اپریل 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سندھ میں بنیادی نظام تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی سعی||طیب بلوچ

سندھ جو قومی منظر نامہ پر گھوسٹ سکولوں کے لیے مشہور تھا آج وہاں پورے پاکستان سے زیادہ بہتر سکولوں کا انفراسٹرکچر موجود ہےاور پرائمری سے لیکر ہائی سکول کی بہتر تعلیم سندھ کے دوردراز اور پسماندہ گوٹھوں میں دی جارہی ہے۔

طیب بلوچ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کے قومی منظرنامہ پہ سندھ کے خلاف اتنا پراپیگنڈہ کیا گیا ہے کہ سندھ کا نام آتے ہی ایک دم پانچ ہزار سال پہلے کی موہن جودوڑو تہزیب میں پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن سندھ سرکار کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے والے سندھو تہذ یب کے ارتقا اور اس کی اس دور کی جدت سے ہی نابلد ہیں۔ پانچ ہزار سال پہلے کے شہر میں نکاسی آب کا نظام آج کے جدید ترین دور میں بھی ممکن نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ دنیا میں سکول کا پہلا تصور بھی اسی تہذیب سے ملتا ہے۔ باالفاظ دیگر دنیا کا پہلا سکول موہن جو دوڑو میں ہی تھا۔ لیکن اس کے باوجود میڈیا میں ہمیں سندھ کے گھوسٹ سکولوں سے متلق متعدد نیوز رپورٹس ملتی ہیں۔ میرا بھی سندھ کے سکولوں سے متلق یہی تصور تھا کہ شاید وہاں سکولوں پر وڈیروں نے اپنے مال مویشی باندھ رکھے ہیں لیکن شمالی سندھ کے سکولوں کا دورہ کرنے کے بعد سندھ کے بنیادی نظام تعلیم سے متعلق میڈیا رپورٹس میں کیے گیے منفی دعووں کی کلی کھل گئی۔

موہن جودوڑو سے کچھ فاصلے پر ضلع لاڑکانہ اور ضلع شہداد کوٹ کے سنگم پرپسماندہ دیہات میں واقع گورنمنٹ ہائی سکول واسو کلہوڑو میں مخلوط نظام تعلیم حقیقت میں لوگوں کو ششدر کردیتا ہے۔ اس سکول کی جدید طرز پر بنائی گئی سٹیٹ آف دی آرٹ بلڈنگ آنکھوں کو خیرہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ وفاقی دارلحکومت میں شاید ہی ایسی کوئی سرکاری سکول کی عمارت ہو جو سندھ کے واسو کلہوڑو ہائی سکول کی ہے۔ ہوا دار کمرے، جدید آلات سے مزین سائینس کی لیبارٹریاں، لایبریری اور کھیل کے میدان، یہ سب کچھ سندھ کے بنیادی نظام تعلیم میں جدت کی عکاس ہیں۔ صرف شہداد کوٹ ہی نہیں بلکہ سندھ میں تقریبا ایک سو چھے سکول ایسے ہیں جہاں جدید طرز کا نہ صرف انفراسٹرکچر تعمیر ہو ا ہے بلکہ معیار تعلیم کو بھی جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

دوہزا دس کے اندوہناک سیلاب میں شمالی سندھ بہت زیادہ متاثر ہوا اور متعدد سکولوں کی عمارتیں سیلابی ریلا اپنے ساتھ بہا کے لے گیا۔ اس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت سندھ اور امریکی امدادی ادارے (یو ایس ایڈ) نے پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے تحت دوہراز گیارہ میں ایک معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے تحت یو ایس ایڈ نے 15 کروڑ 92 لاکھ ڈالر کی خطیر رقم سندھ بنیادی نظام تعلیم (سندھ بیسک ایجوکیشن پروگرام )کے لیے مختص کی جبکہ حکومت سندھ نے اس پروگرام پر عملداری کو یقینی بنانے کے لیے ایک کروڑ دالر کا بجٹ مختص کیا۔ اس پروگرام کے تحت شمالی سندھ کے اضلاع سکھر، لاڑکانہ، شہداد کوٹ، قمبر، میرپور، دادو، جیکب آباد اور کشمور سمیت کراچی کے پانچ ٹاون میں 106 سکول تعمیر کیے جانے تھے جن میں سے 74 سکول سٹیٹ آف دی آرٹ طرز پر تعمیر کیے جاچکے ہیں جبکہ باقی 32 سکولوں کی عمارتیں بھی تعمیر کیے جارہے ہیں بلکہ مزید 14 سکولوں کی تعمیر کے لیے سمری وزیراعلی سندھ کو بھجوائی جاچکی ہے ان میںسے 6 سکول شکارپور اور گھوٹکی میں تعمیر ہونے ہیں۔

ان سکولوں کے بہترین انتطام وانصرام کے لیے سندھ کیمونٹی موبلائیزیشن پروگرام اور ایجوکیشن منیجمنٹ آرگنائیزیشن کی مدد لی گئی جس نے سیلاب سے تباہ شدہ سکولوں کو نہ صرف بحال کیا بلکہ انہیں جدید خطوط پر استوار کیا۔ 15ہزار سے زائد پرائمری سکول کے اساتذہ کو جدید تربیت دینے کے ساتھ ساتھ سندھ کے دس اضلاع میں قائم 460 سکولوں میں تعلیمی سرگرمیوں کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالااور براہ راست 2لاکھ 9 ہزار طلبا جن میں سے 38فیصد لڑکیاں شامل ہیں مستفید ہوئیں۔ سندھ بنیادی نظام تعلیم کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے پروگرام کا دورانیہ اگست 2013 سے اگست 2021 تک کا ہے اور اس کا ٹارگٹ سندھ کے دس اضلاع کے 789 سکول ہیں تاکہ سندھ کے بنیادی نظام تعلیم کو موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جاسکے اور اس سے تین لاکھ طلبا و طالبات براہ راست استفادہحاصل کریں گے۔

اس پروگرام کی کامیابی کا اندازہ اس سے لگالیں کہ سندھ کے سرکاری سکولوں پر والدین کا اعتماد اس حد تک بڑھا کہ اب سکولوں کی گنجائش سے زیادہ طلبا کی تعداد ہےاور سب سے بڑھ کر تعمیر کردہ ایک سو چھے سکول اتنے ہودار اور کھلے ہیں کہ سندھ کی سخت گرمی میں بھی تدریسی نظام متاثر نہیں ہوسکتا ۔ اسلام آباد میں بیٹھا شخص شاید ہی یقین کرے کہ سندھ کے یہ سرکاری سکول وفاقی دارلحکومت میں قائم ماڈل کالجز سے کہیں زیادہ جدید سہولیات سے آراستہ ہیں۔ کیمونٹی موبلائزیشن آرگنائزیشن کے ڈپٹی ڈارئکٹر امجد جمال کا کہنا ہے کہ سندھ بنیادی نظام تعلیم کو عالمی معیار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی گئی اور اس کا سہراحکومت سندھ اور یوایس ایڈ کو جاتا ہے جنہوں نے سندھ کے روایتی تعلیمی نظام کو عالمی معیار کے مطابق استوار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس پروگرام کا بنیادی مقصد سیلاب کی تباہکاریوں کے نتیجے میں تباہ ہونے والے سکولوں کی تعمیر تھی تاہم یو ایس ایڈ سندھ اور بلوچستان کے نمائندے جمیز پیریزنے سندھ کے بنیادی نظام تعلیم کو عالمی معیار کے مطابق ڈھالنے کے لیے ذاتی طور پر متحرک ہوئے اور اس کا دائرہ کار سندھ کے دس اضلاع تک بڑھاتے ہوئے اساتذہ پیشہ وارنہ تربیت پر زور دیا اور ان کی کوشش کی ہی بدولت ماڈرنایئزیشن آف سندھ ایجوکیشن کا خواب پورا ہوا۔

سندھ جو قومی منظر نامہ پر گھوسٹ سکولوں کے لیے مشہور تھا آج وہاں پورے پاکستان سے زیادہ بہتر سکولوں کا انفراسٹرکچر موجود ہےاور پرائمری سے لیکر ہائی سکول کی بہتر تعلیم سندھ کے دوردراز اور پسماندہ گوٹھوں میں دی جارہی ہے۔ ان سکولوں کے دورے کے موقع پر سب سے زیادہ قابل دیدنی سندھ کے سرکاری اساتذہ کی انتھک لگن تھی وہ خوش تھے کہ اب ان کے علاقوں میں بہتریناور جدید تدریسی سہولیات سے مزین سکول موجود ہیں۔ گورنمنٹ ہائی سکول کے پرنسپل نے بتایا کہ سندھ کی عوام اب جدید نطام تعلیم سے بہتر طور پر مستفید ہورہی ہےتاہم ان کا کہنا تھا کہ سکولوں اور اساتذہ پر اضافی بوجھ بھی بڑھ گیاہے کیونکہ گنجائش سے زیادہ تعداد کے لیے سرکاری اساتذہ کم ہیں اس لیے اس پراجیکٹ کے تحت پرھے لکھے نوجوانوں کی اگرچہ خدمات لی گئی ہیں تاہم ان کو محض دس ہزار روپے ماہوار دیے جاتے ہیں جو کہ انتہائی کم ہیں۔ سرکاری اساتذہ کی جانب سے سندھ حکومت سے درخواست کی گئی کہ طلبا کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر سرکاری اساتذہ کی تعداد بھی بڑھائی جائے۔

سندھ بنیادی نظام تعلیم کی کامیابی حکومت سندھ کی کامیابی ہے تاہم یہ پروگرام اس سال اگست میں مکمل ہورہا ہے اس کے بعد حکومت کی زمہ داریاں اور بھی بڑھ جائیں گی۔ متعلقہ کامیابی کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت کو چاہیے کہ اس پروگرام میں مزید توسیع کی جائے لیکن اگر یہ ممکن نہیں تو پھر حکومت سندھ بیسک ایجوکیشن نظام کے لیے خصوصی ٹاسک فورس بنائی جائے جو نہ صرف ان ایک سو چھے سکولوں کا انتظام سنبھالے بلکہ سندھ کے تمام سکولوں کو ان جدید متعارف کرائے گئے خطوط پر استوار کرے۔ سندھ حکومت کو فخر ہونا چاہیے کہ ہزاروں سال پہلے سندھ ہی تھا جس نے دنیا کو سکول کے تصور سے متعارف کرایا تھا۔ اس لیے پوری دنیا کو سکول کا نظام دینے والا قدیم سندھ آج کی اکیسویں صدی میں کیونکر دنیا سے پیچھے رہے۔ ویسے بھی یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا کی بہترین سرمایہ کاری نظام تعلم کو ہی سمجھا جاتا ہے اس لیے حکومت سندھ کی اولین زمہ داری سندھ کا بہتر اور جدید نظام تعلیم ہونا چاہیے۔

 

یہ بھی پڑھیں:

بھٹو روس میں بھی زندہ ہے ۔۔۔ طیب بلوچ

بلاول: جبر و استبداد میں جکڑی عوام کا مسیحا ۔۔۔ طیب بلوچ

سلیکٹرز آصف علی زرداری سے این آر او کیوں چاہتے ہیں؟ ۔۔۔طیب بلوچ

را کے مبینہ دہشتگردوں سے بھارتی جاسوس کی وکالت تک کا سفر ۔۔۔ طیب بلوچ

عالمی استعمار کے چابی والے کھلونے آصف علی زرداری کو کیوں مارنا چاہتے ہیں؟ ۔۔۔ طیب بلوچ

%d bloggers like this: