اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اہلِ سیاست!ہوش کے ناخن لیجئے||حیدر جاوید سید

نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے حالیہ اختلافات کا پس منظر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ان اختلافات میں اس جھوٹ نے زہر بھرا کہ پی پی پی نے سینیٹ اپوزیشن لیڈر کے عہدے کے لئے ’’باپ‘‘ سے ووٹ لئے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

باوجود اس کے کہ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے جمعرات کی صبح اپنی صاحبزادی مریم نواز اور نون لیگ پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ سے ٹیلیفون پر بات چیت کرتے ہوئے پارٹی رہنمائوں کے بعض حالیہ بیانات (یہ بیانات پیپلزپارٹی اور بھٹو خاندان کے بارے میں دیئے گئے) اور سوشل میڈیا پر بھٹو خاندان کے حوالے سے نون لیگ کے بعض ارکان اسمبلی اور رہنمائوں کی پوسٹوں پر ناپسندیدگی ظاہر کی اور اس سلسلے کو بند کرکے پی ڈی ایم کی جماعتوں میں پیدا ہونے والے اختلافات کو اتحاد کے اندر طے کرنے پر زور دیا
لیکن مجھے نہیں لگتا کہ شاہد خاقان عباسی کی قیادت میں متحرک گوریلا گروپ سیزفائر پر آمادہ ہوگا اور یہ کہ اختلافی امور مل بیٹھ کر طے کرنے کی حکمت عملی اپنائی جائے گی۔
نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے حالیہ اختلافات کا پس منظر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ان اختلافات میں اس جھوٹ نے زہر بھرا کہ پی پی پی نے سینیٹ اپوزیشن لیڈر کے عہدے کے لئے ’’باپ‘‘ سے ووٹ لئے۔ پچھلے کالموں میں تفصیل کے ساتھ اس حوالے سے معروضات پیش کرچکا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ساری ہاہاکاری سے بنے ماحول سے ایسا لگتا ہے کہ پی ڈی ایم صبح گیا یا شام گیا۔ پیپلزپارٹی کا یہ موقف سیاسی اور اصولی طور پر درست ہے کہ گیارہ جماعتی اپوزیشن اتحاد کی پالیسیاں اور فیصلے صرف دو جماعتوں نون لیگ اور جے یو آئی کا حق نہیں بلکہ پہلے دن یہ طے ہوا تھا کہ اکثریتی بنیادوں پر نہیں مکمل اتفاق رائے سے تمام فیصلے کئے جائیں گے۔
اسی سبب ایک پچھلے کالم میں عرض کیا تھا کہ لانگ مارچ سے قبل استعفوں اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر نون لیگ کا ہوگا۔ دونوں پر اگر پی ڈی ایم کا کوئی مشترکہ فیصلہ کسی اجلاس میں ہوا تھا تو ان فیصلوں کی وہ تحریریں کہاں ہیں جن پر پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کے دستخط ہوں؟
پیپلزپارٹی یا نون لیگ کے ہارڈلازر کو ممکن ہے تحریر نویس کی بات بری لگے مگر یہ عرض کرنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ اگر ایسی ہی بداعتمادی اور کینہ پروری تھی تو پی ڈی ایم کا ڈھونگ رچانے کی کیا ضرورت تھی۔
اتحاد بنا ہی لیا تھا تو اتحادی سیاست کے تقاضوں کو سب مدنظر رکھتے۔
گو کہ سیاست میں دوستیاں اور دشمنیاں مستقل نہیں ہوتیں لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ نون لیگ بہرطور بھٹوز سے نفرت کی بنیاد پر قائم ہو ئی تھی لیکن کیا اب اسی کا رونا روتے رہنا ہے یا آگے بڑھنا ہے؟
بنیادی سوال یہی ہے۔ ہم اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے سیاسی قائدین نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا خصوصاً اختلافی امور کو طے کرنے کے حوالے سے تو بالکل ہی نہیں۔
چھوٹی چھوٹی باتوں پر یہ چنگچی رکشہ چلانے والوں کی طرح بازاری پن کے مظاہرے اور طعنوں پر اتر آتے ہیں۔ ڈھونگ ان کا یہ رہتاہے کہ یہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کے علمبردار اور وارث ہیں لیکن ان میں سے ہر شخص ہر وقت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملہ کرنے پر تیار رہتا ہے۔
مثال کے طور پر سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے معاملے پر پیپلزپارٹی کو ایک برائی کے طور پر پیش کرتی نون لیگ یہ نہیں بتاتی کہ پنجاب سے بلامقابلہ سینیٹر بنوانے کا فارمولہ اسٹیبلشمنٹ کے کس ’’باوقار و باجلال‘‘ نمائندے کے گھر پر طے ہوا۔
اور یہ کہ اگر یہ فارمولہ طے نہ ہوتا تو نون لیگ کو 5نہیں 4نشستیں ملتیں پنجاب سے سینیٹ کے لئے اس طور اعظم تارڑ رہ جاتے۔
ثانیاً چودھری پرویزالٰہی کے زرداری کو ٹیلیفون کرنے سے قبل شاہد خاقان عباسی سید نیئر بخاری کو ٹیلیفون پر پنجاب سے سینیٹ کے لئے طے شدہ فارمولے کے بارے میں آگاہ کرکے یہ کہہ چکے تھے کہ آپ اپنا امیدوار دستبردار کروالیں۔ اس کے بعد چودھری پرویز الٰہی نے آصف علی زرداری سے بات کی ، فارمولہ نون، ق اور پی ٹی آئی نے طے کیا ان کا حق تھا 7ارکان رکھنے والی پیپلزپارٹی تو کسی شمار میں ہی نہیں تھی لیکن کیا اس فارمولے اور اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے کے گھر پر مذاکرات دونوں پر پی ڈی ایم کو اعتماد میں لیا گیا؟
یہ بھی عرض کردوں پنجاب میں بزدار حکومت گرانے کا نسخہ پیپلزپارٹی نے پیش نہیں کیا بلکہ پچھلے دو برسوں سے اس حوالے سے نون لیگ اور ق لیگ کے قائدین کے درمیان رابطوں کا سلسلہ جاری ہے اور اس دوران دونوں طرف کے بڑے کم از کم دوبار کھانے کی میز پر بھی اکٹھے ہوئے۔
ایک مرحلہ پر شہباز شریف اس پر آمادہ تھے کہ ق لیگ کے ساتھ مل کر عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے۔
بیل اس لئے منڈھے نہ چڑھ سکی کہ مریم نواز اور میاں نوازشریف اس تحیری معاہدہ پر آمادہ نہ ہوئے جس میں لکھا جانا تھا کہ پنجاب میں نئی حکومت کی تشکیل چودھری پرویزالٰہی کی قیادت میں ہوگی۔
باقی ماندہ مدت میں پرویزالٰہی اور نون لیگ کی نامزد شخصیت مساوی عرصہ کے لئے وزیراعلیٰ رہیں گے۔ پرویزالٰہی وزیراعلیٰ ہوں گے تو سپیکر نون لیگ کا ہوگا اور نون لیگ کا وزیراعلیٰ ہوگا تو سپیکر راجہ بشارت ہوں گے۔ حتمی معاہدہ اس لئے بھی طے نہیں پاسکا تھا کہ ایک مرحلہ پر میاں نوازشریف کا موقف یہ ہوگیا ہمیں عام انتخابات کی طرف بڑھنا چاہیے۔
پیپلز پارٹی ابتدا میں اس سارے معاملے کا حصہ نہیں تھی۔ سینیٹ فارمولہ کے بعد ق لیگ نے اس کی قیادت سے بات کی کہ اگرایسا ہوتا ہے تو پیپلزپارٹی کا موقف کیا ہوگا؟ جواباً بلاول بھٹو نے کہا ہمارے نزدیک وزیراعلیٰ کا امیدوار حمزہ شہباز کو ہونا چاہیےکیونکہ ہم تو اتحادی جماعت کے ساتھ ہوں گے۔
یہ تفصیل عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سیاسی قائدین کو اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف کامیابیوں نہیں بلکہ ناکامیوں کا بوجھ بھی خود اٹھانا چاہیے۔
اپنی ناکامی یا نفرت کا بوجھ دوسروں پر ڈالنے کو کوئی بھی درست نہیں سمجھتا۔ حرفِ آخر یہ ہے کہ پچھلی صدی کی آخری دو دہائیوں کی مادرپدر آزاد سیاست کا ڈول ڈالنے سے اجتناب کیا جائے تو یہ سب کے حق میں بہتر ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:

زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید

پی ٹی وی کے قبرستان کا نیا ’’گورکن‘‘ ۔۔۔حیدر جاوید سید

ارشاد تونسوی.سرائیکی وسوں کا چاند غروب ہوا||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: