حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پی ڈی ایم کا گزشتہ دنوں منعقد ہونے والا سربراہی اجلاس خود پی ڈی ایم پر ہی ’’بھاری‘‘ پڑتا دیکھائی دے رہا ہے۔ وہ جو حکومت گرانے بلکہ اس سے پہلے اسٹیبلشمنٹ کو عوام کے سامنے سرنڈر کروانے نکلے تھے اب ایک دوسرے سے بیزار دیکھائی دے رہے ہیں۔
ہمارے کچھ دوست جمہوریت کی محبت میں بلند آواز سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’اللہ آلیہ لڑو نہیں‘‘ لیکن وہ سننے کو تیار ہی نہیں۔
ذرائع ابلاغ کا بڑا حصہ پیپلزپارٹی کو مجرم بناکر پیش کرنے میں مصروف ہے۔ کیا واقعی پیپلزپارٹی مجرم ہے؟
استعفوں کے معاملہ پر اس کا یہ موقف کہ جو بات طے ہی نہیں ہوئی اس پر پروپیگنڈے کا طوفان کس نے اٹھایا غلط کیسے ہے؟
دو دن ادھر ان سطور میں اے پی سی کے اعلامیہ کا ساتواں نکتہ من و عن نقل کرچکا۔ اس میں استعفے آخری آپشن کے طورپر لکھے ہیں۔ پھر یہ لانگ مارچ سے پہلے دینے کا راگ کس نے الاپا اور کیوں ہلکی ہلکی ڈھولک بجانے کی حوصلہ افزائی ہوئی۔
یہ ایک سوال ہے بہت سادہ سا سوال مگر سوشل میڈیا پر ایک بار پھر پچھلی صدی کی آخری دو دہائیوں کی دشنام طرازی کو رزق بنائے مورچہ بندوں کو کون سمجھائے۔
حالت یہ ہے کہ مریم نواز کے لئے سوقیانے جملے تقریر میں استعمال کرنے والے رانا ثناء اللہ کو جس پیپلزپارٹی نے کان سے پکڑ کر باہر نکال پھینکا تھا وہ اب شریف فیملی کے نفس ناطقہ ہیں۔ پارٹی کے اندر اور باہر انہیں نوازشریف اور مریم نواز کی زبان سمجھا جاتا ہے۔
گزشتہ شب انہوں نے جاتی امرا نیوز پر انٹرویو میں جن زریں خیالات کا اظہار کیا اس کے بعد خیر کی توقع بھولپن ہی ہوگا۔
ایک دوست کے سوال پر میں نے عرض کیا’’ استعفوں کےلئے جلد بازی اور پھر دہنوں کی توپیں کھل جانے سے مجھے ایسا لگتا ہے کہ پی ڈی ایم کے اندر سے ایک طبقہ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے مطابق گیم پلان کررہا ہے‘‘۔
یہ اندازہ ہے فتویٰ بالکل نہیں۔
ویسے تو غور طلب بات یہ بھی ہے کہ ایسا اچانک کیا ہوا کہ کل تک جو شیروشکر تھے اب ایک دوسرے پر طنزیہ فقرے اچھال رہے ہیں۔ جاتی امرا نیوز، لیگی رہنما اور ہمدرد اس کی وجہ آصف علی زرداری کی تقریر کو قرار دے رہے ہیں۔ یہ سارے ’’مشوم قائد کامریڈ نوازشریف‘‘ کی تقریر پر ایک لفظ بھی کہنے کو تیار نہیں بلکہ اس تقریر کے ذکر کو خوبصورتی سے گول کرجاتے ہیں۔
صحافت و سیاسیات کے ایک طالب علم کی حیثیت سے فطری اور غیرفطری اتحادوں والے رنڈی رونے پر کچھ عرض کرنا وقت کا ضیاع سمجھتا ہوں۔
معمولی سی فراست رکھنے والا شخص بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ سیاسی جماعتیں مختلف نظریات پر قائم ہوتی ہیں۔ نظریات کا اختلاف نہ ہو تو پھر مختلف الخیال جماعتیں معرض وجود میں ہی کیوں آتیں۔
ایک یا چند نکات پر مشترکہ جدوجہد کرنا سیاسی جماعتوں کا حق ہے۔ ہم اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ مروجہ پاکستانی سیاست میں نظریات سے زیادہ دینی و سیاسی جماعتوں کے مالکان سے وفاداری کو اہمیت حاصل ہے اور وفادار بھی اندھی تقلید جیسی۔ جس میں اپنے مالک کا فرمایا پیغام آسمانی اور دوسروں کی بات ’’سارا جھوٹ‘‘ سمجھتی جاتی ہے۔
یہی بنیادی المیہ ہے۔ میری دانست میں سیاسی اتحاد فطری یا غیرفطری ہرگز نہیں ہوتے۔ ایک یا چند مشترکات پر اتحاد بنتے ہیں۔
خود اس وقت حکمران اتحاد میں کیسے کیسےنگینے شامل ہیں۔ مثال کے طور پر ایم کیو ایم کبھی اس کا نام سن کر عمران خان کا خون کھولنے لگتا تھا۔
وہ ایم کیو ایم کو زندہ لاشوں کی جماعت کہا کرتے تھے۔ مشرف دور میں لندن میں منعقدہ اے پی سی میں انہوں نے ایک قرارداد پیش کی تھی کہ مستقبل میں کوئی سیاسی جماعت ایم کیو ایم سے سیاسی یا حکومتی اتحاد نہ بنائے یہ قرارداد حقارت کے ساتھ مسترد کردی گئی۔
آجکل ایم کیو ایم کے نفیس لوگ حکمران اتحاد میں شامل ہیں۔ یہ ایک مثال ہے۔ اس سے سمجھ لیجئے سیاست میں مستقل دوستی اور دشمنی نہیں پالی جاتی۔
البتہ باہمی احترام سے عاری مخلوق سیاسی عمل پر بوجھ ہوتی ہے۔ اب پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کے بعد سے جوکچھ ہورہا ہے جس طرح کے راگ چھیڑے جارہے ہیں ان پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔
نون لیگ اور پیپلزپارٹی دونوں کو چاہیے کہ میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری کی سربراہی اجلاس والی تقاریر کی ویڈیو پبلک کردیں تاکہ لوگ جان سکیں کہ پورا سچ کیا ہے۔ معاف کیجئے گا جس شخص کا نام رانا ثناء اللہ ہے وہ مجسم جھوٹ اور منافقت ہے اس کی بدزبانیوں اور دروغ گوئی کی الگ تاریخ ہے۔
ایسا لگتاہے کہ جس اسٹیبلشمنٹ کو عوام کے سامنے سرنڈر کروانے پی ڈی ایم والے نکلے تھے وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہی۔ اس کامیابی میں معاونت کس نے کی، الزام تراشی کی بجائے 20ستمبر 2020ء کی آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ پڑھ لیجئے۔
ایک عام شخص بھی اس اعلامیہ کے ترتیب وار لکھے نکات کو پڑھ کر یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ کون کس کی گیم کھیل رہا ہے اور کس نے اسٹیبلشمنٹ کو یقین دہانی کروائی کہ اسمبلیاں خالی کروادیتے ہیں۔ ہمیں بتائیںکہ ہمیں کیا ملے گا؟
فقیر راحموں کا خیال ہے ’’جنگ لگ گئی ہے بس جوتیوں میں دال بٹنا باقی ہے‘‘
مجھے اپنے ہمزاد کی بات سے اتفاق نہیں کیونکہ میرا خیال ہے درمیانی راستہ اب بھی نکالا جاسکتا ہے بس زبان درازوں کو زبانیں منہ میں رکھنے کے لئے کہنا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں:
زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر