نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تلخ و شیریں باتیں||حیدر جاوید سید

’’میری آصف علی زرداری سے بات ہوئی ہے اختلافی معاملات مل بیٹھ کر طے کرلیں گے۔ پی ڈی ایم متحد اور ہے اور ہماری جدوجہد جاری رہے گی‘‘۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پی ڈی ایم کی مختلف الخیال جماعتوں خصوصاً جے یو آئی (ف)، پیپلزپارٹی اور نون لیگ کی گالم گلوچ برگیڈز آف سوشل میڈیا سے اظہار تعزیت تو بنتاہے کہ پیپلزپارٹی نے 26مارچ کو مریم نواز کی نیب میں پیشی کے موقع پر یکجہتی کے اظہار کے لئے قافلہ ہمراہ بھیجنے کا اعلان کردیا ہے۔ پی پی پی سنٹرل پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ جیالوں کے قافلے کی قیادت کریں گے۔
ادھر مریم نواز نے کہا ہے کہ
’’میرا بلاول بھٹو سے کوئی اختلاف نہیں پیپلزپارٹی اور نون لیگ دو الگ سیاسی جماعتیں ہیں، ہر جماعت کی اپنی سیاسی حکمت عملی ہوتی ہے اور وہ اس پر عمل کرتی ہے۔ ہم پی ڈی ایم میں مشترکہ نکات پر اکٹھے ہیں اور مل کر جدوجہد کررہے ہیں‘‘۔
اس کے بیچوں بیچ مولانا فضل الرحمن بولے
’’میری آصف علی زرداری سے بات ہوئی ہے اختلافی معاملات مل بیٹھ کر طے کرلیں گے۔ پی ڈی ایم متحد اور ہے اور ہماری جدوجہد جاری رہے گی‘‘۔
آگے بڑھنے سے قبل عرض کردوں کہ سیاسی کارکنوں کے مقابلہ میں سیاسی جماعتوں کے ہمدرد زیادہ جذباتی ہوتے ہیں۔ انہوں نے عملی جدوجہد میں صعوبتیں برداشت نہیں کی ہوتیں۔ بس منہ پھاڑ کے جو مرضی آئے ’’اگل‘‘ دیا۔
پچھلے ہفتہ دس دن پانی پت کی جنگ کا جو سماں بنا رہا اس میں سب سے زیادہ تحسین کے مستحق اے این پی اور بی این پی کے دوست ہیں۔ اے این پی طویل سیاسی جدوجہد اور قربانیوں کی تاریخ رکھتی ہے۔ بدترین حالات میں بھی اس کے پاس سیاسی کارکن موجودہیں۔ سیاسی کارکن ہوتو بولنے سے پہلے سو بار سوچتا ہے اس کے پیش نظر سماجی روابط اوراقدار ہمیشہ رہتے ہیں۔ بی این پی بلوچ قوم پرستوں کی جماعت ہے۔ اس جماعت کے لئے پی ڈی ایم نامی سیاسی اتحاد اس لئے غنیمت ہے کہ وہ اس کے توسط سے ملک گیر سطح پر بلوچوں کا مقدمہ پیش کرسکتی ہے
ورنہ تو ہمارے میڈیا کے زیادہ تر دوست مخصوص اشاروں پر بلوچ ایشوز کو نظرانداز کرتے ہیں جو چند دوست کچھ ذکر کرتے
بھی ہیں وہ بلوچوں کے مسئلہ سے زیادہ اپنی ذات کی خودنمائی و ستائش کو اولیت دیتے ہیں۔
پچھلے چند دنوں سے تواتر کے ساتھ یہ عرض کرتا آرہا ہوں کہ پاکئی داماں کی حکایتیں سنانے والے دامن اور بند قبا کو بھی ایک نظر دیکھ لیں۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ ہم پچھلی صدی کی آخری تین دہائیوں کی سیاست، گالم گلوچ اورآوارہ جملہ بازی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
مجھے حیرانی اس بات پر ہے کہ مولانا فضل الرحمن جیسے جہاندیدہ اور صاحب مطالعہ سیاستدان کی زبان بھی پھسل گئی ان کے ’’پاکباز‘‘ کارکنوں نے وہ اودھم مچایا کہ حافظ سلمان بٹ بھی قبر میں کروٹ لیتے ہوئے بڑبڑارہے تھے
’’اے گل مینوں کیوں یاد نئیں آئی‘‘۔
مکرر عرض کرتا ہوں کہ سیاسی جماعتوں کا وجود ہی نظریاتی اور فہمی اختلاف پر ہوتا ہے۔ مثلاً جے یو آئی (ف)، تحریک جعفریہ اور جمعیت اہلحدیث جے یو پی نہیں بن سکتے اسی طرح پیپلزپارٹی، نون لیگ اور نون لیگ پیپلزپارٹی نہیں بن سکتے۔
ان جماعتوں کے ہمدردوں کو بھی یہ بات بطور خاص ذہن نشین کرلینی چاہیے ۔ پاکستان میں سیاسی، سماجی اور معاشی حوالوں سے جو حالات ہیں وہ تبدیلی کی آنکھ سے نہیں اپنی آنکھ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
چند دنوں کی منہ ماری کے طوفان میں انصافیوں کی حالت پرائی برات میں نوٹ چننے والوں جیسی رہی۔
خیر اب صورتحال کچھ بہتر ہونا شروع ہوئی ہے۔ سو ان حالات میں دستیاب سیاسی جماعتوں کے ذمہ داران سے یہی درخواست کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے اپنے ہمدردوں کی سیاسی تربیت کا اہتمام کریں ہوسکے تو اس سے پہلے اپنی سیاسی تربیت بھی کروالیں تاکہ وہ بھی زبان و کلام میں احتیاط کیا کریں۔
اب چلتے چلتے وزیر داخلہ شیخ رشید کے شگوفوں پر کچھ بات ہوجائے۔ ان حضرت کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ پندرہویں بار وزیر بنے ہیں، بالکل درست ہوگا لیکن یہ بات درست نہیں کہ مسائل کی ذمہ دار پچھلی حکومتیں ہیں۔ شیخ بھی تو ان میں سے بعض حکومتوں کے وزیر باتدبیر رہے۔ کچھ ذمہ داری انہیں بھی قبول کرنی چاہیے۔
ہمارے ملک کی سیاست کا سب سے ’’انوکھا پن‘‘ یہ ہے کہ سیاست کاروں کی اکثریت ہر چار پانچ سال بعد سیاسی ہجرت کرتی ہے یا ایک ٹیلیفون کال پر وفاداری تبدیل کرلیتی ہے پھر باتیں شیخ رشید جیسی اور بڑھکیں آپا فردوس عاشق اعوان جیسی مارتے رہتے ہیں کہ رہے نام خدا کا۔
یہ بھی عرض کردوں کہ حالیہ چند دنوں میں ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالتے ہوئے مجاہدین کو اے این پی کے کارکنوں سے سیکھناچاہیے کہ تحمل، برداشت اور سیاسی فہم و فراست کسے کہتے ہیں۔ یہ بجا ہے کہ اے این پی کا بھی ایک آدھ کارکن جذباتی ہوا لیکن اکثریت نے وہی بات کہی جو ان کی قیادت کہتی رہی۔
حرف آخر یہ ہے کہ اے این پی کے چند سابقین آجکل افراسیاب خٹک کی قیادت میں ان شہروں کا دورہ کررہے ہیں جہاں پشتون خاصی تعداد میں بستے ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ ایک نئی پشتون قوم پرست جماعت بنانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ اصولی طور پر تو ہمارے لائق احترام دوست افراسیاب خٹک، محترمہ بشریٰ گوہر اور دوسروں کو اپنی سیاست اور مستقبل کے حوالے سے فیصلے کرنے میں کامل آزادی ہے البتہ ان کی خدمت میں یہ درخواست ہے کہ وہ دو باتوں سے محفوظ رہیں تو بہتر ہوگا اولاً پشتون قوم پرستوں کی طاقت کو تقسیم کرنے سے اور ثانیاً اس تاثر سے محفوظ رہنے سے کہ جو وہ کرنے جارہے ہیں اس میں مقامی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید

پی ٹی وی کے قبرستان کا نیا ’’گورکن‘‘ ۔۔۔حیدر جاوید سید

ارشاد تونسوی.سرائیکی وسوں کا چاند غروب ہوا||حیدر جاوید سید

About The Author