نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایک بنیادی سوال||حیدر جاوید سید

معاف کیجئے گا ماضی جناب نوازشریف کا بھی اس سے زیادہ ’’روشن‘‘ ہے۔ لیکن اب ہمیں اپنے عصر میں زندہ رہنا سیکھنا چاہیے یہی لازم ہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلے چند دنوں سے تواتر کے ساتھ ان سطور میں یہی عرض کرتا آرہا ہوں کہ پی ڈی ایم کی تشکیل کا بنیادی مقصد حکومتیں بنوانے، گروانے، جھرلو برانڈ انتخابات، نظریہ ضرورت اور آبپارہ حب الوطنی سے نجات حاصل کرنا اور اس امر کو یقینی بنانا تھا کہ ریاست کا ہر ادارہ اور محکمہ دستور میں طے شدہ حدود کی پابندی کرے۔
’’سادہ لفظوں میں یہ کہ سیاست اور امور مملکت میں اسٹیبلشمنٹ کے بڑھتے ہوئے کردار کا خاتمہ‘‘۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ اولین مقصد جس کے لئے پی ڈی ایم بنا تھا حاصل کرلیا گیا ہے؟
ساعت بھر کے لئے رکئے، مورخہ 20ستمبر 2020ء کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والی کل جماعتی کانفرنس (اے پی سی) کا جاری کردہ ایکشن پلان پڑھ لیجئے! ایکشن پلان کا ساتواں نکتہ یہ ہے
’’سلیکٹڈ حکومت کی تبدیلی کے لئے متحدہ حزب اختلاف پارلیمان کے اندر اور باہر تمام جمہوری سیاسی آپشنز استعمال کرے گی جن میں عدم اعتماد کی تحریک اور مناسب وقت پر اسمبلیوں سے استعفوں کا آپشن شامل ہے اس لئے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جواس کے لئے لائحہ عمل کا تعین کرے گی‘‘۔
ایکشن پلان کا یہ ساتواں نکتہ ہمیں سمجھاتا ہے کہ کہیں بھی کسی بھی مرحلہ پر یہ طے نہیں ہوا تھا کہ لانگ مارچ سے قبل اسمبلیوں سے مستعفی ہوجائیں گے۔
سو یہ کہنا بھی درست نہیں کہ ہم نے پیپلزپارٹی سے کہا پہلے مرحلہ پر قومی اسمبلی سے مستعفی ہوتے ہیں پھر مناسب وقت پر صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہوں گے۔
جب کچھ طے ہی نہیں ہوا تھا تو پھر طوفان بدتمیزی برپا کس نے کروایا؟
یہ بھی عرض کردوں کہ نون لیگ یا حضرت مولانا فضل الرحمن کے انقلابی حامیوں پر وحی نازل نہیں ہوتی وہ بھی دستیاب معلومات پر کہانیاں بُن رہے ہیں پھر دوسروں پر اعتراض کیسا۔
مکرر عرض ہے محض عمران خان کی حکومت گرادینے سے کیا اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گی؟
کم از کم میرا جواب نفی میں ہے، ضمنی سوال یہ ہے کہ 2013ء کے عام انتخابات پر بھی اعتراضات تھے، ملتے جلتے اعتراضات تب قائدانقلاب مولانا فضل الرحمن قومی اسمبلی میں وجد بھری تقاریر فرماتے تھے۔
پیپلزپارٹی والے بھی دیگر اپوزیشن جماعتوں(ماسوائے تحریک انصاف کے) کا موقف یہی تھا کہ شکایات و تحفظات موجود ہیں۔ اصلاحات اور قانون سازی ہونی چاہیے۔ دھرنوں اور جلسوں سے حکومت گرانے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔ یاد رہے تب تحریک انصاف ڈی چوک پر دھرنا دیئے ہوئے تھی۔
چلیں بالفرض محال پی ڈی ایم پیپلزپارٹی کو منانے میں کامیاب ہوجاتی ہے، سبھی اسمبلیوں سے مستعفی ہوجاتے ہیں۔ لانگ مارچ شروع ہوجاتا ہے اب بتائیں کسی مرحلہ پر مذاکرات کرنا پڑے تو کس سے ہوں گے، حکومت سے یا اسٹیبلشمنٹ سے؟
