مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تئیس مارچ 1940کا دن ||محمد عامر خاکوانی

اہم بات ہے کہ اس فیصلے کو اگر چھپن ستاون سے مان لیں تب بھی اسے پینسٹھ برس گزر چکے ہیں۔ یہ تحریر پڑھنے والوں کی بہت بڑی اکثریت کی زندگیوں سے زیادہ طویل عرصہ بیت گیا ہے۔ قرارداد پاکستان کی نشانی مینار پاکستان جیسی حسین یاد کی صورت ہمارے سامنے موجود ہے۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تئیس مارچ انیس سو چالیس کا دن مسلم لیگ کی سیاسی جدوجہد اور تحریک پاکستان کا بہت اہم اور فیصلہ کن اہمیت کا دن تھا۔ اس دن جو قرارداد پیش کی گئی، یہ ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ مسلم لیگ کی جدوجہد نے ایک بہت بڑے عوامی پلیٹ فارم پر ایک واضح اور متعین سمت اختیار کی۔ پاکستان کا مطالبہ یا نعرہ اسی سے پھوٹا اور پھر اسی نے قیام پاکستان کی راہ ہموار کی ۔ اس لئے 23 مارچ 1940 کا دن بہت اہم اور غیر معمولی ہے۔ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
یہ درست ہے کہ اس پہلی قرارداد میں ریاستوں کا لفظ تھا، ظاہر ہے اس وقت کے معروضی حالات میں اس آپشن کی گنجائش رکھی گئی تھی، اصل اہمیت اس مطالبہ کی تھی کہ مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں کو علیحدہ حیثیت دی جائے اور مسلمانوں کو بطور قوم الگ سے حقوق ملیں۔ یہی مطالبہ ہی کانگریس کے پورے فلسفہ اور سیاسی فکر سے اختلاف تھا اور اپنے ارتقائی سفر میں یہ ریاستوں کی جگہ ریاست ہوا اور پھر وجود پاکستان پر اختتام پزیر ہوا۔
قرارداد تیئس کو منظور ہوئی یا چوبیس کو، یہ بات اہم نہیں۔ اہم یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی سب سے بڑی نمائندہ سیاسی جماعت نے اپنا مطالبہ واضح انداز میں سامنے رکھا۔ قرارداد کا منظور ہونا ایک رسمی کارروائی تھا۔ کیا کوئی یہ توقع کرتا تھا کہ اس اجلاس سے یہ قرارداد نامنظور ہوجائے گی ؟
اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ تیئس مارچ کو بطور یوم پاکستان منانے کا فیصلہ کئی سال بعد ہوا۔ ہم نے بہت سے اہم اور بنیادی نوعیت کے فیصلے برسوں تاخیر سے کئے۔ قرارداد مقاصد یا اس طرح کی کوئی کمٹمنٹ ہمیں ابتدائی دنوں میں کر لینی چاہیے تھی، اس میں دو سال لگ گئے۔ آئین پاکستان شروع کے دوڈھائی برسوں میں بن جانا چاہیے تھا، اس میں نو برس لگ گئے۔ اسلامی پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ 1954 کی تحریک ختم نبوت میں ہو جانا چاہیے تھا، وہ لگ بھگ بیس سال بعد ہوا۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ فیصلہ چھپن میں ہوا یا سنتالیس اڑتالیس یا انچاس میں؟
یہ بات کرنے والے صرف اتنا بتا دیں کہ پاکستان کا قومی ترانہ کتنے برسوں بعد آیا؟
کوئی اس سے انکار کر سکتا ہے کہ تیئس مارچ انیس سو چالیس کا دن مسلمانان برصغیر کے لئے اہم اور تاریخی نہیں تھا؟
جب ایسا ہے تو یہ دن منانے کا فیصلہ جب بھی ہوا ، ٹھیک ہوا۔ دیر آئید درست آئید۔
اہم بات ہے کہ اس فیصلے کو اگر چھپن ستاون سے مان لیں تب بھی اسے پینسٹھ برس گزر چکے ہیں۔ یہ تحریر پڑھنے والوں کی بہت بڑی اکثریت کی زندگیوں سے زیادہ طویل عرصہ بیت گیا ہے۔ قرارداد پاکستان کی نشانی مینار پاکستان جیسی حسین یاد کی صورت ہمارے سامنے موجود ہے۔
بھائی لوگو اب اس پر بحث کر کے کیا نیا نکال لینا ہے؟
یارو قوموں کو چند بنیادی چیزوں پر اکٹھا کیا جاتا ہے، کچھ ایسے سنگ میل ہوتے ہیں جنہیں بنیاد بنا کر کچھ مشترک چیزیں تشکیل دی جاتی ہیں۔ ہر جگہ کم وبیش ایسے ہی ہوتا ہے۔ دنیا ایسے ہی چلتی ہے۔ جب کچھ بن جائے تو پھر اسے چلایا جاتا ہے، جوڑا جاتا ہے، تقسیم اور انتشار کی کیفیت نہیں پیدا کی جاتی۔ یہ عقلمندی نہیں ۔
مجھے ان محقیقن کی سمجھ نہیں آتی جن کی تمام تر تحقیق اور عرق ریزی کا مقصود متفقہ قومی مسلمات کو چھیڑنا، ان پر ضرب لگانا ہے۔ کسی کو یہ غم ستائے جا رہا ہے کہ ہم چودہ اگست کو جشن آزادی کیوں مناتے ہیں، پندرہ کو منایا کریں، آخر کیوں؟ ہم چودہ کو مناتے ہیں تو بھیا آپ کو کاہے کی تکلیف ہے ؟ انڈیا والے پندرہ کو مناتے ہیں، ہم نے ان سے مختلف کرنے کے لئے چودہ کر لیا تو کون سی قیامت آ گئی ؟
کوئی بزرجمہر اٹھتا ہے اور دعویٰ داغ دیتا ہے کہ قومی ترانہ سے پہلے ایک ہندو شاعر نے قومی ترانہ بنایا تھا جو ریڈیو پاکستان پر بھی چلتا رہا۔ یہ دعویٰ بے بنیاد ثابت ہوا، اس ہندو شاعر کی قائداعظم سے ملاقات ہی ثابت نہیں، ریڈیو کے ریکارڈ سے ایک بار بھی وہ نام نہاد قومی ترانہ چلایا جانا ثابت نہیں ہوا۔
عید قرباں آتی ہے تو یہ بحث شروع ہوجاتی ہے کہ قربانی نہیں کرنی چاہیے، یہ پیسے غریبوں کو دے دئیے جائیں، مزے کی بات ہے کہ ایسی پوسٹیں لاکھ
ڈیڑھ لاکھ روپے کے آئی فون سے کی جاتی ہیں۔ جنہیں غریبوں کا غم ستاتا ہے، وہ اس پوسٹ کے بعد سال بھر کے لئے نیپال جا کرلمبی نیند سو جاتے ہیں اور پھر اگلے چودہ اگست، تیئس مارچ یا پھر اگلی عید الضحیٰ کو جاگتے ہیں۔
بھائی لوگو مشکل سے چند ایک باتوں پر قوم متفق ہے، اسے چلنے دو، کچھ نہیں ہوتا۔ بحث مباحثوں اور نت نئی نکتہ سنجیوں کے لئے بہت کچھ نیا مواد مل جائے گا۔ ہر روز نیا شوشا موجود ہوتا ہے، اس پر مشق سخن کریں، قومی دنوں اور تہواروں کو تو بخش دیں۔
وضاحتی پس نوشت: ہمارے بہاولپور کے سینئر لکھاری اور قابل احترام شخصیت نے بھی تیئس مارچ پر پوسٹیں کی ہیں، مگر ہماری اس تحریر کا اشارہ ان کی طرف قطعی نہیں ہے، اس کے اور بہت سے اہداف پہلے سے موجود ہیں۔ براہ کرم تیر کو اپنے نشانے پر جانے دیا جائے، اس کا رخ موڑ کر ہمارے استادوں کی طرف نہ کیا جائے۔

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

%d bloggers like this: