نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پی ڈی ایم کا مستقبل|| آفتاب احمد گورائیہ

پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی تاریخ کو سامنے رکھ جائے تو پیپلزپارٹی کا اسٹیبلشمنٹ سے لڑنے کا پچاس سالہ ریکارڈ موجود ہے جس میں ہر طرح کی قربانی شامل ہے۰ ن لیگ کے بقول اگر پیپلزپارٹی کی ڈیل ہوئی ہے تو پیپلزپارٹی کو فائدہ کیا حاصل ہوا ہے؟

آفتاب احمد گورائیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنرل پرویز مشرف کے خلاف بننے والے اتحاد اے آر ڈی نے جب زور پکڑنا شروع کیا اور عوام کے بڑے بڑے اجتماعات اے آر ڈی کے بینر تلے مشرف آمریت کے خلاف نکلنا شروع ہو گئے اور مشرف حکومت پر دباو بڑھا تو ایک دن اچانک پتہ چلا کہ شریف خاندان نے اس دباو کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنرل مشرف کے ساتھ ڈیل کر لی ہے اور سارا خاندان اپنے ملازموں سمیت جدہ روانہ ہو گیا ہے۰ اس ڈیل کے نتیجے میں نواز شریف کو سپریم کورٹ کی جانب سے سنائی جانے والی عمر قید کی سزا معطل کر دی گئی جبکہ شریف خاندان نے دس سال تک پاکستان نہ آنے اور سیاست میں حصہ نہ لینے کا معاہدہ کیا۰ شریف خاندان کی جانب سے اے آر ڈی کو دئیے جانے والے اس دھوکے کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل مشرف کے خلاف اپوزیشن تحریک دم توڑ گئی اور اس کے بعد جنرل مشرف نے آرام سے آٹھ سال حکومت کی اور اپوزیشن کو دیوار سے لگائے رکھا۰ شریف خاندان کی طرف سے اپوزیشن اتحاد اے آر ڈی کو دئیے جانے والے اس دھوکے پر تبصرہ کرتے ہوئے بزرگ سیاستدان نوابزادہ نصراللہ خان کو کہنا پڑا کہ ساری زندگی میں نے سیاستدانوں سے اتحاد کئے اور کامیاب رہا پہلی دفعہ ایک کاروباری شخص سے اتحاد کیا اور دھوکہ کھایا۰

اپوزیشن کے موجودہ اتحاد پی ڈی ایم کے لئے چیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کافی عرصہ سے کوششیں کر رہے تھے۰ بلاول بھٹو زرداری کی تمام تر کوشش کی باوجود ن لیگ کی طرف سے کوئی خاطر خواہ جواب سامنے نہ آسکا اور شہباز شریف کبھی کرونا اور کبھی مصروفیت کا کہہ کر چیرمین بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات سے احتراز برتتے رہے۰ بالا آخر پچھلے سال ستمبر کے آخر میں پیپلزپارٹی تمام اپوزیشن جماعتوں کو آمادہ کر کے آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرنے میں کامیاب رہی جس کے نتیجے میں پی ڈی ایم کا قیام عمل میں آیا۰ پی ڈی ایم کے قیام کے وقت جاری کئے جانے والے اعلامیے میں پارلیمان کے اندر اور پارلیمان کے باہر مشترکہ جدوجہد کرنے پر اتفاق کیا گیا۰ پی ڈی ایم کی مشترکہ جدوجہد کے سلسلے میں ملک بھر میں جلسے منعقد کیے گئے۰ پی ڈی ایم کی جماعتوں کے تعلقات میں پہلا موڑ اُس وقت آیا جب پی ڈی ایم کی جماعتوں نے ضمنی انتخابات اور سینٹ انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا لیکن پیپلزپارٹی نے اپنے دلائل سے باقی جماعتوں کو قائل کر لیا کہ پی ڈی ایم کو ضمنی انتخابات اور سینٹ انتخابات میں بھرپور طریقے سے حصہ لینا چاہیے اور حکومت کے لئے میدان کھلا نہیں چھوڑنا چاہیے۰ وقت نے ثابت کیا کہ پی ڈی ایم کا فیصلہ بالکل درست تھا کیونکہ پی ڈی ایم نے سارے ملک میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں بے مثال کامیابی حاصل کی۰ اس کے علاوہ قومی اسمبلی سے پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار سید یوسف رضا گیلانی نے سینٹ کی سیٹ جیت کر حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی فضا پیدا کردی جس کے نتیجے میں وزیراعظم کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینا پڑا۰ یہ علیحدہ کہانی ہے کہ اس اعتماد کے ووٹ کے لئے حکومت کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑے۰ اس کے بعد چیرمین سینٹ کے الیکشن میں بھی سید یوسف رضا گیلانی کو ان کے مستند ووٹ مسترد کر کے جس طرح پریزائیڈنگ افیسر کی رولنگ کے ذریعے ٹیلنیکل طریقے سے ہروایا گیا اس سے بھی حکومت بُری طرح ایکسپوز ہوئی۰

پی ڈی ایم کی جماعتوں کے تعلقات میں دوسرا اور اہم موڑ بلکہ خطرناک موڑ پچھلے ہفتے ہونے والے پی ڈی ایم کے اجلاس سے دو دن قبل اُس وقت آیا جب مولانا فضل الرحمن اور ن لیگ نے اچانک اعلان کردیا کہ استعفوں کے بغیر لانگ مارچ نہیں کیا جائے گا۰ پی ڈی ایم کے اجلاس میں بھی پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے رہنماوں کے درمیان استعفوں کے معاملے پر گرما گرم بحث ہوئی۰ پیپلزپارٹی کی جانب سے استعفوں کے معاملے پر ن لیگ اور مولانا فضل الرحمن کے سامنے چند سوال رکھے گئے کہ اگر استعفوں کے بعد بھی حکومت نہ گئی تو پھر کیا آپشن باقی بچے گا؟ یا اگر حکومت ضمنی انتخاب کروا دے تو کیسے روکیں گے؟ ضمنی انتخاب کے بعد دو تہائی اکثریت لے کر حکومت اگر اپنی دیرینہ خواہش کی تکمیل کرتے ہوئے 18ویں ترمیم اور NFC ایوارڈ ختم کردے تو کون ذمہ دار ہو گا؟

سب سے بڑا سوال تو یہ ہی ہے کہ جب لانگ مارچ کا فیصلہ ہو چکا تھا تو اچانک ن لیگ اور مولانا فضل الرحمن کو اسے استعفوں سے مشروط کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی جبکہ پی ڈی ایم کی پچھلی میٹنگ میں استعفوں کے حوالے سے ایسی کوئی بات ہوئی ہی نہیں تھی۰ یہ سب وہ سوالات ہیں جن کے جواب نہ تو ن لیگ اور مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم کے اجلاس میں دے سکے اور نہ اب ان کے پاس ان سوالوں کا جواب موجود ہے۰

استعفوں کے معاملے میں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اگر ن لیگ کی پنجاب میں حکومت ہوتی تو کیا ن لیگ استعفے دیتی؟ پی ڈی ایم کو مولانا کا ماضی بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جب 2007 میں مولانا نے خیبر پختوبخواہ (اس وقت سرحد) اسمبلی کو توڑنے سے انکار کر دیا تھا تاکہ انتخابی کالج مکمل رہے اور جنرل پرویز مشرف کے صدارتی انتخاب میں رکاوٹ پیش نہ آئے اور آخری وقت تک اسمبلی نہ توڑی اور جنرل پرویز مشرف کے صدارتی انتخاب کو ممکن بنایا۰

اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ استعفوں کے بعد حکومت ٹوٹ جاتی ہے تو آگے کیا ہو گا۰ اسی حکومت کی مقرر کردہ نگران حکومت کی زیرنگرانی اور اسی نظام کے تحت نئے الیکشن ہو جاتے ہیں تو کیا گارنٹی ہے کہ دو ہزار اٹھارہ والا سلسلہ دہرایا نہیں جائے گا۰ دوسری طرف اگر اس حکومت کو جمہوری طریقے سے عدم اعتماد کے ذریعے ہٹا کر چھ ماہ کے لئے ایک قومی حکومت تشکیل دے دی جاتی ہے جس کا واحد ایجنڈا انتخابی اصلاحات ہوں اور اس کے بعد انتخابات کی طرف جایا جائے تو کیا یہ بہتر طریقہ نہیں ہو گا۰ یہ سوال بھی پی ڈی ایم کے اجلاس میں ن لیگ اور مولانا کے سامنے رکھا گیا لیکن اس کا کوئی جواب ان کی طرف سے سامنے نہ آ سکا۰ قومی اسمبلی میں ہونے والے سینٹ انتخابات سے اس بات کو تقویت بھی ملتی ہے کہ سپیکر اور وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو سکتی ہے۰

سینٹ کے انتخابات کے دوران پی ڈی ایم پارلیمان میں اپنی برتری ثابت کر چکی ہے۰ حکومت اور وزیراعظم سینٹ انتخابات کے بعد بہت کمزور پوزیشن پر آ کھڑے ہوئے تھے لیکن ن لیگ اور مولانا نے کسی نامعلوم ایجنڈے کے تحت ان تمام کامیابیوں کو سبوتاژ کر کے رکھ دیا ہے۰ آج نہیں تو کل ن لیگ اور مولانا کو اپنی اس حرکت کا جواب دینا پڑے گا۰

ن لیگ اور مولانا فضل الرحمن کی جانب سے پیپلزپارٹی کے استعفوں کے بارے اصولی موقف کو اپنی ضد بنانے کے بعد جس طرح لانگ مارچ کو ملتوی کیا گیا اس سے ن لیگ اور مولانا فضل الرحمن کے ارادوں کے بارے بہت زیادہ شک و شبہ پیدا ہو چکا ہے۰ پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد ن لیگ کی لیڈرشپ، مریم نواز کی زیرنگرانی چلنے والے سوشل میڈیا، ن لیگ کے ہم خیال صحافیوں اور اینکر حضرات کی جانب سے پیپلزپارٹی کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کا پروپیگنڈہ شروع کر دیا گیا ہے۰ سوشل میڈیا پر پیپلزپارٹی کے خلاف وہ غلیظ زبان استعمال کی گئی ہے کہ خدا کی پناہ۰ دو چار دن میں ہی ن لیگ نے اس تاثر کی مکمل طور پر نفی کر دی ہے کہ ن لیگ وقت کے ساتھ ایک میچور سیاسی جماعت بن چکی ہے۰ ن لیگ کی لیڈرشپ اور کارکنوں کی جانب سے استعمال کی جانے والی زبان نے ثابت کیا ہے کہ ن لیگ نے وقت کے ساتھ کچھ بھی نہیں سیکھا اور ن لیگ آج بھی نوے کی دہائی میں ہی کھڑی ہے۰

پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی تاریخ کو سامنے رکھ جائے تو پیپلزپارٹی کا اسٹیبلشمنٹ سے لڑنے کا پچاس سالہ ریکارڈ موجود ہے جس میں ہر طرح کی قربانی شامل ہے۰ ن لیگ کے بقول اگر پیپلزپارٹی کی ڈیل ہوئی ہے تو پیپلزپارٹی کو فائدہ کیا حاصل ہوا ہے؟ گلگت بلتستان کا جیتا ہوا الیکشن پیپلزپارٹی سے چھین لیا گیا، چیرمین سینٹ کا جیتا ہوا الیکشن چھین لیا گیا۰ جبکہ دوسری طرف ن لیگ کی ساری تاریخ اسٹیبلشمنٹ سے ہونے والے سمجھوتوں سے بھری ہوئی ہے۰ پیپلزپارٹی کی قیادت کو دو دفعہ غیر فطری طریقے سے جان سے مار دیا گیا جبکہ نواز شریف کو دو دفعہ سزا یافتہ ہونے کے باوجود جیل سے نکال کر باہر بھیج دیا گیا۰ مریم نواز سزایافتہ ہونے لے باوجود باہر پھر رہی ہے کیا یہ سمجھوتوں کے بغیر ممکن ہے؟ کیا ایسی سہولت کبھی پیپلزپارٹی کو ملی ہے؟

پیپلزپارٹی پر اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کا الزام لگانے والے کیوں بھول جاتے ہیں کہ پہلے شہباز شریف اور چوہدری نثار رات کے اندھیرے میں جی ایچ کیو جاتے رہے، اب یہ رول محمد زبیر بخوبی نبھا رہا ہے۰ مریم نواز کو لندن جانا ہے ان کی چھوٹی سی سرجری ہونی ہے اور شہباز شریف کئ ضمانت ہونی ہے۰ کیا اس سب کی کڑیاں استعفوں کے نام پر لانگ مارچ ملتوی کرنے سے تو نہیں ملتیں؟ استعفوں کی آڑ میں لانگ مارچ کو ملتوی کرکے پی ڈی ایم کی ساری جدوجہد کو خاک میں ملانے والے کس کے ایجنڈے پر ہیں اس کا پتہ چلانا بہت ضروری ہے۰

‏پی ڈی ایم شائد اب بھی قائم رہے لیکن اب وہ پہلے والی بات نہیں ہو گی۰ یہی سچ ہے کیونکہ جس قسم کی گندی زبان پیپلزپارٹی کی قیادت سے لے کر بی بی بختاور اور بی بی آصفہ کے بارے استعمال کی گئی ہے بھلائی نہیں جا سکتی۰ بی بی شہید تک کو نہیں بخشا گیا۰ اتحادوں کی کامیابی کے لئے اتحاد میں شامل جماعتوں کے درمیان جس طرح کا باہمی اعتماد موجود ہونا چاہیے، پی ڈی ایم کی بڑی جماعتوں کے درمیان وہ اعتماد کا رشتہ باقی نہیں رہا۰ پی ڈی ایم کا اتحاد اگر کوئی درمیانی راہ نکالنے کی وجہ سے بچ بھی گیا تو اس کی حیثیت ایک ڈھیلے ڈھالے اتحاد سے زیادہ نہیں ہو گی۰

Twitter: @GorayaAftab

پی ڈی ایم کا ملتان جلسہ ۔۔۔آفتاب احمد گورائیہ

تحریک کا فیصلہ کُن مرحلہ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

About The Author