اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیجیٹل دور میں اردو ادب کا المیہ||عفت حسن رضوی

جون ایلیا بھی دنیا سے جلد ہی رخصت ہوگئے ورنہ آج انہیں بھی مشورے دیے جاتے کہ جانی! تمہارے شعر میں ناف پیالے کا ذکر آیا ہے کیوں نہ اک نیم قابل اعتراض تصویر بھی ساتھ ٹانک دی جائے، سچ میں بہت کمنٹس اور لائیکس آئیں گے۔

عفت حسن رضوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

غالب نے دلی کی گلیوں سے گزرتے ہوئے اپنے کہے شعر کا وزن تو شاید ہی کبھی سوچا ہو گا مگر یقیناً یہ نہیں سوچا ہو گا کہ فیس بک پہ اس شعر کے ساتھ پازیب پہنے حسینہ کا سفید ٹخنہ کافی رہے گا یا شعر کی مناسبت سے کسی دلربا کی وہ تصویر، جو زلفوں کی پیچھے سے جھانک رہی ہو۔

سوشل میڈیا کے آنے سے دیگر زبانوں کے ادب کو یقیناً کچھ نئے تجربات کا سامنا ہو گا، اردو ادب کو بھی ہے۔ اردو شاعری ڈیجیٹل دور میں انوکھے تجربات سہہ رہی ہے، جیسا کہ بے تُکے، بے وزن، لایعنی فقروں کا میل شعر بن گیا اور اس شعر کے ساتھ لگی کسی انجان دوشیزہ کی مکمل و سالم تصویر یا پھر ان کے بال، کان، ہاتھ، ناخن یا پاؤں کی تصاویر۔ شاعری کی ویڈیوز میں خاتون کی ڈوبتی آواز اور ڈرامائی انداز وغیرہ۔

‘ میں سوچنے لگا ہوں مجھے مار دیجیے ‘ جیسے کلام کے خالق احمد فرہاد نوجوان شاعر ہیں۔ ادبی مشاعروں کے ساتھ سوشل میڈیا پر بھی بے حد مقبول ہیں۔

احمد فرہاد سے اس انوکھی اردو شاعری کا پوچھا تو پھٹ پڑے، کہنے لگے ”سوشل میڈیا ایسے ادیبوں سے بھرا پڑا ہے، جنہوں نے کسی مشہور شاعر کے شعر کا چربہ خود لکھا یا کسی سے لکھوا لیا، الٹے سیدھے دو مصرعے سوشل میڈیا پر لگائے اور منٹوں میں ہزاروں لائیکس ملنے لگے،کمنٹس میں لال دل آنے لگے اور دھڑا دھڑ شئیر ہونے لگے۔ جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس بنا کر، پیسوں کے عوض سوشل میڈیا آڈینس خرید کر اب وہ غالب ِ دوراں ہیں ۔‘‘

احمد فرہاد نے پھر ایک دفعہ کا ذکر سنایا کہ جب ان کے مداح نے ایک معروف نوجوان شاعرہ کا نام لے کر پوچھا ‘آپ ۔۔۔۔ کو تو جانتے ہوں گے ؟‘ انہوں نے پوچھا کہ محترمہ کرتی کیا ہیں؟ تو جواب ملا ‘ساٹھ ہزار فالورز ہیں، کمال کے شعر کہتی ہیں‘۔

یہ بیچارے تجسس میں محترمہ کے فیس بک پیج جا نکلے۔

‘’رب کا شکر ادا کر بھائی، جس نے ہماری گائے بنائی۔ عفت یقین کریں محترمہ کی شاعری کچھ ایسی ہی تھی۔ لوگوں کو نہیں پتا کہ کاشف حسین غائر، اکبر معصوم، صائمہ زیدی، لیاقت علی عاصم، احمد نوید، اختر عثمان، اختر رضا سلیمی کون ہیں مگر انہیں یہ پتا ہے کہ فلاں نوجوان شاعرہ کس شہر کی ہیں ۔‘‘

احمد فرہاد مجھےجس فراق و وصال کی شاعرہ کا حوالہ دے رہے تھے میں پہلے ہی ان کی ٹائم لائن پہ اردو شعر و ادب کا بہیمانہ قتل دیکھ کر قائل ہوگئی تھی کہ واقعی عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے:اسی نوے والی سیاست دوبارہ نہیں دیکھنی||عفت حسن رضوی

ہماری گفتگو کے آخر میں احمد فرہاد نے یہ کہہ کر اپنا ادبی قد مزید بلند کر لیا کہ ”نئی نسل افتخار عارف سے زیادہ مجھے جانتی ہے، یہ ہے سوشل میڈیا کے دور میں اردو ادب کا المیہ ۔‘

‘میں بھی کافر تو بھی کافر ‘ یہ نظم مزاحمت اور محبت کے شاعر سلمان حیدر کی پہچان ہے۔ سلمان اپنی فیس بک پوسٹس کے ذریعے ایسے ویسے شعروں،شاعروں اور تصویروں سے اظہار ِ بیزاری فرماتے نظر آتے ہیں۔ غضب کے بذلہ سنج ہیں، ایک پوسٹ میں لکھتے ہیں :

”میری کتاب ‘حاشیے پر لکھی نظمیں ‘کچھ ہی عرصے میں شائع ہو جائے گی۔ آپ یہ خرید چکیں گے تو میں پھر آپ کے پیچھے پڑ جاوں گا کہ اسے پڑھیں پھر بھی باز نہیں آوں گا اور آپ سے کہوں گا کہ اس کے بارے میں اپنی رائے ایک خوبصورت لڑکی کی تصویر کے ساتھ فیس بک پر لگائیں۔ لڑکی کی تصویر اس لیے ضروری ہے کہ آپ کی جو رائے میری نظموں کے بارے میں ہو گی زیادہ امکان ہے کہ لوگوں کی وہی رائے آپ کی رائے کے بارے میں ہو گی۔ اردو میں اسےمکافات عمل کہتے ہیں۔‘‘

سو سلمان حیدر سے تو اس ڈھب کے ادب کا پوچھنا بہت ضروری تھا، ان کا جواب ملا ، ”سوشل میڈیا کی بدولت نئے ادیبوں خصوصاً چھوٹے شہروں سے لکھنے والوں کی رسائی بڑھی مگر معیار پر بھی فرق پڑا۔ اب شاعری پہ پبلک ڈیمانڈ کا اثر زیادہ ہے، شعر کے ساتھ تصویر کا استعمال، شاعری کی آسان زبان اور عوامی مضامین کا انتخاب کیا جا رہا ہے۔ لکھی ہوئی کے مقابلے میں ویڈیو شاعری مقبول ہو رہی ہیں۔ مشاعرے یوٹیوب پر آ جاتے ہیں جبکہ کورونا کے بعد تو آن لائن مشاعروں اور تنقید کی نشستوں کا آغاز ہوا ہے، جس میں دنیا بھر کے ادیب اکھٹے ہو جاتے ہیں۔‘‘

سلمان حیدر نئے دور کی اردو شاعری سے مایوس نہیں، کہنے لگے ”اسی ہجوم سے اچھے شعراء نکلیں گے۔ نوے کی دہائی میں شعر کہنے والے بھی شاعری میں اب ڈیجیٹل تڑکے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اب علی زریون رش لیتے ہیں کیونکہ لڑکے لڑکیاں اس ڈکشن سےزیادہ مانوس ہیں، جو نئے لکھنے والے لے کر چل رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کا مقبول شاعر تھوڑے عرصے میں بدل رہا ہے، ایسی وقتی مقبولیت کے لیے لکھنے والے بہت زیادہ ہیں لیکن اچھا لکھنے والوں دیر تک کھیلنے والوں کی تعداد کم نہیں۔‘‘

یہی کوئی بیس برس قبل ایک زمانہ تھا کہ وصی شاہ کی شاعری لڑکیوں کی ہاتھوں رکھے پھول سے مہکا کرتی تھی۔ ان کی نظم ‘ ترے حسین ہاتھ کا کنگن ‘ اردو شاعری میں نئی روایت کی بنیاد تھی۔ وصی شاہ سے ان کے ایک شعر کے حوالے سے بات شروع ہوئی اور ہوتی چلی گئی ۔ شعر تھا:

یہ مہمان نوازی ہے یا اور ہے کچھ

میرے لیے وہ چائے بناکر لائی ہے

یہ شعر سن کر وصی شاہ ہنستے ہوئے کہنے لگے ”یہ اس وقت کا شعر ہے، جب میں سترہ اٹھارہ برس کا تھا، اس وقت انداز اور تھا۔ ہم نے عام بول چال والی زبان میں شعر کہے جو کہ پوری معنویت رکھتے ہیں۔ آسان اشعار تو میر، غالب، ناصر کاظمی، احمد مشتاق کے یہاں بھی ملتے ہیں، جیسے ناصر کاظمی کا شعر:

نئے کپڑے بدل کر جاوں کہاں اور بال بناوں کس کے لیے

وصی شاہ سے ڈیجیٹل دور میں اردو شاعری کی گرتی صحت پر بات ہوئی، کہنے لگے ”لوگ شعر کہتے ہیں کہتے رہیں لیکن جب کسی مشاعرے کی انتظامیہ شاعر چنتی ہے تو وہ معیار مقرر کرتی ہے۔ عوامی پذیرائی بمقابلہ ادبی معیار، یہ بحث تو ہمیشہ سے رہی ہے آئندہ بھی رہے گی مگر یہ طے ہے کہ کمزور شعر وقتی طور پر اپنے حصے کی داد تو وصول کر لیتا ہے مگر تادیر وہی رہے گا جومعیاری ہو گا۔‘‘

اسے پہلے کہ تحریر مزید پھیلے اور آپ کی دلچسپی کھونے لگے میں کہتی ہوں منٹوں سیکنڈوں میں دھیان اور دل کا محور بدل دینے والے اس ڈیجیٹل دور میں ادب کو جاری رکھنا اپنے آپ ایک کارنامہ ہے پھر چاہے طریقہ کار ادب کی بے ادبی ہی کیوں نہ ہو۔ اچھی شاعری ، اچھے ادب کے متلاشی آپ بڑے جوہری ہیں، وہ خود ہی نمٹ لیں گے۔

 

یہ بھی پڑھیے:

دے دھرنا۔۔۔عفت حسن رضوی

کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی

ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی

ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی

خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی

فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی

%d bloggers like this: