدار اور ہوتا ہوا نظر آئے۔ میڈیا ٹرائل کسی احتساب کا نام نہیں ہے اسی طرح عمران خان سے دوستی کی بھی جہانگیر ترین کو بڑی بھاری قیمت ادا کرنا پڑرہی ہے کیونکہ عمران خان کو وزیراعظم بنانے میں جہانگیر ترین کی محنت اور کاوشیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اگر حکومت احتساب بارے واقعی سنجیدہ ہے تو یہ بلاامتیاز اور بلاتفریق ہونے کے ساتھ ہوتا ہوا بھی نظر آنا چاہیے۔ اگر جہانگیر ترین پر احتساب کا کلہاڑا چلا جارہا ہے تو خان صاحب کو کابینہ میں موجود دیگر افراد کی کارکردگی پر بھی نظر رکھنی چاہیے جو وزیراعظم کی ناک کے نیچے دھڑلے سے کرپشن کررہے ہیں کئی وزراء کے بڑے بڑے کارناموں کے گڑبڑ گھٹالے کی خبریں بھی پڑھنے کو مل چکی ہیں۔ ضروری ہے کہ کسی خاص شخص کو ٹارگٹ کرنے کی بجائے تمام سیاسی جماعتوں کو احتساب کے کٹہرے میں لایا جائے۔کرپٹ لوگوں سے لوٹا ہوا پیسہ واپس لینے کیلئے پلی بارگین کے آپشن کو بھی استعمال کیا جانا چاہیے کیونکہ عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ کہ کس کو کیا سزا ہوئی۔ انہیں تو لوٹا ہوا پیسہ واپس لانے میں دلچسپی ہے اور ایسا صرف اسی صورت ہوگا جب لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے گی تاکہ وہ پیسہ ملک و قوم پر خرچ کیا جائے۔ اب یہ عمران خان پر ہے کہ وہ بھی دیگر حکمرانوں کی طرح مصلحت کا شکار ہوتے ہیں یا پھر واقعی بلاامتیاز احتساب کے لئے اپنے اولین اصول پر قائم ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:

سارہ شمشاد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: