ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
.
خود کو بہت روکا کہ اس بارے میں کچھ نہ لکھوں مگر بات برداشت سے باہر ہو گئی ہے۔ ”کھانا خود گرم کر لو“ ایک نعرہ تھا، مگر نعرہ یونہی نہیں ہوتا اس کے پس پشت عوامل بھی ہوتے ہیں، واقعات بھی، ردعمل بھی چاہے منطقی ہو یا غیر منطقی۔ جیسے 8 مارچ کے عورتوں کے جلوس میں ایک دوسرا نعرہ تھا، ”میرا جسم میری مرضی“ جو درحقیقت ”میرا بدن میری مرضی“ تھا۔ اس کے دو مطلب لیے جا سکتے ہیں، پہلا یہ کہ میرے بدن کو میری مرضی کے بغیر مت برتو، دوسرا یہ کہ میری مرضی میں اپنے بدن کو جسے چاہوں استعمال کرنے دوں یا نہ کرنے دوں۔
کھانا خود گرم کر لو کے مقابلے میں میں نے اس نعرے کو اس لیے چنا کیونکہ پہلا نعرہ ان ملکوں میں اب نہیں رہا جہاں سے نسائیت یا فیمینزم کی تحاریک اٹھی تھیں یعنی یورپ اور امریکہ میں۔ مگر دوسرا نعرہ اپنی گفتگو میں آج بھی اس خطے کی عورتیں بیشتر اوقات استعمال کر لیتی ہیں جس کا مطلب ہوتا ہی دوسرا ہے۔ مثال کے طور پر جب کوئی بوائے فرینڈ اپنی سہیلی کو کسی اور سے تعلق بنانے سے روکے تو وہ یہی فقرہ بولے گی کہ ”میرا بدن میری مرضی“ تم کون ہوتے ہو میرے بدن پر تصرف کرنے والے۔
اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہم فی الحال آپس میں محض شریک بدن ہیں شریک حیات نہیں۔ شریک حیات بننے کے بعد معاملہ قدرے بدل جاتا ہے یعنی خاتون یا تو اپنے بدن کو اپنی مرضی سے استعمال کرنے سے گریز کرتی ہے اور اگر کرتی بھی ہے تو شور نہیں مچاتی، دعوٰی نہیں کرتی کیونکہ دنیا کی بیئشتر عورتوں کو اپنا بستا ہوا گھر برقرار رکھنے کی خواہش آج بھی ہے، ویسے ہی جیسے بیشتر مردوں کو۔ یہ اور بات کہ کچھ ایسے حالات پیدا ہو جائیں جب اپنا اپنا راستہ لیے بن چارہ باقی نہ رہے۔
ان نعروں بارے بات کرنا کہ آیا نعرہ درست ہے یا غلط، مناسب ہے یا نامناسب، قابل تعریف ہے یا قابل مذمت، میرا مسئلہ نہیں ہے۔ میرا مسئلہ ہے تو محض اپنے ملک کی ہر طرح سے پسماندگی تاحتٰی نعروں کے ضمن میں۔ ممکن ہے ملبوسات کے فیشن بھی ہمارے ہاں اگر دنیا بھر کے بعد نہیں تو مغرب کے بعد ہی آتے ہوں کیونکہ ان ملکوں میں خواتین شلوار قمیص، غرارہ شرارہ، ایک رات کی خاطر، پانچ دس لاکھ روپوں کا لہنگا نہیں پہنتیں بلکہ مناسب قیمت کے سکرٹ، پتلون، بلاؤز پہنتی ہیں۔ میں خواتین کی اکثریت کی بات کر رہا ہوں۔ متمول خواتین تو اپنی مخصوص محافل میں بہت قیمتی اور خاص طور پر تیار کردہ پیراہن بھی زیب تن کرتی ہیں۔
ہمارے ہاں فیمینزم کا اس زور شور سے اور جارح انداز میں تذکرہ دنیا میں فیمینزم کی لہر کی پانچویں اٹھان کے تمام ہونے کے بعد 1980 کی دہائی میں پوسٹ فیمینزم کی رو جاری ہونے سے بھی بہت بعد آج کل کیا جانے لگا ہے۔ 1980 کی دہائی میں تب ہمارے ملک کی ایک ممتاز فیمنسٹ خاتون ادیب محترمہ کشور ناہید نے معروف وجودیت پسند فرانسیسی ادیبہ سمون دی بوا کی شہرہ آفاق کتاب ”سیکنڈ سیکس“ کا ترجمہ و تلخیص کر کے اس رویے کو متعارف کروایا تھا۔ تین سال پہلے انہوں نے ہی ایک معاصر اخبار میں نسائیت نوازی کے دوسرے پیرایوں کا ذکر کیا ہے جو ہمارے ہاں محض سستے نعرے لگانے والوں کی آنکھیں کھول سکتے ہیں۔
جب کوئی اصطلاح وضع ہوتی ہے تو وہ کسی ایک مسئلے کو اجاگر کرنے کی خاطر بھی ہو سکتی ہے اور متنوع مسائل کو بیک وقت سامنے لانے کا ذریعہ بھی۔ 1837 میں جب فرانسیسی فلسفی اور خیالی اشتمالیت پسند شارل فوغیے نے ”فیمینزم“ کی اصطلاح وضع کی تھی تب ان کے نزدیک عورت کے استحصال کے ساتھ ساتھ مرد کی عورت پر بالادستی کی مخالفت کرنا بھی شامل تھا۔
پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ امریکہ کی فیمنسٹ خواتین نے مردوں کی نام نہاد مردانگی کو چیلنج کرنے کی خاطر ”مس امیریکہ موومنٹ“ کے نام سے 1960 کے اوئل میں اپنی انگیاؤں کو سر عام نذر آتش کر کے یا بہت سی اور عورتوں نے انگیاؤں کا استعمال ترک کر کے احتجاج کیا تھا کہ ہم سے جنسی بنیاد پر امتیاز برتا جاتا ہے۔ اس واقعے کے بعد کم از کم امریکہ میں اور بعد میں یورپ میں بھی فیمنسٹ خواتین کا زور عورت کے حقوق کی نسبت مرد کے مدمقابل کھڑا ہو جانے کا زیادہ ہو گیا تھا یعنی مخاصمانہ۔ بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ ہمیں بچے پیدا کرنے کے علاوہ مرد کی کسی اور کام میں کوئی ضرورت نہیں۔
دنیا میں جو معاملات طے ہو چکے ہیں وہ ہمارے ہاں ابھی تک طے طلب ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں نعرے بھی فرسودہ اور قدیم لگائے جاتے ہیں۔ نعرے اپنے ملک کے سماجی حالات کے مطابق ہوں تو جلد مقبول ہوتے ہیں اور اگر سماجی رویوں سے ہم آہنگ نہ ہوں تو نہ صرف ہدف تنقید بنتے ہیں بلکہ ان کی شدید مخالفت بھی کی جانے لگتی ہے۔
اس حقیقت سے نظریں چرانا حماقت ہوگا کہ ہمارے ملک میں مذہب اہم ترین عوامل میں سے ایک ہے۔ بحث یہ نہیں کہ قرآن نے مرد کو قوام ٹھہرایا ہے، بحث یہ بھی نہیں کہ ہمارے ہاں عورت مرد نواز ہے، وہ باپ، بھائی، شوہر، بیٹے کی خدمت کیے جانے کی عادی کیوں ہے۔ بحث یہ ہے کہ کیا ہمارے ہاں کنبہ جاتی طرز زندگی بدلنے والا ہے یا ٹوٹ چکا ہے؟ یہ بدلے گا بھی، بدل بھی رہا ہے اور جب اسے ٹوٹنا ہوگا تو کوئی اسے جوڑ کے رکھنے کے قابل نہیں ہوگا۔
تاہم ابھی تک ٹوٹا نہیں ہے، رخنے پڑے ہیں اور یہ نعروں کی شکل میں کراہیں انہیں رخنوں سے بلند ہو رہی ہیں۔ کوئی اس بات کے بھی حق یا مخالفت میں نہیں کہ کنبے کا نظام ٹوٹنا چاہیے یا اسے زبردستی برقرار رکھا جائے۔ بات اتنی ضرور ہے چونکہ دنیا میں جاری مہنگائی اور صارفین کا معاشرہ بن جانے کے سبب گھر میں دونوں جنس کے لوگوں کو محنت کرنی پڑتی ہے، چاہیے اس کی نوعیت ذہنی ہو یا جسمانی، تکان سبھوں کو ہوتی ہے، کم یا زیادہ چنانچہ ایسے میں نہ صرف یہ توقع رکھنا کہ عورت چونکہ عورت ہے، ماں، بیوی، بہن یا بیٹی ہے، اسے ہر حالت میں مرد کے لیے تمام کام کرنے چاہیں بلکہ انہیں ایسا کرنے پر مجبور بھی کیا جائے بلکہ تشدد برتا جائے، یہ نہ تو انسانی ہے نہ مردانہ روی اور نہ ہی کسی بھی مذہب کے اصولوں کے مطابق۔ اس لیے یہ غلط ہے اور اس کی مذمت کی جائے، اسے بدلنے کے جتن کیے جائیں اور جتنی جلدی ممکن ہو بدلا بھی جائے۔ اس سب کے لیے نعرے تبدیل کرنے ہوں گے ۔ ایسے نعرے لگانے سے احتراز برتنا ہوگا جو مدمقابل کو ٹھن جانے کی جانب راغب کر دیں۔
مذہب پرست معاشرے عموماً عورت مخالف ہوتے ہیں۔ مغرب میں چرچ آج بھی، ”خداوند اپنے بیٹوں سے کہتا ہے“ بولا جاتا ہے، بیٹیوں کا ذکر ہی نہیں۔ مگر وہاں بیٹے اور بیٹیاں دونوں ”خداوند“ کے کہے کو عقل سے آنکنے لگے ہیں، جانتے ہیں کہ ان کے مذہبی ضوابط کس عہد میں وضع ہوئے تھے۔ اس میں گفتگو کا پیرایہ کیا تھا۔ آج کے ارضی حقائق کیا ہیں، کیا پادری کی کہی بات کا اطلاق چرچ سے باہر بھی کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ یوں وہاں کلیسا ریاست اور معاشرے سے علیحدہ ہو چکا ہے۔ اسلامی معاشروں میں اس کے برعکس ہے۔ یہاں کلیسا کی جگہ نام نہاد مذہبی زعماء نے لے لی ہے جو جسے چاہیں زندیق گردان دیں چنانچہ یہاں ان سے نمٹنے کی خاطر جارحیت کے ساتھ ساتھ عملیت پسندی بھی اپنانا ہوگی۔
پھر فیمینزم کوئی نظریہ نہیں ہے ایک رو ہے جو چلتی ہے۔ اس کا اثر ہوتا ہے۔ کبھی پارلیمان ان کی تجاویز پر قوانین بنا لیتی ہیں کبھی نہیں اور کچھ عرصے کے بعد لہر ماند پڑ جاتی ہے۔ ایسا ہمارے ہاں بھی ہوگا۔ یورپ میں بھی ایسے ہی ہوا تھا۔ بہت برزور، دبنگ، ناطق فیمنسٹ خواتین نے ادھیڑ عمر میں پہنچ کر کے انہیں مردوں سے بیاہ کر لیے تھے جن کی وہ مخالف رہی تھیں اور ایک آدھ بچہ پیدا کر کے زندگی معمول کے مطابق گزارنے لگی تھیں۔
روس میں فیمنزم کی تحریک اس طرح تو کبھی فیشن کی شکل میں نہیں آئی جیسے یورپ اور امریکہ میں رہی، ابھری ماند پڑی مگر سوویت یونین پہلا ملک تھا جس نے عورت کو ووٹ کے حق کے علاوہ سب سے پہلے مرد سے طلاق کا حق بھی دیا تھا۔ اس نعرے کی بازگشت کے بعد جب میں نے اپنی روسی اہلیہ کو نعرہ ”کھاناخود گرم کر لو“ کا ترجمہ کر کے سنایا تو وہ بے اختیار ہنس پڑی کہ یہ کیا بات ہوئی؟ یہاں کی اس آزاد عورت کو کیا پتہ کہ ہمارے ہاں رات دو بجے بھی مہمان آ جائیں تو عورتوں کو کچی نیند سے بیدار کر کے نہ صرف کھانا گرم کرنے بلکہ پھلکے ڈالنے اور پیش کرنے کو بھی کہا جاتا ہے۔ میں کھانا تب گرم کرتا ہوں جب خاتون گرمیوں میں کنٹری ہاؤس میں ہوتی ہے یا وہ کسی اور وجہ سے موجود نہ ہو۔ عام طور پر وہ کھانا گرم کر کے دینے کو ترجیح دیتی ہے کیونکہ مرد کام سنوارتے نہیں بگاڑتے ہیں۔
تو بہنو اور بیٹیو یہ کھانا گرم کرنے کا مسئلہ پاکستان کی چند فیصد ورکنگ خواتین کا زیادہ ہے باقی خواتین کے کہیں گمبھیر مسائل ہیں، بار بار حاملہ ہونے سے لے کر سینیٹری پیڈز سے محروم ہونے تک۔ غربت کا عذاب سہنے والے شوہر کے ہاتھوں پٹنے سے لے کر بیمار بچے کے داو دارو کا بندوبست نہ ہونے تک۔ اس لیے اپنی نگاہ کو وسیع و عریض کیجیے۔ معاشرے کو مناسب و متناسب کیے بن کھانے گرم کروائے جاتے رہیں گے، یقین کیجیے۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر