مئی 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وہ زیدی ہی کیا جو ضدی نہ ہو||مبشرعلی زیدی

بس یہ بتاسکتا ہوں کہ چالیس سال بعد اسی تانگے والے کی طرح سواریاں اٹھاتا ہوں اور کبھی دفتر، کبھی ائیرپورٹ اور کبھی اسٹیشن پہنچاتا ہوں۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بابا نیشنل بینک کے ہیڈ کیشئئر تھے۔ میاں چنوں برانچ میں تعینات تھے۔ انھیں محکمہ اوقاف کے عملے کے ساتھ مختلف مزاروں پر جانا پڑتا تھا۔
محکمہ اوقاف والے چندے کا صندوق کھولتے اور بابا اور ان کے ساتھی کیش گنتے۔
اس موقع پر مزار کے مجاور خوب آؤ بھگت کرتے۔ کھانے لسی اور پھلوں سے تواضع کرتے۔
ایک دو بار بابا مجھے بھی ساتھ لے گئے۔ میرا بچپن تھا۔ اسکول میں داخل نہیں ہوا تھا یا کچی پکی میں پڑھتا ہوں گا۔
وہاں ایک بزرگ نے بابا کے سامنے مجھے غور سے دیکھ کر کہا تھا، بچے! زندگی میں خواہشات سوچ سمجھ کر کرنا، کیونکہ تمھارے ماتھے پر لکھا ہے کہ جو مانگو گے، وہ جلد یا بدیر مل جائے گا۔
اور اس کے دو عشروں بعد، اور آج سے دو دہائیاں پہلے ایکسپریس میں ملازمت کے دوران غلام مجتبیٰ صاحب نے کہا تھا، مبشر! اپنی نظر آسمان پر رکھنا، کیونکہ جتنا اونچا جانا چاہو گے، چلے جاؤ گے۔ جو پانا چاہو گے، حاصل کرلو گے۔
لیکن الفریڈ ہچکاک کی فلم ورٹیگو کے مرکزی کردار کی طرح، جو میرے پسندیدہ ہیرو جمی اسٹیورٹ نے ادا کیا تھا، مجھے بلندی سے خوف آتا ہے۔
کسی بھی طرح کا عروج، بڑا عہدہ، بڑا نام، بڑا گھر، بڑی گاڑی، زیادہ پیسہ چاہا ہی نہیں۔ جو ملا، اس پر شکر کیا۔
بچپن میں بابا کہتے تھے، میرا بیٹا اسکول میں فرسٹ آئے گا، ڈاکٹر بنے گا۔ فرسٹ تو میں آتا تھا لیکن پتا ہے، اس وقت بننا کیا چاہتا تھا؟ ہنسیے گا نہیں۔
خانیوال ان دنوں چھوٹا سا شہر تھا۔ ایک رکشا تک نہیں تھا۔ لوگ پیدل چلتے تھے یا سائیکل سے گزارہ ہوجاتا تھا۔ صرف اسٹیشن جانے کے لیے تانگہ منگوایا جاتا تھا۔
کوچوان جب تانگے کی پٹی پر ایک کولہا ٹکا کر، ہنٹر ہوا میں لہرا کر، ہونٹ سکیڑ کے کخ کخ کی آواز نکالتا تو میں جھوم جاتا۔
وہ زیدی ہی کیا جو ضدی نہ ہو۔ میں نے بچپن میں ضد کی کہ مجھے اپنا تانگہ چاہیے۔ کھلونے والا نہیں، اصلی گھوڑے والا۔ امی نے سمجھایا کہ بڑے ہوکر لے لینا لیکن میں اڑا رہا کہ نہیں، ابھی چاہیے۔ اتنا بڑا تو ہوچکا ہوں۔
آخر امی نے کہا کہ چلو، دادی اماں کے گھر چلتے ہیں۔ ان سے فرمائش کرنا۔
ان کا خیال ہوگا کہ دادی اماں مجھے بہلا پھسلا لیں گی یا ان کے سمجھانے سے سمجھ جاؤں گا۔
لیکن راستے میں غضب یہ ہوا کہ چوک میں ایک تانگہ خالی کھڑا ہوا نظر آگیا۔ میں امی کا ہاتھ چھوڑ کے بھاگا اور کوچوان سے کہا کہ میں یہ تانگہ خریدنا چاہتا ہوں۔ کتنے کا ہے؟ اس نے ہنس کر کہا، ایک ہزار روپے کا۔
اب امی مجھے گھسیٹ رہی تھیں اور میں ضد کررہا تھا کہ گھر چل کر ایک ہزار روپے لائیں تاکہ میں اپنا تانگہ چلا سکوں۔
یاد نہیں کہ امی نے کیسے بہلایا، دادی اماں نے کیا سمجھایا اور میں اس دن کیسے قابو آیا۔
بس یہ بتاسکتا ہوں کہ چالیس سال بعد اسی تانگے والے کی طرح سواریاں اٹھاتا ہوں اور کبھی دفتر، کبھی ائیرپورٹ اور کبھی اسٹیشن پہنچاتا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: