اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کارونجھر، رسوئی کلا اور راما پیر||رانا محبوب اختر

کارونجھر میں ہم سورج سے پہلے جاگ گئے تھے۔یہ ایک بھاگ وند دن کا آغاز تھا۔ہم سے کچھ دور کارون جھر جبل کے گلابی پتھر مہن جو دڑو کی اینٹوں کی طرح اک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔

رانامحبوب اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کارونجھر میں ہم سورج سے پہلے جاگ گئے تھے۔یہ ایک بھاگ وند دن کا آغاز تھا۔ہم سے کچھ دور کارون جھر جبل کے گلابی پتھر مہن جو دڑو کی اینٹوں کی طرح اک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔گلابی رنگ جو لاڑکانہ میں سرخ ہو گیا ہے۔پہاڑ کا ہر پتھر اک ترشا ہوا چہرہ لگتا ہے۔کل شام ہمارے آنے سے ذرا پہلے ، سارنگ نے پتھروں کے چہرے دھو دئیے تھے۔صحرا کی ریت اور جبل کے پتھروں میں چھپے اصنام نے اشنان کیا تھا۔بارش ملتان کے دو فقیروں کے ساتھ آئی تھی۔یادوں کا ساون "لگا پڑا” تھا۔صحرا میں مور کے پروں کے رنگ تھے:
تری یادوں کی رت آئی ہوئی تھی
یہ صحرا مور کا پر لگ رہا تھا
کارون جھر کے پتھروں میں آگ ہے۔روشنی ہے۔فردوسی کے شاہنامے میں ایران کے دوسرے اساطیری بادشاہ، ہوشنگ نے پتھروں میں سرکتے سانپ کو کنکر مارا تو آگ ایک چنگاری کی صورت دریافت ہوئی تھی۔کوہِ طور پر نور کا چراغ روشن ہوا تھا۔خدا کا نور روشن چراغ ہے۔چراغ کے اندر چراغ۔ کارونجھر کے پاتال میں کوئی چراغ جلتا ہے جو پتھروں کو نور دیتا ہے!رفعت عباس اور یہ مسافر بھوڈیسر کی طرف سورج کے مقابل چلتے تھے اور صبح کا گلاب رنگ سورج جبل کا ہاتھ تھامے ہماری اور چلتا تھا۔ اب ایک جین مندر اور مسجد ہمارے سامنے تھے۔ساتھ بھوڈیسر کا تالاب تھا۔ ننگر پارکر اور قدیم پری نگر ، تھر کے صحرا، رن آف کچھ کے نمک کے وسیع میدان اور کارونجھر جبل کا سنگم ہیں۔پری نگر کی بندر گاہ سے تجارت ہوتی تھی۔جین تاجر یہاں سے دور دیسوں کو سامان بھیجتے تھے۔نگر نگر خوشحالی تھی۔ بارہویں سے پندرھویں صدی تک یہاں کئی جین مندر بنے کہ مالدار کا معبد سے رشتہ ہے۔ صدیوں تک یہ علاقہ جین مت کا مقدس مرکز تھا۔تیرھویں صدی کے وسط میں منگولوں سے مار کھا کر علاء الدین خوارزم شاہ پری نگر میں قہر بن کر آیا۔یہاں آنے سے پہلے وہ ملتان اور بھکر کو برباد کر آیا تھا۔اس کے بعد سسی کے بھنبھور کی باری تھی۔پری نگر خورازم کی تباہی کے بعد بھی کئی صدیاں آباد رہا مگر جب سمندر نے آنکھ پھیری تو تاجر اور تجارت گجرات کو ہجرت کر گئے اور معبد، مندر اور نگر، قدیم اور غریب ہو کر تاریخ کے تہ خانے میں قید ہو گئے۔سندھ کی ایک کرامت یہ ہے کہ وہ کلیم اللہ لاشاری جیسے بیٹوں کو جنم دیتا ہے۔ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری کے پاس آثارِقدیمہ، قومی ورثے اور زرخیز ماضی کو زندہ کرنے کا ہنر ہے۔کارونجھر کے تاریخی مقامات پر لگے کتبے کلیم کا کلام بن گئے تھے۔ماضی کو مستقبل سے جوڑنے کے کام کو آگے بڑھا کر کلیم اللہ لاشاری نے سالہا سال سندھ کی ثقافتی نشاتہِ ثانیہ کے لئے دیوانہ وار کام کیا ہے۔اس کے تحقیقی اور علمی کام پر مگر ایک دفتر درکار ہے۔
بھوڈیسر مندر اور مسجد سے ذرا دورسمادھی پر ایک مور بیٹھا تھا۔مور وہاں بے جا براجمان نہ تھا!سمادھی کے اندر سانس دسویں دوار پر چڑھائے ایک بے نام مقامی آدمی تھا۔ اس کا سوچ کر میری آنکھوں میں اک طوفان امڈتا تھا اور میں اپنے اندر ایک گلیشئر کو پگھلنے سے روکتا تھا۔سورج بلند ہو رہا تھا۔ہم نے بھوڈیسر چوک میں ایک خوب صورت سندھی کے ہاتھ سے بنے آملیٹ اور اچار کے ساتھ پراٹھے کھائے اور اپنے رب کی نعمتوں کا گن گن کر شکر ادا کیا مگر کارونجھر خدا کی نعمتوں کا شمار نہ تھا۔جنگ ِآزادی میں بھوڈیسر کے راجے کی مقامیوں سے بے وفائی یاد تھی ۔مگر روپلو کی وفا ، سمادھی پہ بیٹھے مور، مندر اور مسجد کی جدلیات، کارونجھر کی "گلابیت”اور ننگر پارکر کی قوسِ قزح کے سامنے سب بے وفائیاں گہنا گئی تھیں!
بھوڈیسر چوک پہ معراج خان گاڑی لے کر آ گئے۔وہاں سے واپس گیسٹ ہاوس پہنچ کر شتابی سے شیو اور شاور کر امام علی جھانجھی اور رفعت عباس کے ساتھ ہم ننگر پارکر روانہ ہو گئے۔کارونجھر پہاڑ کے دامن میں ننگر پارکر کا نگر آباد ہے۔یہ سندھ کا روشن شہر یا سری نگر ہے۔مختصر سا بازار سڑک کے دونوں طرف آباد ہے۔بازار میں ایک ریستوران پر چائے پینے کو بیٹھ گئے۔ شہر کو بولتے اور چلتے دیکھتے رہے۔شہر کی آوازوں اور چال میں کوہسار کا اسرار تھا۔امام علی جھانجھی کے دوستوں فقیر نواز علی، سید خادم علی شاہ اور پروفیسر مکیش راجہ سے بارش میں بھیگی ملاقات ہوئی۔وہ سب پیار سے بولتے اور مکیش راجہ کھل کر ہنستے تھے۔شاعری ہمارے ساتھ سفر میں تھی۔سندھ میں اس وقت لگ بھگ دس ہزار سے زیادہ شاعر ہیں۔کاسبو سے دیو جی آ گئے تھے۔سانولا دیو جی درمیانے قد کا نفیس نوجوان ہے۔سندھ میں مہمان نوازی، کلاہے اور دیو جی مہمان نوازی کا دیو جی ہے۔چہرے پر مسکراہٹ سجائے وہ ہردم ہر کس و ناکس کی خدمت کرتا رہتا ہے۔مسافروں کا دلبر ہے۔ننگر پارکر سے کاسبو کے راستے میں لاہور کی ایک خاتون کا ریستوران تھا۔ان کی پنج ستارہ چائے پی کر ہم کاسبو کے نرالے قصبے میں آئے تھے۔دیو جی کے گھر کھانا تھا۔ مثالی شاکاہاری یا vegetarianکھانے کا لطف آگیا تھا۔تہزیب پکوان کی زبان بولتی ہے۔ کھانوں پر جین ازم کا اثر ہے۔ سندھی رسوئی تین قسم کی ہے۔خاصا رسوئی خواص کی ہے، دیسی رسوئی،عام لوگوں کی ہے اور اس کے علاوہ ماڈرن انگریزی کھانے بھی مقبول ہیں۔دیو جی کی رسوئی ماس کے بغیر، دیسی رسوئی ہے مگر یہ کسی طور”گھاس رسوئی”نہیں ہے۔ پکوان سمفنی کی صورت دہن سے کلام کرتے ہیں۔باریک کٹی ہوئی دیسی بھنڈی لیڈی فنگرز سے بہتر سبزی تھی۔صحرائی کھمبیوں میں عجب ” چس” تھی۔لسی میں بنی کڑی یعنی "کھاٹیا” ، کاچری اور خود رو جنگلی کریلوں کے ذائقے اب تک دہن میں ہیں۔مونگ کی دال نے ذائقہ ملتان سے چرایا تھا۔دہی کی کڑی میں سنگری یا کنڈی اور چھبڑ ملے ہوئے تھے۔کنڈی ، تھر کا امرت ہے۔یہ ریگستان کا راجہ اور مہا نائیک پیڑ ہے۔پارکری میں یہ "باوریا” یا ” دیوی”اور سندھی میں کنڈی ہے۔ہمارے ہاں یہ جنڈ ہے اور اسی سے جنڈا پیر ہے۔مارواڑی اسے Kalpatruیا مرادیں پوری کرنے والا درخت کہتے ہیں اور ایک غریب اور مسافر کی کھانے سے بڑی مراد کیا ہو سکتی ہے!تازہ چھبڑ کی ترشی میں نشہ تھا۔ڈورا یا ڈھیلے کا اچار بسیار خوری کی دف مارنے کو موجود تھا۔سندھ وادی میں اچار چار ہزار سال سے بنتا ہے۔ سفید رنگ کا میٹھا اور حیات بخش پیاز اس علاقے کی سوغات ہے۔بھینس کا سفید مکھن ، گائے کا پیلا مکھن، دہی اور کارون جھر کا شہد دستر خوان پر سجے تھے۔اور اس پر مستزاد باجرے کی روٹی تھی۔دو ہزار سال پہلے باجرہ افریقہ سے آیا اور ریگستان کا ٹھنڈی تاثیر والا قوت بخش اناج ہے۔1543میں شیر شاہ سوری مارواڑ کے راجہ مالدیو سے یدھ لڑتا تھا۔راجپوت راٹھوروں کی طاقت ان کی بہادری کے علاوہ باجرے اور باٹی میں تھی۔ماوراڑ موت کی سرزمین ہے جہاں باجرے سے زندگی چلتی ہے۔شیر شاہ سوری نے تب یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ ایک مٹھی باجرے کے لئے میں نے ہندوستان کا تخت کھو دیا تھا۔دیو جی کی رسوئی ، ذائقے اور ورائٹی کے اعتبار سے راجوں کی ماس رسوئی سے بہتر تھی!
راما پیر کی سمادھی پہ پہنچے تو داخلی دروازے کے ساتھ یوسف فقیر کی گائیکی کا پڑاو تھا۔ مانگن ہار، نابینا یوسف فقیر،دلوں کا راجہ ہے۔ایک درخت کے گھنے سائے میں مستی میں گاتا تھا۔راما پیر بابا کا نام رام دیو تھا۔وہ چودھویں صدی میں راجستھان کے حکمران تھے اور دن رات غریبوں کی خدمت کرتے تھے۔خدمت کی کرامت سے وہ امر ہوئے تھے۔روایت یہ ہے کہ رام کا امتحان لینے مکے سے پانچ پیر آئے۔بابا نے انھیں خوش آمدید کہا اور کھانا پیش کیا جس پر پانچ پیروں نے کہا کہ وہ اپنے برتنوں میں ہی کھانا کھاتے ہیں۔راما پیر نے مسکرا کر کہا کہ وہ دیکھو آپ کے برتن آ رہے ہیں۔اس پر مسلمان پیروں نے انھیں راما شاہ کا خطاب دیا اور وہیں کے ہو رہے اور ان کی قبریں راما پیر کی سمادھی میں بنی ہیں۔پوکھران سے دس کلو میٹر دور راجستھان میں یہ سمادھی ہے۔راجستھان، سندھ،گجرات،ہریانہ، ہنجاب ،مدھیا پردیش اور دلی میں ان کے آستانے ہیں۔ہندو مسلم سکھ عیسائی سب وہاں جاتے ہیں کہ غریبوں کی خدمت سے ملنے والا فیض روایتی عقیدوں کی سرحدوں سے ماورا ہے۔کارونجھر جبل نے دماغ ، رسوئی نے بدن،یوسف فقیر نے سماعت اور راما پیر کی کتھا نے دل روشن کر دیا تھا اور سمادھی سے تھوڑی دور نندی بیل، نٹ راج اور مور ایک جگہ جمع تھے۔ موتی گر نام کا ایک بابا ہمارا منتظر تھا!

یہ بھی پڑھیے:

امر روپلو کولہی، کارونجھر کا سورما (1)۔۔۔رانا محبوب اختر

محبت آپ کی میز پر تازہ روٹی ہے۔۔۔رانا محبوب اختر

عمر کوٹ (تھر)وچ محبوبیں دا میلہ۔۔۔ رانا محبوب اختر

ماروی کا عمر کوٹ یا اَمرکوٹ!۔۔۔رانامحبوب اختر

%d bloggers like this: