ستمبر 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آسٹریلیا کی پاکستان میں سرمایہ کاری کی خواہش||سارہ شمشاد

بہتر ہوگا کہ جہانگیر ترین اور خواجہ جلال الدین رومی پر مشتمل ایک زرعی کمیٹی تشکیل دی جو غیرملکی سرمایہ کاروں کو سرماری کاری کے لئے قائل کرے یہی وقت کی اولین ضرورت ہے۔
سارہ شمشاد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آسٹریلوی ہائی کمشنر مسٹر جیفری کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کا ری کرنے کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آسٹریلیااور پاکستان کے پاس دوطرفہ تجارت اور جوائنٹ وینجر کی گنجائش موجود ہے۔ آسٹریلیا پاکستان کو خوشحال دیکھنا چاہتا ہے۔ جیفری نے جلال الدین رومی سے ملاقات میں کہا کہ ملتان کے لوگ مہمان نواز ہیں، پاکستان کے آم دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ آسٹریلوی ہائی کمشنر کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری کے خواہاں ہونے کا اعلان خوش آئند ہے جس کے بعد حکومت پر لازم ہے کہ وطن عزیز میں سرمایہ کاری حاصل کرنے کے اس سنہری منصوبے کو کسی طور ضائع نہ ہونے دے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پہلے بھی کئی ممالک نے وطن عزیز میں پوٹینشل دیکھ کر سرمایہ کاری کرنے کی نیک خواہش کا اظہار کیا لیکن کسی نے ان سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ ادھر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ چند روز قبل آسٹریلوی ہائی کمشنر نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین سے ملاقات کی اور ان سے آسٹریلیا میں زرعی ترقی کے لئے مدد اور تعاون کی اپیل کی جو اس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ جہانگیر ترین زراعت کو جس جدید انداز میں ڈھال رہے ہیں وہ دوسروں کے لئے مشعل راہ بنتا جارہا ہے۔ ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے کہ زراعی ملک کی حیثیت سے شہرت رکھنے والے پاکستان میں زراعت کے شعبے کی ترقی کے لئے جہانگیر ترین کے تجربے اور مہارت سے فائدہ اٹھانا جاتا۔
آسٹریلیا ایک ترقی یافتہ ملک ہے اگر ہماری حکومتیں ذرا سی توجہ وطن عزیز میں غیرملکی سرمایہ کاری کے فروغ پر دیں تو خطیر سرمایہ اس سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یوں تو پاکستان میں جابجا ایسے مواقع موجود ہیں کہ جن سے ملکی قسمت بدلی جاسکتی ہے مگر میں یہاں صرف جنوبی پنجاب میں سرمایہ کاری کے مواقع کی بات کروں تو فن بلاشبہ آرٹ، ٹورازم، زراعت، پھل کے ساتھ کڑھائی، سوہن حلوہ سمیت لاتعداد ایسی نایاب چیزیں موجود ہیں جو پاکستان کو کثیر تعداد میں زرمبادلہ لاکر دے سکتی ہیں ویسے تو یہ مقامی انتظامیہ اور بیوروکریسی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ایسے کلچرل ایونٹس کا انعقاد باقاعدگی سے کروائیں جہاںعلا قے اپنے کلچر اور ورثے سے دوسروں کو آگاہ کیا جا سکے مگر افسوس کہ ہمارے ہاں تو مقامی انتظامیہ اور بیوروکریسی کو سیاستدانوں کی چاکری سے ہی فرصت نہیں ملتی جو وہ اپنے اپنے علاقوں کی ترقی اور خوشحالی کے لئے جامع پلان مرتب کرکے اسے اپنے اپنے Tenur میں مکمل کرانے کی سبیل کریںویسے دیکھا جائے تو قصور ان کا بھی نہیں ہے کیونکہ جب سیاسی بنیادوں پر تعیناتیاں کی جائیں گی تو معاملات کیا رخ اختیار کریں گے، کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کسی بھی شہر کے مختار کل ہوتے ہیں ان کے ذمے شہر کی ترقی اور دیکھ بھال ہوتی ہے اب کوئی ایک بھی کمشنر اور ڈپٹی کمشنر یہ بتانے کی زحمت کرے گا کہ اس نے اپنے شہر کی حقیقی ترقی کے لئے کیا کیا تو وہ کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دے پاتے۔ ملتان کے ڈپٹی کمشنر عامر خٹک کا روحانیت کے ساتھ گہرا تعلق بتایا جاتا ہے اور وہ ملتان میں اپنی تعیناتی کے اس لئے بھی شروع سے خواہش مند رہے کہ انہیں بزرگان دین کا قرب حاصل رہے گا۔ واقعی بڑی اعلیٰ اور اچھی سوچ ہے لیکن کیا خٹک صاحب نے کبھی یہ سوچا کہ اس شناخت کو عالمی سطح پر بھی تسلیم کرواکر اس شہر میں زیادہ سے زیادہ ٹورازم کو فروغ دیا جانا چاہیے۔بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کا سرائیکی ایریا ریسرچ سنٹر اپنی مثال آپ ہے یہاں پر ایک قدیم ورثہ محفوظ ہے کیا کبھی کسی ڈائریکٹر نے یہاں بین الاقوامی کانفرنس یا نمائش منعقد کروانے کی
زحمت گوارہ کی تو یہاں بھی جواب نفی میں ہی آتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل میں انہی سطور کے ذریعے وائس چانسلر کنڈی صاحب سے اپیل کرچکی ہوں کہ وہ اس سنٹر کو بین الاقوامی معیار کے مطابق لے جانے کے لئے عملی کردار ادا کریں لیکن شاید اب ان کی وائس چانسلر شپ مکمل ہونے کو ہے اور انہیں مستقبل میں اتاشی بنانے کی بھی خو ش خبری سنادی گئی ہے اسی لئے تو انہوں نے ایمرسن یونیورسٹی کے پہلے قائم مقام وائس چانسلر بننے سے بھی انکار کردیا ہے۔
اب اگر کوئی محب وطن ملکی ترقی کے لئے سنجیدہ ہے تو اس میں روڑے اٹکانے کی بجائے اس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے مگر ہمیں تو ایسے دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے ہی فرصت نہیں اور اسی لئے تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ انفرادی سطح پر اب لوگ اپنے ذرائع استعمال کررہے ہیں۔ وطن عزیز کی خدمت کا یہ جذبہ قابل ستائش ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ سب کام انفرادی سطح پر نہیں ہوسکتے اس کے لئے حکومت کو اپنے حصے کی ذمہ داریاں ضرور ادا کرنی چاہئیں۔ وزیراعظم عمران خان کا جنوری سے ملتان کا دورہ متوقع ہے لیکن اب تو فروری بھی ختم ہونے کو ہے لیکن تاحال وزیراعظم کا دورہ ملتان فائنل نہیں ہوسکا۔ وزیراعظم عمران خان جو پاکستان کے سب سے زیادہ بڑے برینڈ کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں تو اب اپنی حکومت کی آدھی سے زائد مدت مکمل کرنے کے بعد سنجیدگی سے غیرملکی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کے پرکشش مواقع کی فراہمی بارے سوچنا چاہیے اور اس ضمن میں ہر شہر کا دورہ کرکے وہاں کی انتظامیہ سے ایک جامع Presentation ضرور لینی چاہیے تاکہ شہر کی قسمت بارے کوئی بہتر فیصلہ کیا جاسکے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، جمعیت علمائے اسلام ف، جماعت اسلامی سمیت دیگر تمام سیاسی جماعتو ں کا ہے اس لئے انہیں ملکی کی ترقی کو اولین ترجیح سمجھناچاہیے اور اپنی انا کو پس پشت ڈال کر اس کی ترقی و بہتری میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ہمارے ہاں مثبت اجتماعی رویوں کا چونکہ بحران ہے اس لئے حکمران کئی سو طرح کے بحرانوں کی زد میں ہیں۔ اب ایمرسن یونیورسٹی بنانے کے فیصلے کو ہی دیکھ لیجئے، اساتذہ اورطلبا دونوں سڑکوں پر ہیں مگر کوئی ملکی بہترین مفاد میں سوچنے کے لئے تیار ہی نہیں سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔ اساتذہ Discolateہو نے سے بچنے کیلئے طلبا کو استعمال کررہے ہیں کہ فیسیں زیادہ ہوجائیں گی جو بظاہر تو بڑا خوش آئند ہے لیکن ایک تجویز یہ بھی سامنے آرہی ہے کہ اگر یونیورسٹی بننے سے فیسوں میں اضافہ ہوگا تو اساتذہ کرام کو رضاکارانہ طور پر اپنی تنخواہوں میں سے ایک فیصد طلبا کی فیسوں کے لئے ماہانہ بنیادوں پر عطیہ کرنا چاہیے جس سے نہ صرف طلبا اور والدین پر فیس کا اضافہ بوجھ پڑے گا ۔ وطن عزیز آج کرب کے حالات سے گزر رہا ہے اس کے لئے حکو مت کو جارحانہ انداز میں سوچنا چاہیے کیونکہ اسے دبائو میں لانے کی کوششیں بہت حد تک کامیاب ہوچکی ہیں اس سے پہلے کہ ہر کوئی حکومت کو بلیک میل کرنے کے لئے کھڑا ہوجائے حکومت کو معاشی ترقی کی طرف 160کی سپیڈ سے توجہ دینی چاہیے اور وزارت خارجہ کو فوری طور پر تمام ممالک کے سفیروں کو شہر کا دورہ کرنے کی دعوت دینی چاہیے اور فرداً فرداً انہیں تمام شہروں کا دورہ کروایا جائے تاکہ انہیں یہاں سرمایہ کاری کرنے میں کشش محسوس ہو تبھی جاکر ملک ترقی کرسکتا ہے کیونکہ ہرحکومت خزانہ خالی ہے کا راگ الاپتی ہے تو اس کے بعدلازماً اپنے ذرائع آمدن بڑھانے کے لئے سازگار ماحول فراہم کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے اسی لئے بہتر ہوگا کہ جہانگیر ترین اور خواجہ جلال الدین رومی پر مشتمل ایک زرعی کمیٹی تشکیل دی جو غیرملکی سرمایہ کاروں کو سرماری کاری کے لئے قائل کرے یہی وقت کی اولین ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

About The Author