مئی 7, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ذوالفقار علی بھٹو: وہ آدمی جو جلدی میں تھا||مرتضی سولنگی

اپنی عمر کی تیسری دہائی کے اوائل میں بھٹو نے برکلے، کیلیفورنیا اور آکسفورڈ سے تعلیم مکمل کی اور کراچی میں ایس ایم لا کالج میں پڑہانے کے ساتھ ایک قانونی فرم بنائی اور قانون کی مشق شروع کی۔

مرتضی سولنگی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کئی لوگ ہیں جو طویل زندگی جیتے ہیں۔ کئی لوگ ہیں جو اسی کی دہائی کو عبور کرکے نوے میں پہنچ جاتے ہیں۔ کچھ تو سو کے ہندسے کو بھی عبور کر جاتے ہیں۔ ہم کتنے ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جو نوے سال کی عمر کو پہنچے ہوں؟ بہت زیادہ نہیں۔ آخر میں یہی ہوتا ہے کہ انہوں نے ایسا کیا کیا، اپنی زندگی میں کیا حاصل کیا۔ کچھ کی زندگی بہت تھوڑی ہوتی ہے مگر تاریخ میں بہت گہرے نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی ان میں ایک تھا۔

اپنے والد سر شاہنواز بھٹو کا لاڈلہ، بھٹوؤں کے جاگیر دارانہ گھرانے میں پیدا ہوا، جوکہ راجستھان کے راجپوت تھے اور کئی صدیاں پہلے شمالی سندھ کی طرف ہجرت کرکے آئے تھے۔

اپنی عمر کی تیسری دہائی کے اوائل میں بھٹو نے برکلے، کیلیفورنیا اور آکسفورڈ سے تعلیم مکمل کی اور کراچی میں ایس ایم لا کالج میں پڑہانے کے ساتھ ایک قانونی فرم بنائی اور قانون کی مشق شروع کی۔

جب نصرت اصفہانی سے 1951 میں اس کی شادی ہوئی تو اس کی عمر 23 سال تھی۔ وہ اس کی پیار کی شادی تھی مگر دوسری بیوی تھی۔ سر شاہنواز بھٹو نے 1943 میں اس کی شیریں امیر بیگم سے شادی کروائی تھی جب وہ پندرہ سال کے تھے اور ثانوی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔

کراچی جو اس وقت وفاقی دارالحکومت تھا، یہ اس کی اشرافیہ کا سماجی حلقہ ہی تھا جس نے ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار کے دائروں میں شامل کیا۔ بیگم ناہید اصفہانی اور بیگم نصرت اصفہانی (جو کہ بعد بھٹو کی شریک حیات بنی) آپس میں دوست تھیں۔ وہ اسی طرح اسکندر مرزا سے رابطے میں آئے جو 1958 کی پہلی بغاوت کے بعد صدر بنے تھے ایوب خان وزیر دفاع۔ 30 سال کی عمر میں بھٹو تجارت کے وزیر بنے۔

اپنی شاہانہ پرورش کے باوجود، امریکہ اور برطانیہ میں تعلیم کے دوران بھٹو لبرل جمہوریت، مساوات پسندی اور سوشلزم کے اقدار سے متاثر ہوئے۔ سیاست میں دلچسپی والے ایک نوجوان کی حیثیت سے وہ یا تو چی گویرا والا راستہ چن سکتا تھا مقبول عام سیاست میں شامل ہو سکتا تھا۔ اس نے دوسرا راستہ چنا۔

کئی نوجوان لوگوں کی طرح، اس نے نظام کا حصہ بن کر اس کو تبدیل کرنے کا راستہ چنا۔ وہ اسکندر مرزا اور ایوب خان کے کافی غریب تھے۔ کچھ وقت کیلئے یہ جنت میں لکھی ہوئی شادی طرح دکھائی دیتا تھا۔ یہ تھوڑا عرصہ جاری رہا۔ 1965 کی جنگ ایک اہم موڑ تھا۔ اس کو جنگ کے بعد ایوب خان کی طرف سے تاشقند میں ہندوستان کے ساتھ معاملات کو سنبھالنا پسند نہیں آیا۔ اس نے کابینہ سے استعفا دے دیا، ایوب خان اس کے تعاقب میں رہا، اور اپنی نجی زمین پر سرکاری ٹریکٹرز کے استعمال جیسے فرضی مقدمات میں گھسیٹا۔ یہاں تک کہ اس کو کچھ وقت میانوالی کے جیل میں رکھا گیا جہاں سے اس نے اپنے بھانجے طرق اسلام کو خط لکھا جس میں واضع کیا کہ وہ پاکستان کیلئے کیا کرنا چاہتے ہیں۔

وہ اس پہ سوچنے کیلئے برطانیہ چلے گئے۔ اس دور کے بہت سارے دانشوروں نے اسے ایک نئی سیاسی جماعت شروع کرنے کا مشورہ دیا۔ وہ سوشلزم اور نوآبادیاتی مخالف قومی آزادی کی تحریکوں کا دور تھا اسی وجہ سے بھٹو بھی اسی کے قریب آیا۔ اس وقت کے سیکریٹری خارجہ، کلکتہ اور ڈھاکہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل اور بنگالی کمیونسٹ جلال الدین رحیم، جو جے اے رحیم سے جانا جاتا تھا، ڈاکٹر مبشر حسن، معراج محمد خان اور کسان رہنما شیخ رشید جیسے لوگ بھٹو کے قریب آئے۔ بھٹو کی واپسی کے بعد جے اے رحیم نے 30 نومبر 1967 کی سہ پہر کو ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر پارٹی کے پہلے اساسی دستاویز لکھنے میں مدد کی۔ صرف 39 سال کی عمر میں اس نے پارٹی کی بنیاد رکھی اور جے اے رحیم پارٹی کے پہلے سیکریٹری جنرل بنے۔ اس نے اپنی جماعت کا نام پیپلز پارٹی رکھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو صرف چھ سال کے تھے اس وقت ان کے والد سر شاہنواز بھٹو نے سندھ پیپلز پارٹی کی تشکیل میں مدد کی تھی۔

ایک جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھنے والا، وزارت سے ہٹا ہوا، بیرون ملک تعلیم یافتہ، بائیں بازو کے نعرے بلند کرتا، اپنی تقریروں اور گفتگو میں دنیا کے فلاسفہ، دانشوروں اور اس دور کے بڑے لوگوں کا حوالا دیتا نوجوان سیاستدان بہت بڑی بات تھی۔ یہ ایک مقبول کرشماتی نوجوان سیاستدان کی شروعات تھی، ایسا کرشمہ جو اس نے راولپنڈی جیل میں پھانسی کے پھندے کو چومنے تک برقرار رکھا۔

ذوالفقار بھٹو ایک ذی شعور اور باکمال قاری اور دیر تک جاگے رہنے میں مشہور تھے۔ وہ شاید ایک یا دو گھنٹے سوتا تھا اور کام کے معاملے میں جنونی تھا۔ راولپنڈی میں بطور وزیر وہ پاکستان کے ریاستی عمل کو سمجھنے میں مصروف رہے۔ اس کی واحد زندہ اولاد صنم بھٹو، جو راولپنڈی میں پیدا ہوئیں، نے ایک مجھے ایک بار اپنے والد، جو کہ اس وقت ایک نوجوان وزیر تھے کے بارے میں بتایا۔

“ہم اس سے پوچھتے تھے کہ اس نے کیا کام کیا؟ وہ کیا کرتے ہیں؟ وہ ہمیشہ کہتے تھے میں سرکاری ملازم ہوں۔ لہذا ہم ان سے بات کرتے ہوئے چڑاتے تھے کہ محترم سرکاری ملازم آپ کا آج کیسا گذرا، ہم انہیں اکثر پریشان کرتے تھے۔” ایک مرتبہ صنم نے میرے ساتھ انکشاف کیا۔

پاکستان کی سیاست پر بھٹو کے مقبول عوامی سیاست کے نشانات ہیں۔ پاکستان میں ان سے پہلے کسی نے ایسا نہیں کیا تھا۔ 60 کی دہائی کی طلبہ تحریک کے آخری سالوں، 66 سے 69 تک میں، بھٹو کے واضح نشانات ہیں۔ وہ طلبہ میں بیحد مقبول تھے۔ بھٹو جہاں بھی جاتے تھے طلبہ ان کے پیچھے جاتے تھے۔ لیکن وہ کسان اور مزدور طبقات کی جدوجہد کا دور بھی تھا۔ وہ بھی ان کی جماعت کے ارد گرد جمع ہوئے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے سوشلسٹ نعروں کے ساتھ ہندوستان مخالف قومپرستی کی آمیزش کی جس نے سے پنجاب کی سب سے مقبول جماعت قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی جماعت کو اس صوبے میں بھاری کامیابی ملی۔ پنجاب اسمبلی کی 180 میں سے اس کی جماعت کو 113 نشستوں پہ کامیابی ملی۔ دوسرے نمبر پہ آنے والی ممتاز دولتانہ کی کاؤنسل مسلم لیگ نے صرف 15 نشستیں جیتیں۔ ڈاکٹر مبشر حسن نے انتخابات ہونے کی بعد والی رات کو یاد کیا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ انتخابی سرگرمیوں کی وجہ سے تھکے ہوئے تھے اس وجہ سے دس بجے سونے چلا گیا۔ “آدھی رات کے قریب گھر کے فون کی گھنٹی بجنے پہ میری آنکھ کھلی۔ بھٹو فون کی دوسری طرف تھا۔ وہ چیخ رہا تھا۔ مبشر یہ کیا ہے؟ میں نے پوچھا کیا یوا۔ بھٹو حیرت میں تھا کہ کیسے اس کی جماعت نے اتنی ساری نشستیں جیتی۔ میں نے ان سے کہا آپ نے لوگوں کے امنگوں کی ترجمانی کی اور جادو چل گیا۔ میں نے ان سے کہا خود بھی سوئیں اور مجھے بھی سونے دیں۔” ڈاکٹر مبشر حسن نے کہا۔

اگر یحییٰ خان کی حکومت نے 1970 کے انتخابات کے نتائج تسلیم کیے ہوتے تو بھٹو قائد حزب اختلاف ہوتے یا اگر دونوں ( مجیب اور بھٹو) نے کوئی قابل عمل ڈھونڈا ہوتا تو بھٹو پاکستان کے صدر ہوتے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔

25 مارچ 1971 کو جو ملٹری آپریشن شروع ہوا وہ 16 دسمبر کو ملک دو حصوں میں ٹوٹنے اور پاکستانی افواج کے ہتھیار ڈالنے پہ ختم ہوا۔ بھٹو اور اس کے دیگر ساتھی اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ اگر مجیب کے چھ نکات مانے گئے تو صرف مشرقی اور مغربی پاکستان میں کنفیڈریشن قائم ہوگی بلکہ ویسی ہی خودمختاری سندھ، بلوچستان اور صوبہ سرحد بھی مانگیں گے۔ یہ بات پنجاب کی حکمران اشرفیہ کو قبول نہیں ہوگی جہاں بھٹو کے سیاست مقبول تھی کیونکہ سندھ اس وقت پی پی کا گڑھ نہیں تھا۔ 1970 کے انتخابات کے بعد سندھ میں پی پی کو سادی اکثریت بھی حاصل نہیں تھی۔ سندھ کی 60 صوبائی نشستوں میں پی پی کو صرف 28 نشستیں حاصل تھیں۔ سندھ میں حکومت بنانے کیلئے بھٹو کچھ آزاد اراکین جیسے کہ پیار علی الانا کو حکومت بنانے کیلئے اپنی جماعت میں شامل ہونے کیلئے راضی کرنا پڑا۔

یہ واضع تھا کہ 16 دسمبر 1971 کو ڈھاکا کے ریس کورس گراؤنڈ میں ہتھیار ڈالنے کے بعد بھی یحییٰ کو بھٹو کو اقتدار سونپنے کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ ہتھیار ڈالنے کے دن یحییٰ نے جو تقریر کی اس میں اس نے ملک کو نیا آئین دینے کا اعلان کیا۔ مولوی تمیز الدین کیس میں اختلاف کرنے والے واحد جج جسٹس اے آر کارنیلیوس، جو یحییٰ خان کے مشیر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے، نے جنرل کی حکمرانی کی توسیع کیلئے ایک قانون تیار کیا تھا۔ فوج کے اندر بغاوت کی وجہ سے ہی یحییٰ خان بھٹو کو اقتدار منتقل کرنے کو مجبور ہوئے جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے واپس آئے تھے۔

بھٹو کو صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے طور پر اقتدار منتقل ہوا اور اس نے پاکستان کو ایک متفقہ آئین دیا اور 45 سال کی عمر میں وزیراعظم کے طور پر حلف لیا۔

اپنے پانچ سال کی حکومت میں دن رات کام کیا۔ کئی پرانے افسران بتاتے ہیں کہ وہ سمریوں میں یقین نہیں رکھتے تھے جس طرح آجکل کے حکمران کرتے ہیں۔ وہ احکامات جاری کرنے سے پہلے پوری فائیل منگواتے تھے۔ احکامات کافی لمبے ہوتے تھے جس میں تاریخ، فلسفے اور دوسری کتب سے اقوال درج ہوتے تھے، جو بھٹو پڑہنا پسند کرتے تھے۔ کئی لوگ بتاتے ہیں کہ پاکستان کی کتابوں کی مشہور دکانوں کو ہدایات ہوتی تھیں کہ تازہ کتابوں کی کاپیاں خرید کر اس کو بھیجیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھٹو پاکستان کے سب سے زیادہ پڑہنے والے سیاستدان تھے۔

ہم بھٹو کے پانچ سالہ دور پر کسی اور وقت میں بات کرلیں گے کہ انہوں نے اپنے پانچ سالہ دور میں کیا حاصل کیا۔ لیکن آخر کار ان کی تعریف کیلئے یہ کافی ہے کہ وہ پرامن پارلیمانی سیاست کے ساتھ، بدترین فوجی آمر کے سامنے نہیں جھکے۔ بھٹو نے نہ تو جلاوطنی قبول کی اور نہ کوئی رعایت حاصل کی، اسے ملک سے باہر لے جانے کی دو کوششیں ہوئیں۔ اس نے دونوں مرتبہ انکار کردیا۔

پہلی مرتبہ تب جب ڈاکٹر مبشر نے مجھے بتایا کہ بھٹو جب بھٹو کی مولوی مشتاق کے سامنی پیشیاں ہورہی تھیں تو ہم نے پلان بنایا کہ ہم پولیس کے قافلے پر حملہ کرکے بھٹو کو چھڑانا چاہتے ہیں، اور پھر بھٹو کو بیرون ملک لیکر جانا چاہتے ہیں، جب یہ بات بھٹو کو پتا چلی تو انہوں نے سختی سے منع کردیا۔

دوسری بار، ان کے بھتیجے طارق اسلام نے پھانسی سے چار دن پہلے ہی بھٹو کو یاسر عرفات کا پیغام دیا تھا۔ طارق اسلام 31 مارچ 1979 کو راولپنڈی جیل میں بھٹو سے ملنے کیلئے تشریف لائے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے یاسر عرفات کا پیغام پہنچایا کہ وہ ملک سے باہر بھیجے جانے پر راضی ہوں، کیونکہ انہوں نے جیل میں کمانڈو آپریشن کرنے اور اسے ملک سے باہر لے جانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ “اپنے بھائی عرفات کا شکریہ ادا کرنا۔ اس سے کہو کہ میں آپ کی کوشش اور کاوش کی تعریف کرتا ہوں لیکن تاریخ میں لکھوانا نہیں چاہتا ہوں کہ فرار ہونے والا سیاستدان اپنی موت سے ڈرتا ہے ، “طارق نے مجھے بتایا۔

یہ ہے بھٹو کی زندگی کا خلاصہ۔ وہ 51 سال کی عمر میں چلا گیا۔ اگر وہ کسی ناجائز ڈکٹیٹر کے ہاتھوں قتل نہ ہوتا ، تو وہ آج 92 سال کے ہو چکے ہوتے۔ کل 1107 ماہ، کم لوگ ہیں جو اس عمر تک زندہ رہتے ہیں، اگر زندہ ہوں تب بھی وہ شان و شوکت نہیں رہتی، لیکن آج بھٹو مر کر بھی زندہ ہے۔

وہ آدمی جلدی میں تھا۔ اس نے سب کچھ بہت جلد ختم کردیا اور ہمیں اس کے بارے میں حیرت زدہ کرکے چھوڑ گیا۔

ابراہم لنکن نے کیا خوب کہا تھا۔ یہ بات اہم نہیں کہ آپ کی زندگی میں کتنے سال ہیں، اہم بات یہ ہے کہ ان سالوں میں زندگی کتنی ہے؟

 

مرتضی سولنگی کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: