اپریل 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

22ویں گریڈ کے دانشور||حیدر جاوید سید

ڈرتے ڈرتے کتاب کے اوراق پھرولنا شروع کئے کہ خدا جانے ’’رانے‘‘ نے ہمیں کس گریڈ کا دانشور لکھا کہا۔ ڈیڑھ گھنٹے میں کتاب پڑھ ڈالی شکر ہے کہ سجدہ سہو اور شکر دونوں کی نوبت نہیں آئی لاکھ لاکھ شکر کہ ’’رانے‘‘ نے ہمیں دانشوروں کی فہرست میں شامل نہیں کیا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈرتے ڈرتے کتاب کے اوراق پھرولنا شروع کئے کہ خدا جانے ’’رانے‘‘ نے ہمیں کس گریڈ کا دانشور لکھا کہا۔ ڈیڑھ گھنٹے میں کتاب پڑھ ڈالی شکر ہے کہ سجدہ سہو اور شکر دونوں کی نوبت نہیں آئی لاکھ لاکھ شکر کہ ’’رانے‘‘ نے ہمیں دانشوروں کی فہرست میں شامل نہیں کیا۔
اب پتہ نہیں مروت برتی یا وسیبی ہونے پر شک کا فائدہ دے کر بری کیا۔
22ویں گریڈ کے دانشور‘‘ رانا تنویر عالمگیر کی تازہ تصنیف ہے میرے ایک عدد برادرِ عزیز اور دو قابل احترام دوستوں کی بھی اس نے ’’واٹ‘‘ لگائی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو زیادہ بہتر تھا لیکن ’’رانا‘‘ کہیں کا بھی ہو ہوتا مست الست ہے جو منہ میں آئے کہہ ڈالا۔
رانا تنویر عالمگیر سے چند برس ادھر تعارف ہوا پھر وہ حلقہ احباب میں شامل ہوئے۔ ایک دن اپنے محبوب (اب سابق ) دانشور کی بھد اڑائے جانے پر خفا ہوئے اور خفا ہی ہوگئے۔
اس سے قبل دو کتابیں انہوں نے خالص جذبہ شہادت سے سرشارہوکر لکھیں۔ پھر پتلی گلی سے بچ کر نکل گئے۔ ممکن ہے کسی نے انہیں بتادیا ہو کہ شہید ہونے کے لیے مرنا بھی پڑتا ہے اس پر رانے نے سوچا ہو کہ ابھی ہم نے دنیا میں دیکھا ہی کیا ہے۔
دو تین سال ادھر ہم رانا کے گائوں میں اس کے مہمان تھے۔ دو دن خوب محفل جمی اس کے سوالات تھے اور ہمارے جوابات۔ وقت رخصت اس نے ہم سے شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے حوالے سے ایک سوال کیا۔ ہم نے سادگی سے جواب عرض کردیا۔ چند ماہ بعد اس نے وہ جواب اپنی فیس بک وال پر لکھ ڈالا۔ منہاج القرآن والے دوست شاکی ہوئے۔ عرض کیا اب ہم یہ نہیں کہیں گے کہ جواب ہمارا نہیں اس نے بلاوجہ ہمیں گھسیٹ لیا البتہ یہ ضرور ہے کہ کچھ باتیں سننے سمجھنے کے لئے ہوتی ہیں۔ تحریر کرنے یا روایت کے لئے نہیں۔
اس ایک بات کے علاوہ ہمیں ’’رانے‘‘ سے دو تین اختلاف اس کی تازہ تصنیف پڑھ کر ہوئے۔ خیر صاحب کتاب اور لکھاری کو میں اور آپ پابند نہیں کرسکتے کہ یہ لکھو اور یہ نہ لکھو۔
’’22ویں گریڈ کے دانشور‘‘ نامی کتاب اصل میں فیس بکی دانشوروں کی کہانیاں ہیں۔ تنویر عالمگیر نے اس دانشوروں اور دانشورات کو غور سے اور قریب سے دیکھا ہے۔ مختلف الخیال دانشور و دانشورات کے چسکے دار قصے ہیں۔ کچھ پر ذاتی غصے کا گمان ہوتا ہے اور کچھ پر ذاتی رنج کا۔ غصہ اور رنج دونوں زندگی کے رنگ ہیں یہاں کون دعویٰ کرسکتا ہے کہ وہ غصے اور رنج سے محفوظ زندگی بسر کررہا ہے۔
فیس بک ہو یا ٹیوٹر یہ عجیب دنیائیں ہیں۔ سچ اور اصل تلاش کرنا مشقت والا کام ہے۔ تنویر نے مشقت کی اور بہت کچھ تلاش کرلایا۔ مصنوعی دانش، ٹھرک پن، دلربا فریب، دھندے، دوسرے کی محنت سے لکھی تحریر پر ہاتھ صاف کرنے والے ماہرین و ماہرات اور سچے جعلی دکھی جہان کے۔
سوشل میڈیا پر ہم ایک دوسرے کو لکھے لفظوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کوششوں میں اونچ نیچ بھی ہوجاتی ہے۔ یہ ایک وسیع دنیا ہے۔ اصل وہی ہے جن سے آپ ذاتی زندگی میں شناسا ہوں ورنہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ڈاکٹر رفیق کے پیچھے حمید بجلی والا نکلے اور کبھی راضیہ کے پیچھے اللہ بخش۔
اچھا یہاں سب چلتا ہے۔ مستقل ڈیرے اور تعلق تو ذاتی زندگی میں ہوتے ہیں۔ ہمارے بہت سارے دوست سوشل میڈیا پر بھی لکھنو کی وضع داری پالے رہتے ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ اصل شناخت کے ساتھ موجود ہیں اور چند عزیزواقارب بھی فرینڈز میں موجود ہیں۔
سب سے نیک کام چودھری اسلم نے کیا فیس بک اکائونٹ بنایا، چن چن کر رشتہ دار اور گلی محلے والے بلاک کئے اور پھر خوب اودھم مچایا۔ پھنسے اس دن جب ان کی زوجہ نے جعلی آئی ڈی سے فرینڈز کی لسٹ میں جگہ بنائی جس پر چودھری چند دن ہی فیس بک پر جئے ویسے اب وہ عام زندگی میں اچھی طرح جی رہے ہیں۔
تنویر عالمگیر کی کتاب ہے پڑھنے کی چیز اس میں فیس بک کے سکرین شارٹ ماہرین سے آئو ان باکس ان باکس کھیلیں والوں تک کا ذکر ہے اور ان فیس بکی دائیوں کا بھی جو دوسرے کی فیس بک وال کے راستے کچن تک دیکھنے کی خصوصی صلاحیت کے مالک ہیں۔
تنویر نے لوگوں کو گریڈ اپنی مرضی سے زیادہ تجربے کی بناپر دیئے ہیں۔ کتاب کا پیش لفظ امریکہ سدھارے ہوئے سید مبشر علی زیدی نے تحریر کیا ہے۔
زیدی صاحب خود خاص قسم کے دانشور ہیں، اپنی عام زندگی کی طرح تنویر نے کتاب میں بھی لگی لپٹی رکھنے کی زحمت نہیں کی۔
مکرر عرض ہے اگر چند ذاتی رنجشوں اور ناپسندیدگیوں کا ذکر نہ ہوتا تو اچھا تھا۔
بہرطور اس کے باوجود 192 صفحات کی یہ کتاب پڑھتے ہوئے بوریت نہیں ہوتی۔ فقیر راحموں کا دعویٰ ہے کہ یہ کتاب فروخت ہوجائے گی۔
عرض کیا کیوں؟
کہنے لگے وہ سارے دانشور اور دانشورات خریدیں گے جن کا کتاب میں ذکر ہے تاکہ جان سکیں کہ انہیں کس گریڈ میں رکھا گیا ہے۔ یہ تنویر عالمگیر کی تیسری کتاب ہے یقیناً مزید لکھے گا اور کچھ عرصہ بعد ایک نئی کتاب پڑھنے کو ملے گی۔
ایک مشورہ مفت ہے وہ یہ کہ مطالعہ ترک نہ کرے ورنہ پیچھے رہ جائے گا دنیا آگے نکل جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں:

زندگی، نفس، حقِ دوستی ۔۔۔حیدر جاوید سید

پی ٹی وی کے قبرستان کا نیا ’’گورکن‘‘ ۔۔۔حیدر جاوید سید

ارشاد تونسوی.سرائیکی وسوں کا چاند غروب ہوا||حیدر جاوید سید

%d bloggers like this: