اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کافکا اور فینن کی تحریروں سے محبت کرنے والے بلوچ طلبہ سے ملاقات||گُہرام اسلم بلوچ

بلوچ نوجوان کہتے ہیں کہ ہم یونیورسٹی میں نصاب کے علاوہ تاریخ، ادب، سیاست اور ملکی و بین الاقوامی سیاسی صورتحال پہ بھی گہری نظر رکھتے ہوئے اُنکا بھی مطالعہ کیا کرتے ہیں

گُہرام اسلم بلوچ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ جامعہ کراچی کا برسوں سے چلتا ہوا اکیڈمک روایت ہے کہ ہر سال کے مارچ کے مہینے میں سالانہ کتب میلہ کا انعقاد کیا کرتا ہے ،طویل خاموشی اور نول کرونا وبا کے بعد جامعہ کراچی کا پہلا سالانہ اجتماع اور رنگا رنگ ادبی ماحول سجا رکھا ہوا ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال میں بھی کتب میلے کی میزبانی ( اسلامی جمعیت طلبا) تنظیم کر رہی ہے ۔ کتب میلہ کا ایک مخصوص جگہ ( یونیورسٹی جمینزم) حال ہے جس کے اطراف آپ کو اسلامی تعلیمات کے خطاب سُننے کو بھی ملتے ہیں مگر اندر تمام ، ادبی، سیاسی، تاریخی اسلامی اور نصاب کے پببلشرز کی بک اسٹالز نظر آتے ہیں جہاں ہر قسم کی کتاب ، فلسفہ ،سیاست، ادب، اسلام، تاریخ اور دیگر موضوعات پر کتابیں خصوصی ریاعت پہ دستیاب ہوتے ہیں۔

طلبا اور طالبات کا رش ہے ہر اسٹوڈنٹس آپکو سر جکا کر کتابوں کی ورک پلٹ کرتا ہوا نظر آئے گی ، کچھ کتابی کیڑا ، شوقین اپنی پسندیدہ موضوعات پر کتابیں تلاش کرتا ہوا بے چین نظر آتا ہے اور کچھ ہماری طرح پبلشرز کو پرانی سلام دعا کی غرض سے آہستہ آہستہ چلقدمی کرتے ہوئے جاننے والوں سے گپ شپ میں محو مصروف ہوجاتے ہیں۔ نظم و نسق سے لگی بک اسٹالز کی خطاریں اور انکی تنک راستہ۔

چلتے چلتے قدم کراچی یونیورسٹی کے طلبا کی جانب سے بلوچستان سے متعلق لگائے گئے بک اسٹال پہ رک گئے کہ جہاں ہر داخل ہونے والے اسٹوڈنٹس کو اپنی رویتی اور مہمان نوازی کی انداز سے ویلکم کیا جارہا تھا کوئی نہ چاہتے ہوئے بھی انکی مسکراہٹ اور خوش اخلاقی سے متاثر ہوکر کچھ نا کچھ ضرور لے لیتا۔

اس تمام صورتحال کی تمہید یوں بھاندتے ہیں کہ یہاں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بلوچ طلبا کن موضوعات پر زیادہ ذوق رکھتے ہیں تو اس مختصر دورے پر یہ علم ہوا کہ بلوچ طلبا بھی ادب، تاریخ ، فلسفہ اور سنگمڈپرائڈ ، اوشو ، کافکا، فینن ، سارتر، منٹو جیسے دیگر کے تحریروں سے بے پنا محبت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ہر بلوچ طلبا کے ہاتھ میں ضرور ترقی پسند ادب اور فلسفہ سے متعلق کتابوں کا ایک پلاسٹک تھا۔ تو یوں جامعہ کراچی میں زیر تعلیم بلوچ طلبا سے بلوچستان میں کتب بینی کے حوالے سے گفتگو ہوئی تو یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ ہماری نوجوان نسل سیاست، ادب، فلسفہ اور دیگر سماجی علوم سے نا صرف گہری دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ انکا مؤضوع ِ سخن ہے۔

ایک نوجوان قارئین اور پبلشر کے مطابق ہر سال کراچی یونیورسٹی میں منعقدہ تین روزہ کتب میلہ میں بلوچ طلبا کے زیراہتمام لگائے گئے بک اسٹالزمیں ، بلوچی، براہوئی، انگلیش اور اردو کے مختلف موضوعات پہ صرف ہمارے پبلشر کے تقریبا تیس سے چالیس ہزار کا سیل ہوجاتا ہے۔

بلوچ نوجوان کہتے ہیں کہ ہم یونیورسٹی میں نصاب کے علاوہ تاریخ، ادب، سیاست اور ملکی و بین الاقوامی سیاسی صورتحال پہ بھی گہری نظر رکھتے ہوئے اُنکا بھی مطالعہ کیا کرتے ہیں ،جامعہ کراچی میں بلوچ طلبا و طالبات یہاں کے ( انرولڈ) اسٹوڈنٹس کے حساب سے تو بہت ہی کم تعدادا میں ہیں مگر پھر بھی وہ یہاں پابندی کیساتھ ہفتہ وار ( بک ریویو) اور دیگر ادبی و فکری نشستوں کا انعقاد کیا کرتے ہیں ۔ ادب اور سیاست ملک بھر میں زیر تعلیم بلوچ طلبا و طالبات کا پسندیدہ موضوع ہیں وہ کہتے ہیں کہ کتاب کا مطالعہ ایسا ہے کہ جیسے ہم مصنف سے مخاطب ہوکر انکے محسوسات میں شامل ہوجاتے ہیں اور ایک دوسرے سے مکالمہ کیا کررہے ہوتے ہیں۔

جب ہم بالغ ہوکر سکول کا رک کیا کرتے ہیں تو ہمارے والدین اور بزرگ ہمیں سختی سے تلقین کرتے ہیں کہ نصاب کے علاوہ بھی ایک دنیا ہے اُس دنیا اور اُس دنیا میں بسنے والوں سے بے خبر رہنا ایسا ہے جیسا آپ اپنے ہمسایے سے بے خبر ہیں، لہذا اب کتب بینی اور مطالعہ ہمارے شعور میں بھٹا دیا گیاہے ، مطالعہ کے بغیر ہم ایسا محسوس کرتے ہیں کہ ہم اپنی ذمہداریوں سے غفلت برت رہے ہیں۔ جو لوگ کتاب کو اپنا ساتھی سمجھتے ہیں اُنکے اندر فطری طور پر انکساری و عاجزی پیدا ہوجاتا ہے ، انکی باتوں اور گفتگو اور مجالس کے لوگ شہدائی ہوتے ہیں ۔وہ اپنے عہد کے نوجوان نسل کو نئے خیالات دیتا ہے انہیں سوچنے پر آمادہ کرتا ہے۔ سکول اور کالج سے، ( کافکا، سارتر، سقراط،فرائڈ، فینن، دوستوویسکی، منٹو، سطِ حسن ، فیض، جالب،قرۃ العین حیدر، فہمیدہ ریاض، شاہ محمد مری و دیگر کے افکار کو پڑھنے والی اس نسل کی سیاسی و سماجی رہنمائی کی جائے تو کتاب سے محبت کرنے والی یہ نسل اپنی قوم کو ایک کامیاب منزل تک پہنچانے میں ایک رہنما کا کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس پر اعتماد اور باصلاحیت نوجوان کو مزید پالش کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ اس نسل سے مایوس نہیں ہونا چایئے ۔

یہ بھی پڑھیں:

چچا سام اور سامراج۔۔۔ اشفاق نمیر

جمہوریت کو آزاد کرو۔۔۔ اشفاق نمیر

طعنہ عورت کو کیوں دیا جاتا ہے۔۔۔ اشفاق نمیر

مائیں دواؤں سے کہاں ٹھیک ہوتی ہیں۔۔۔ اشفاق نمیر

بچوں کے جنسی استحصال میں خاموشی جرم۔۔۔ اشفاق نمیر

 

%d bloggers like this: