نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سیاست جذبات سے نہیں حکمت عملی سے ہوتی ہے||حیدر جاوید سید

پی ڈی ایم کی جماعتوں کے حامیوں کو بھی چاہیے دوسروں کی بُکل میں چور چور کہنے کی بجائے اپنی بُکل میں بھی دیکھ لیجئے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیاست بند گلی میں نہیں ہوتی، کھلے میدان میں ہوتی ہے، سیاسی جماعت حکمت عملی وضع کرتے وقت نفع نقصان سامنے رکھ کر بحث مباحثہ کرتی ہے اور پھر فیصلہ کیونکہ اسے معلوم ہوتاہے احتجاجی تحریک کا ڈول پسپائی کے لئے نہیں پیش قدمی اور منزل پر پہنچنے کے لئے ڈالا جاتا ہے۔
چند ماہ قبل جب پارلیمان سے مستعفی ہونے کی بات ہوئی تھی تب پیپلزپارٹی کی سنٹرل کمیٹی نے استعفوں پر عدم اعتماد کی تحریک لانے کو درست عمل قرار دیا تھا۔
پی ڈی ایم کا اصولی فیصلہ یہ تھا کہ اتحاد میں شامل جماعتیں استعفوں کا آپشن آخری وقت میں استعمال کریں گی یہی پیپلزپارٹی کہتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے منگل کو ہونے والے سربراہی اجلاس کے حوالے سے میڈیا کے ذریعے یہ فضا کس نے بنوائی کہ منگل کے اجلاس میں استعفوں کا فیصلہ ہوجائے گا؟
جس کسی نے میڈیا کے ذریعے فضا بنائی یا یوں کہہ لیجئے بنوائی وہ پی ڈی ایم کا ہمدرد نہیں بلکہ دشمن ہے۔ سیاسی جدوجہد کی تاریخ کے حوالے سے کوئی ایک مثال بتادیجئے کہ پارلیمان سے مستعفی پہلے ہوئے ہوں اور تحریک بعد میں چلائی گئی ہو؟
یہاں ساعت بھر کے لئے سانس لیجئے۔ سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی شکایات کس سے ہیں عمران حکومت سے یا اسٹیبلشمنٹ سے؟ ظاہر ہے پی ڈی ایم کا موقف ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے 2018ء میں جھرلو پھیرااور تحریک انصاف کو سنگل لارجسٹ پارٹی بنوایا پھر اتحادی اسے پلیٹ میں رکھ کر پیش کئے اور حکومت سازی کروائی۔
آزاد ارکان کو ان کے اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں اور ڈی پی اوز نے جہانگیر ترین کے ہوائی جہاز میں سوار کروایا۔
کیا یہ کام پہلی بار ہوا تھا؟
نہیں نا پہلے بھی ہوتا رہا اسی لئے معلوم تھا کہ سارا کیا دھرا اسٹیبلشمنٹ کا ہے۔ تو پھر لڑائی، احتجاج، تحریک اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہوئی۔
ایسے میں صرف عمران خان کی حکومت گراکرزیادہ سے زیادہ کیا حاصل کیا جاسکتا ہے؟
اسٹیبلشمنٹ مزید طاقتور ہوگی وہ تین سال کے لئے ٹیکنو کریٹ حکومت کا بندوبست کرے گی۔ نظریہ ضرورت کے تحت اس انتظام کو تحفظ مل جائے گا۔ یہ تحفظ کب نہیں ملا کوئی ایک موقع بتادیجئے؟ زیادہ دور نہ جایئے ظفر علی شاہ کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھ لیجئے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جس سے لڑائی ہے یا یوں کہہ لیجئے جس کی طاقت کو کمزور کرنا مقصود ہے عمران خان کی حکومت گرنے سے اس کی طاقت میں کوئی کمی آئے گی۔ کیا وہ اس پوزیشن میں لائے جاچکے ہوں گے کہ وہ (پی ڈی ایم) سے مذاکرات کریں محفوظ راستہ طلب کریں اور آپ اپنی شرائط منوالیں؟
ٹھنڈے دل سے اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
سیاسی عمل کی جزئیات پر غوروفکر کی بجائے آپ اپنے خون میں موجود پیپلزپارٹی سے نفرت کے اظہار پر تلے ہیں تو بسم اللہ لگے رہیں۔
یہاں خورشید ندیم جیسے دانشور ساری عمر اسٹیبلشمنٹ کی دینی و سیاسی فہم کی تبلیغ کرتے رہے، حرام ہے کبھی انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی تخلیقات کے کجوں پر بات کی ہو۔
بہت ادب سے کہوں یہ جو منگل کی شام سے پیپلزپارٹی کو کوسنے دے رہے ہیں یہ درحقیقت اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ سول سپر میسی کا صرف کاندھا استعمال کررہے ہیں۔ بات سمجھنے والی یہ ہے کہ آخری بات پہلے یا آخری سے پہلے نہیں ہوتی۔ لانگ مارچ سے قبل استعفوں کی ضد کیوں؟
اگر یہ وار خالی گیا اور ٹیکنو کریٹ والا انتظام گلے پڑگیا، نظریہ ضرورت اور اسٹیبلشمنٹ، خالہ زادگی نبھانے لگے تو آپ کیا کریں گے؟
کوئی متبادل آپشن ہے۔ تحریک کا انجام کیا ہوگا۔ کسی نے اس پر غور کیا ہے۔
رہی الزام تراشی تو میں بھی کہہ دیتا ہوں
مولانا فضل الرحمن اسٹیبلشمنٹ کے ایک حلقے کے کہنے پر ایسے حالات پیدا کروانا چاہتے ہیں جس سے باجوہ مخالف رجیم کا کام آسان ہوجائے۔ یہ بھی کہا لکھا جاسکتا ہے کہ نون لیگ سودے بازی کے لئے مضبوط پوزیشن چاہتی ہے اسی لئے استعفوں کا پتہ کھیلنے پر بضد ہے۔
معاف کیجئے گا دونوں باتیں نہ صرف غلط ہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ سے لڑتی پی ڈی ایم کی طاقت کو کمزور کرنے کی سازشوں میں حصہ ڈالنے کے مترادف بھی۔
بنیادی بات یہ ہے کہ آپ سیاسی تحریک اورعوام کی طاقت سے ہی طاقت کے اصل مرکز میں بیٹھے ہووں کو باہر نکل کر خلق خدا کی بات سننے اور مذاکرات پر مجبور کرسکتے ہیں۔
مسئلہ عمران خان کی حکومت گرانے کا بالکل نہیں، حکومتیں گرانے، جھرلو چلانے اور حکومتیں بنوانے والوں کو دستور میں طے شدہ حدود میں رکھنے کا ہے۔
اگر تو مسئلہ حقیقت میں یہی ہے تو پھر جذباتی انداز میں نہیں بردباری اور دانش مندی سے حکمت عملی وضع کیجئے کہ کیسے اسٹیبلشمنٹ عوام کی طاقت کے سامنے سرنڈر کرے گی۔
کسی حکمت عملی کے بغیر ہوئے جذباتی فیصلے گلے بھی پڑسکتے ہیں۔
پی ڈی ایم کی جماعتوں کے حامیوں کو بھی چاہیے دوسروں کی بُکل میں چور چور کہنے کی بجائے اپنی بُکل میں بھی دیکھ لیجئے۔
جمہوریت اور صرف جمہوریت حرفِ آخر ہے۔
مکرر عرض کرتا ہوں (تکرار کی معذرت) اشرافیہ کی جمہوریت سے اس جمہوریت کے لئے راستہ نکل سکتا ہے جو اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی اور مداخلت سے محفوظ ہو لیکن اگر کسی جذباتی فیصلے سے اسٹیبلشمنٹ مزید طاقتور ہوئی تو کوئی ٹوڈی حکومت گلے پڑسکتی ہے یا ٹیکنوکریٹ۔
اورپھرا ن سے نجات کی جدوجہد، اس سے بہتر نہیں کہ ایک ہی بار جدوجہد کرلی جائے تاکہ ہمیشہ کیلئے جان چھوٹے؟

یہ بھی پڑھیں:

زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید

پی ٹی وی کے قبرستان کا نیا ’’گورکن‘‘ ۔۔۔حیدر جاوید سید

ارشاد تونسوی.سرائیکی وسوں کا چاند غروب ہوا||حیدر جاوید سید

About The Author