حکومت سے مذاکرات کرنا ہیں تو پھر اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی ضرورت کیا تھی۔
اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرنے ہیں تو یہ بتائیں آپ تو اسٹیبلشمنٹ کو سیاست کے کوچےاورحکومتی ایوانوں سے بے دخل کرکے دستوری کردار تک محدود کرنے کا ایجنڈا لے کر میدان میں آئے تھے اب (کسی بھی مرحلہ پر) اسی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات میں خود آپ کی اخلاقی و سیاسی ساکھ کیا ہوگی؟
دوسری اہم بات یہ ہے کہ کیا آپ نے ایکشن پلان کے سات میں سے چھ نکات پر مکمل اور ساتویں پر کسی حد تک عمل کرلیا؟
استعفوں کو آخری آپشن ساتویں نکتہ کے طور پر لکھا گیا ہے اس سے قبل عدم اعتماد کی تحریک اور دوسرے ضروری اقدامات کرلئے گئے؟
یہاں پی ڈی ایم کی قیادت سے ایک سوال ضرور پوچھا جانا چاہیے، جب استعفوں کا آپشن استعمال کرکے لانگ مارچ کرنا تھا تو ضمنی انتخابات میں حصہ کیوں لیا۔ ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ کرکے تو زیادہ موثر نتائج حاصل کئے جاسکتے تھے اس سے اپوزیشن کی تحریک میں مزید جان پڑتی۔
غلط یہ ہوا کہ جو باتیں اجلاس میں ہونا چاہئیں تھیں وہ سربراہی اجلاس سے تین دن قبل ہی تجزیوں، کالموں اور بیانات میں شروع کردی گئیں۔
چلیں یہ مان لیتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کسی سے کہیں کوئی ڈیل کرچکی ہے۔ یہ تو بتادیجئے کہ ضمنی الیکشن میں حصہ لے کر آپ نے اس ڈیل سے وصولی کیوں کی؟
سیاسی اخلاقیات کے جو دروس پیپلزپارٹی کو دیئے جارہے ہیں دیگر اس میں پی ایچ ڈی کرچکے؟
عجیب بات یہ ہے کہ نون لیگ کے حامی صحافی اور دانشور جو کہیں لکھیں اسے الہامی مان لیا جائے اور صرف مان نہ لیا جائے بلکہ اس کی بنیاد پر پیپلزپارٹی کی چھترول شروع کردی جائے۔
جب پی پی پی کے ہمدرد جواب دعویٰ بیان کریں تو درس اخلاقیات شروع۔ ماضی میں رہنا ہے تو بسم اللہ، شروع کیجئے، جی بالکل بھٹو ایوب کے ساتھ تھے ان کے وزیر اور پارٹی کے سیکرٹری جنرل بھی۔ پھر بھٹو مستعفی ہوئے، دوستوں اور دیگر سے مشورے کےبعد پیپلزپارٹی بنائی۔ انہوں نے جدوجہد کی ان کے دور میں لاکھوں افراد کو بیرون ملک ملازمتیں ملیں، پیسہ آیا تو اندر کا مسلمان جاگ پڑا پھر جو ہوا وہ ہماری تاریخ کا سیاہ باب ہے۔
معاف کیجئے گا ماضی جناب نوازشریف کا بھی اس سے زیادہ ’’روشن‘‘ ہے۔ لیکن اب ہمیں اپنے عصر میں زندہ رہنا سیکھنا چاہیے یہی لازم ہے۔
سیاستدان جو آج کہہ رہے ہیں اس پر تجزیہ اٹھائیں، نفع نقصان پر مکالمہ ہوناچاہیے۔ اس بات پر خصوصاً کہ کیا اسٹیبلشمنٹ کو کنیڈے میں کئے بغیر کوئی اقدام عوام کے حق حکمرانی کی بحالی کا سبب بنے گا یا اسٹیبلشمنٹ کو مزید مضبوط بنانے کا۔ یہ بنیادی سوال ہے اس سے نظریں چرانا جرم تصور ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:

زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید

پی ٹی وی کے قبرستان کا نیا ’’گورکن‘‘ ۔۔۔حیدر جاوید سید

ارشاد تونسوی.سرائیکی وسوں کا چاند غروب ہوا||حیدر جاوید سید

About The Author