مئی 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تماشا گروں کا جنگل||ملک عاصم ڈوگر

نیوز میڈیا منیجرز روزانہ کی بنیاد پراس ہیجان کو بڑھانے کے نئے طریقوں پرغور کے عادی ہوچکے ہیں۔ دوسری کلاس کا تعلق نیوز چینلز پرہونیوالے سیاسی ٹاک شوزسے ہے

ملک عاصم ڈوگر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم بطور پاکستانی صرف ٹی وی اوراخبارات کی حدتک سیاسی رہ گئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی جدتوں نے سیاست کو گلی،کوچے،تھڑوں اور میدانوں سے نکال کر اسے ٹی وی پر ہونیوالے سیاسی مباحثوں اور اخبارات میں چھپے بیانات تک محدود کر دیا ہے۔ اب مزید آسانی ہوگئی ہے۔ ہمارے ہاتھوں میں ہروقت موجود انٹرنیٹ والا فون اور اس میں موجود سوشل میڈیا ایپس ہمیں ہرخبر، بیان اور واقعے سے آگاہ کر دیتے ہیں۔

پچھلی ڈیڑھ دہائی سے ٹی وی کے شعبہ خبر اور تجزیئے سے جڑے ہونے کی وجہ سیاسی تبدیلی کو ہوتے دیکھ رہا ہوں۔ اس کا ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کی حیثیت سے اسکے سوسائٹی پر اثرات کا مشاہدہ بھی جاری ہے۔ پرائیویٹ چینلز سے قبل پی ٹی وی پر 9 بجے خبرنامے کے بعد ٹی وی کی گنجائش ختم ہوجاتی تھی۔ اسکی جگہ موسم کے حساب سے بیٹھکوں ، ڈیروں یا تھڑوں پر سیاسی گپ شب کا رواج عام تھا۔ لوگ مختلف ذرائع سے حاصل اپنی اپنی معلومات کے مطابق مقامی ، قومی اور بین الاقوامی امور پرگفتگو کرتے تھے۔

ان بیٹھکوں کے ساتھ ہر علاقے کا اپنا کلچر اور روایات بھی جڑی ہوئی تھیں۔ باہمی احترام اور برداشت گفتگو کا بنیادی جزو رہتے تھے۔ پرویز مشرف کے دور میں پرائیویٹ ٹی وی چینلز کو اجازت ملنے کے بعد تیز رپورٹنگ اور سب سے پہلے خبر کا کلچر متعارف کرایا گیا۔ دوسرا شام 8 بجے سے 10 تک سیاسی مباحثوں نے جگہ لی۔ یہ ایک ایسی تبدیلی تھی جس نے ہمارے ہاں سوچنے، سجھنے اور دیکھنے کے انداز کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔ تیزتر معلومات اورخبروں کی ترسیل، تجزیوں اور تبصروں کی وجہ سے ہم نے خود سوچنا چھوڑ دیا۔ وہ لوگ جو خود گفتگو کے شرکاء تھے محض سامعین اور ناظرین بن کر رہ گئے۔ اس سارے عمل نے عام آدمی کی نظام سے متعلق سوچ کو بہت متاثر کیا ہے۔ خبروں کا بڑا حصہ سیاسی رپورٹنگ پر مشتمل ہوتا ہے۔

جس کیلئے خبر کی مکمل گہرائی کی سمجھ، پوری اور درست ۔ معلومات، متعلقہ شعبے کا علم ہونا ضروری ہوتا ہے۔ خبر سامنے آنے کے بعد اس میں مزید تحقیق، وقت اور وسائل بھی درکار ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں نیوز چینلز کی اٹھان سب پہلے، تیز تر، سب آگے وغیرہ پر رکھی گئی اس لئے مکمل اور درست خبر کی جگہ صرف بریکنگ نیوز ہی بڑا کریڈٹ بن گیا ہے۔ اب اگر آپ کسی بھی چینل کو آن کریں توخبر سے جڑے حقائق ، پالیسیز اور آئیڈیا کو چھوڑ کر واقعہ نویسی کو مکمل خبر کے طور پر پیش جا رہا ہے۔ اس عمل میں بھی سنسنی خیزی کو فوقیت دی جاتی ہے۔

نیوز میڈیا منیجرز روزانہ کی بنیاد پراس ہیجان کو بڑھانے کے نئے طریقوں پرغور کے عادی ہوچکے ہیں۔ دوسری کلاس کا تعلق نیوز چینلز پرہونیوالے سیاسی ٹاک شوزسے ہے۔ ہمارے ہاں شو کرنیوالے اکثر افراد فیلڈ رپورٹنگ کا تجربہ ہی نہیں رکھتے لیکن پھر بھی سینئر جرنلسٹ کہلاتے ہیں۔ رئیل جرنلزم ان کا موضوع کار ہی نہیں۔ وہ پہلے سے موجود سیاسی پوزیشننگ میں کسی ایک پر براجمان ہیں۔ موجودہ دور میں یہ تقسیم کافی واضح ہوچکی ہے۔

اب لوگ ٹی وی سوئچ آن کرتے ہوئے اپنی پسندیدہ پارٹی اینکر کا شو دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ ٹاک شوز میں ہونیوالی مباحث کا کلچر، زبان اور عدم برداشت نے ہمارے سیاسی کلچر کودو طرح سے متاثر کیا ہے۔ لوگوں نے ایک دوسرے سے سیاسی گفتگو کرنا بند کردی۔ دوسرا خود سے سوچنا بند کردیا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ ملک میں عوامی سیاسی ڈائیلاگ معدوم ہوگیا ہے۔

دوسرا غیرمحسوس انداز میں دوسروں کو نظریات اور دلائل ہمارے ذہنوں کا حصہ بن رہے ہیں جس کا حتمی نتیجہ عدم برداشت اور مفادپرستی کی صورت میں آرہا ہے۔ اچھا ٹی وی ٹاک شو اسے سمجھا جاتا ہے جس میں زیادہ بحث ہو۔ بات تکرار سے تو تکار اور ہاتھاپائی تک جاپہنچے۔ اس رات شو کے اینکر اور پروڈیوسر کو بڑی اچھی ریٹنگ ملنے کی امید ہوتی ہے۔ یوں میڈیا کا بنیادی فکر تماشاگری میں منتقل ہوگیا ہے۔ اب سرمایہ دارانہ نظام کے طاقت کے اس کھیل میں میڈیا ایک کھلاڑی بن گیا ہے۔

ٹی وی مالکان، سینئر اینکرز، سیاستدان، بزنس ایلیٹ اوراعلیٰ افسران کے درمیان دوستانہ تعلقات اور ملاقاتیں ڈھکی چھپی باتیں نہیں رہیں۔ اہم سرکلز میں سب جانتے ہیں کہ کون کہاں سے آکسیجن لیتا ہے۔ اس سارے منظرنامے میں ملک کے عوام جو کہ اصل ہیں۔ جن کیلئے اداروں میں بیٹھے افراد نے پالیسیز تشکیل دینا ہے۔ انکے مسائل کو حل کرنا ہے۔ میڈیا نے ان افراد سے سوال کرنا ہے کہ عوام کے یہ مسائل کب اور کیسے حل ہونگے؟

لیکن پاور پلیئرکی حیثیت سے سوال کرنا اپنے مفادات کو زد میں لانے کے مترادف ہے۔ سینئر اینکرز اور جرنلسٹ کی یہ کلاس اپنے تئیں گمان رکھتی ہے کہ وہ ساری دنیا کے مسائل کا ادراک رکھتے ہیں۔ بلکہ وہ ان تمام مسائل زدہ افراد کی نمائندگی بھی کرتے ہیں۔ ان اینکرز کی بڑے بڑے بل بورڈز اور ہورڈنگز پر لگی تصاویر، چیختے، چلاتے اور چنگھاڑتے پروموز کا مقصد صرف ریٹنگ کی دوڑ میں سب سے آگے رہنا ہے۔ ان کا اپنا لائف سٹائل کسی طرح بھی ایک عام جرنلسٹ جیسا نہیں ہے۔ میڈیا میں اب انہی کرداروں کا غلبہ ہے۔

اگلامیدان پنجاب۔۔۔ ملک عاصم ڈوگر

’’بد زبانی‘‘ کا کلچر ۔۔۔ ملک عاصم ڈوگر

بچوں کے وزیر اعظم ۔۔۔ ملک عاصم ڈوگر

میڈیا اور وراثتی سیاست کا گلیمر۔۔۔ ملک عاصم ڈوگر

 

%d bloggers like this: