اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پی ڈی ایم ’’چلے گا یا نہیں؟‘‘||حیدر جاوید سید

یہی بات پیپلزپارٹی کہتی تھی تب سارے ’’اہل زبان‘‘ اسے گالیاں دے رہے تھے کیا اب وہ پی ڈی ایم کی پیپلزپارٹی کے علاوہ ’’کلاس‘‘ لیں گے کہ استعفوں کا معاملہ ’’ٹھس‘‘ کیوں ہوا؟

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پی ڈی ایم میں نون لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان جاری ’’پانی پت کی لڑائی‘‘ میں جنگ بندی عارضی ثابت ہوئی۔ اس پر بات کرتے ہیں پہلے یہ عرض کردوں کہ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی 31ارکان کی تائید سے سینیٹ میں قائد حزب اختلاف بن گئے۔ نون لیگ نے اعظم تارڑ کو نامزد کیا تھا انہیں 21ارکان کی تائید حاصل ہوئی۔ اطلاع یہ ہے کہ جے یو آئی ف کے 5ارکان نے کسی بھی امیدوار کو تائیدی دستخط کرکے نہیں دیئے۔
اے این پی اور بی این پی کے علاوہ فاٹاسے سینیٹر دلاور آفریدی کے آزاد پارلیمانی گروپ اور جماعت اسلامی نے گیلانی کی حمایت کی۔ سینیٹ چیئرمین کے حکم پر یوسف رضا گیلانی کی بطور اپوزیشن لیڈر تقرری کا اعلان کردیا گیا۔
اس اعلان کے فوراً بعد نون لیگ کے رکن قومی اسمبلی احسن اقبال میڈیا کے سامنے آئے اور خوب گرجے برسے پھر بولے اگر اپوزیشن لیڈر کا عہدہ پیپلزپارٹی کے لئے اتنا ہی اہم تھا تو وہ میاں نوازشریف سے بات کرتے۔ میاں صاحب یہ عہدہ انہیں پیش کردیتے۔
پی ڈی ایم کی تین بڑی جماعتوں کی سینیٹ میں پوزیشن کچھ یوں ہے پیپلزپارٹی کے 21ارکان ہیں نون لیگ کے 17 (18 ارکان تھے لیکن ایک مرزا آفریدی تحریک انصاف میں شامل ہوکر ڈپٹی چیئرمین بن گئے) جبکہ جے یو آئی ف کے 5ارکان ہیں۔ اے این پی، ،پختونخوا ملی عوامی پارٹی اورنیشنل پارٹی کے 2-2 ارکان ہیں ۔ اے این پی اورآزاد پارلیمانی گروپ اور جماعت اسلامی نے پیپلزپارٹی کی حمایت کی۔ نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی نے نون لیگ کی، اس حساب سے پی پی پی کے پاس 31اور نون لیگ کے پاس 21ووٹ تھے۔ جے یو آئی تائیدی دستخط نون لیگ کو دے دیتی تو نون لیگ کے پاس 26ووٹ ہوجاتے۔5ارکان آزاد پارلیمانی گروپ نے گیلانی کی تائید کی۔
اصولی طور پر شکوہ تو قائد انقلاب حضرت مولانا فضل الرحمن سے بنتا ہے کیونکہ انہوں نے دو دن اُدھر میڈیا کو یہ کہا کہ ’’پی ڈی ایم کا فیصلہ ہےکہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر نون لیگ کا ہوگا‘‘ جبکہ حقیقت یہ ہےے کہ پی ڈی ایم کے کسی بھی اجلاس میں اس قسم کا فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ جس سربراہی اجلاس کے بعد بلکہ دوران اجلاس ہی میڈیا وار شروع ہوگئی ہیں اسمیں اس طرح کی کوئی تجویز تو کیا یہ معاملہ ہی زیرغور نہیں آیا۔
مسلم لیگ کے سنجیدہ لوگ بھی یہ جانتے ہیں کہ سینیٹ میں بڑی پارٹی پیپلزپارٹی ہے۔ نون لیگ اور پی پی پی دونوں دیگر پارلیمانی گروپوں کو اپنے ساتھ ملاکر ہی اکثریت ثابت کرسکتے ہیں۔ اس دوڑ میں پی پی نے دیگر 10ارکان کی حمایت حاصل کی ان میں 2ارکان اے این پی کے ہیں۔ ایک بی این پی کا ایک جماعت اسلامی اور 5آزاد پارلیمانی گروپ کے۔ اس مرحلہ پر اگر جے یو آئی ف کے 5ارکان نون لیگ کو دستخط کرکے دیتے تو ان کی تعداد 26 ہوتی۔ پی پی پی کے پاس پھر بھی 5ووٹ زیادہ ہوتے۔
پارلیمانی سیاست کا ہمیشہ سے یہ اصول رہا ہے کہ اپوزیشن میں اگر دو بڑے گروپ ہوں تو وہ باہمی مشاورت سے اپوزیشن لیڈر کا فیصلہ کرلیتے ہیں یا پھر دونوں بڑے گروپ چھوٹے گروپوں کی تائید کے حصول کے بعد اپنے پارلیمانی گروپ کی تعداد کے حساب سے سپیکر اور چیئرمین سے رجوع کرتے ہیں۔
نون لیگ پی ڈی ایم کے اجلاس میں نہیں بلکہ پارٹی کے اجلاسوں اور میڈیا میں یہ ضرور کہتی چلی آئی کہ چونکہ ہم بڑی اپوزیشن پارٹی ہیں اور سینیٹ میں پچھلا اپوزیشن لیڈر بھی ہمارا تھا اس لئے یہ منصب ہمیں ملنا چاہیے۔
جواباً پیپلزپارٹی کا موقف تھا کہ پارلیمان روایت کے مطابق ایوان میں اپوزیشن کو متفقہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے یا پھر دونوں بڑے گروپ اکثریت کی حمایت حاصل کرنے کے لئے کوشش کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے یہاں بھی ڈنڈی مار گئی جو بات کبھی پی ڈی ایم میں زیرغور ہی نہیں آئی نون لیگ اور جے یو آئی نے اسے پی ڈی ایم کا فیصلہ بناکر پیش کیا اور فضا بنائی۔
اس فضا میں دھول اڑاتے احسن اقبال نے طنزیہ انداز میں جو جملے کہے اس سے صاف لگتا ہے کہ نون لیگ کو زعم کیا ہے اور اتحادی جماعتوں کی اس کے نزدیک اوقات کیا۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ جب اپوزیشن اتحاد نے کسی بھی مرحلہ پر سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے لئے نون لیگ کے حق میں مشترکہ (متفقہ) فیصلہ ہی نہیں کیا تھا تو اس معاملے میں پھر زرداری کی تقریر والا ڈرامہ کیوں پیلا گیا؟
نون لیگ کے ذمہ داران کو سیاسی جماعت والا رویہ اپنانا ہوگا۔
اتحادوں کی سیاست مفاہمت و تعاون سے آگے بڑھتی ہے طفیلیت سے ہرگز نہیں۔
میرا نہیں خیال کہ موجودہ صورتحال میں پی ڈی ایم نامی اتحاد بکھر سکتا ہے اس کی صاف سیدھی وجہ یہ ہے کہ خود پی ڈی ایم بھی ایک صوبے اور ایک مسلک کی جماعتوں(پنجاب کی نون لیگ اور دیوبندی سیاسی جماعت جے یو آئی ف) کے اتحاد کی بنیاد پر وہ نتائج حاصل نہیں کرسکتا جب تک دیگر سیاسی قوتوں کی اسے تائید حاصل نہ ہو۔
مثال کے طور پر پیپلزپارٹی کے پاس پنجاب کے سرائیکی حصہ سے قومی اسمبلی کی 7اور پنجاب اسمبلی کی 8 نشستیں ہیں۔ کے پی کے میں 4ارکان ہیں۔ نون لیگ کی پنجاب کے علاوہ کے پی کے کی صوبائی اسمبلی میں نمائندگی ہے جبکہ سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیوں میں نمائندگی نہیں۔ آزاد کشمیر میں اس کی حکومت ہے۔ سندھ میں پی پی پی کی گلگت بلتستان میں دونوں جماعتوں کو نمائندگی حاصل ہے۔ اب غور طلب بات یہ ہے کہ نون لیگ کا حامی پنجاب میڈیا اور دانشور نون لیگ کو قومی اور پیپلزپارٹی کو علاقائی جماعت بناکر کیوں پیش کرتے ہیں؟
کیونکہ جس اصول پر پی پی پی سندھ کی جماعت قرار پاتی ہے اسی اصول پر نون لیگ سنٹرل پنجاب کی پارٹی ہے۔ پنجاب کے سرائیکی بولنے والے اضلاع میں سے نون لیگ کے پاس قومی اسمبلی کی 11نشستیں ہیں جبکہ پیپلزپارٹی کے پاس 7، یہاں 4نشستوں کے فرق سے قومی جماعت کا فیصلہ نون لیگ کے حق میں کیسے ہوگا؟
عرض کرنے کا مقصد یہ ے کہ سیاسی اتحاد مساوی بنیادوں پر بنتے ہیں اس میں نون لیگ اور پیپلزپارٹی جتنا سیاسی وزن اتحاد کے فیصلوں کے حوالے سے آفتاب شیرپاو کی جماعت اور انس نورانی کی جماعت کو بھی حاصل ہے حالانکہ دونوں کی پارلیمان میں نمائندگی نہیں ہے۔
حرفِ آخر یہ ہے کہ جمعرات کو پی ڈی ایم نے استعفوں کے بغیر عیدالفطر کے بعد لانگ مارچ کا فیصلہ کیا اور کہا کہ استعفے آخری آپشن کے طور پر استعمال کریں گے۔
یہی بات پیپلزپارٹی کہتی تھی تب سارے ’’اہل زبان‘‘ اسے گالیاں دے رہے تھے کیا اب وہ پی ڈی ایم کی پیپلزپارٹی کے علاوہ ’’کلاس‘‘ لیں گے کہ استعفوں کا معاملہ ’’ٹھس‘‘ کیوں ہوا؟

یہ بھی پڑھیں:

زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید

پی ٹی وی کے قبرستان کا نیا ’’گورکن‘‘ ۔۔۔حیدر جاوید سید

ارشاد تونسوی.سرائیکی وسوں کا چاند غروب ہوا||حیدر جاوید سید

%d bloggers like this: