مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مریم نواز / نواز شریف کی سیاست||محمد شعیب عادل

پی ڈی ایم نے کیسے سیاست کرنی ہے یہ طے کرنا اس میں شامل سیاسی جماعتوں کا کام ہے نہ کہ مسلم لیگ نواز کے تنخواہ دار صحافیوں کا جسے ہمارے دوست منشی صحافی بھی کہتے ہیں۔

محمد شعیب عادل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی چھ ماہ پہلے اپوزیشن جماعتوں کا ایک اتحاد پی ڈیم ایم کے نام سے بنا ، جس میں چار بڑی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز ، جمعیت علما اسلام اور اے این پی ہیں۔ اس اتحاد کا مقصد عمران خان کی حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے ۔ظاہر ہے مخالف قوتوں کی طرف سے اس کے خلاف پراپیگنڈہ بھی ہوگا، ۔ اختلافات بھی پیدا کیے جائیں گے یا ان اختلافات کو اچھالا بھی جائے گا اور ایسا ہوا بھی۔
عمران حکومت سے چھٹکارا کیسے حاصل کرنا ہے اب اس کے لیے ہر جماعت کی اپنی حکمت عملی ہے۔ اور پھر ہر جماعت کا سیاست کرنے کا طریقہ بھی مختلف ہے ، ضروری نہیں کہ جیسے مسلم لیگ نواز سیاست کرتی ہے ویسی سیاست پیپلز پارٹی بھی کرے۔ سیاسی اتحاد بنانے کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ جماعتوں کے قائدین آپس میں بیٹھ کر مشترکہ حکمت عملی کا فیصلہ کریں اور اگر اختلافات بہت زیادہ ہوں تو پھر علیحدہ ہوجانا چاہیے۔ لیکن ابھی تک کی پی ڈی ایم کی کارگردگی شاندار رہی ہے کیونکہ چھ ماہ پہلے کی عمران حکومت اب اتحاد کی وجہ سے بہت کمزور ہوئی، اسے ضمنی انتخابات میں شکست ہوئی اور سینٹ کے الیکشن میں بھی شکست ہوئی۔
یاد رہے کہ مسلم لیگ نواز پہلے دن سے استعفوں پر زور ڈال رہی ہے جبکہ پیپلز پارٹی اسمبلیوں میں رہتے ہوئے تبدیلی کی کوشش کررہی ہے اور پھر وقت نے بتایا بھی کہ اسمبلیوں میں رہ کر جدوجہد کرنے کی حکمت عملی کامیاب رہی۔ اگر نواز شریف کے کہنے پر چھ ماہ پہلے استعفے دے دیے جاتے تو پھر ضمنی انتخاب ہوتے یا سینٹ کے الیکشن۔ ان میں حکومتی پارٹیوں نے ہی جیتنا تھا اور اکثریت کے بل بوتے پر اپنی من مرضی کی قانون سازی کرلینی تھی جس میں سب سے زیادہ اہم اٹھارویں ترمیم ہے جو فوج کے گلے میں ہڈی بنی ہوئی ہے۔
چند دن پہلے پی ڈی ایم کی ایک میٹنگ جاری تھی تو یک دم نیوز چینلزاور سوشل میڈیا پر آصف زرداری کے خلاف پراپیگنڈہ شروع ہوگیا اور کہا گیا کہ وہ ایسٹیبشلمنٹ کا ایجنٹ ہےوغیرہ وغیرہ ۔ظاہر ہے یہ سب کچھ مریم نواز اور مریم اورنگزیب کی مشترکہ کاروائی تھی۔ کیونکہ میٹنگ میں نواز شریف نے جو تجاویز پیش کیں وہ آصف زرداری نے مسترد کر دیں۔ جس پر مریم اینڈ کمپنی اشتعال میں آئیں اور باہر منشی صحافیوں کو میسج بھیجنے شروع کردیے۔ نیوز چینلوں پر ٹکر چلنے شروع ہوگئے اور سوشل میڈیا میں گالم گلوچ۔
میں نے پہلے ہی یہ کہا ہے کہ نوا زشریف یا مریم نواز کا سیاست بارے کوئی ویثرن نہیں ہے۔ان کی سیاست کا دارومدار ان کے تنخواہ دار صحافیوں کی تجاویز پر ہوتا ہے ۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ اگر سیاسی جدوجہد پر اختلافات ہیں تو اس پر مل بیٹھ کر غور کیا جائے نہ کہ تنخواہ دار صحافیوں کے ذریعے اپنی سیاست کو آگے بڑھایا جائے۔ پی ڈی ایم نے کیسے سیاست کرنی ہے یہ طے کرنا اس میں شامل سیاسی جماعتوں کا کام ہے نہ کہ مسلم لیگ نواز کے تنخواہ دار صحافیوں کا جسے ہمارے دوست منشی صحافی بھی کہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے:

%d bloggers like this: