حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماڈل ٹائون بی بہاولپور سے محمد فرید حسین لکھتے ہیں ’’شاہ جی! شکر ہے آپ نے دوبارہ سے وسیب کے اخبار میں کالم لکھنا شروع کردیا۔ ایک قاری کے طور پر میں محسوس کرتا ہوں کہ آپ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ مذہب بیزار ہوتے جارہے ہیں۔ کوئی خاص وجہ ہے یا الحاد کے فیشن کے زیراثر ہیں؟
سرائیکی قومی تحریک پر آپ کے حالیہ کالم پڑھے بہت تفصیل کے ساتھ آپ نے تاریخ اور موجودہ دور کے حوالے سے لکھا مگر مجھے شکوہ ہے کہ آپ نے اپنے کالموں میں سرائیکی تحریک کی دو اہم شخصیات ریاض ہاشمی ایڈووکیٹ مرحوم اور سیٹھ عبیدالرحمن مرحوم کی خدمات اور جدوجہد کا اس طرح ذکر نہیں کیا جس ذکر کے یہ مرحوم بزرگ حقدار تھے۔
امید کرتا ہوں ان بزرگوں کی جدوجہد اور خدمات پر بھی آپ کا قلم رواں ہوگا تاکہ نئی نسل ان بزرگوں سے روشناس ہو جنہوں نے بہاولپور صوبہ تحریک کو قومی تحریک میں بدلنے کے لئے سرائیکی صوبہ محاذ کی بنیاد رکھی تھی۔
آگے چل کر فرید حسین لکھتے ہیں ’’صوفیائے کرامؒ کے اقوال والے کالم ہی آپ سے تعارف کا ذریعہ بنے تھے۔ 20سال قبل اس موضوع پر آپ کی کتاب ’’پورا سچ‘‘ پڑھی تھی کئی سالوں بعد جب آپ نے ملتان کے ایک اخبار میں کالم لکھنا شروع کیا تو خوشی ہوئی زیادہ خوشی اس بات پر ہوئی کہ ہمیں یہ پتہ چلا کہ آپ سرائیکی ہیں ملتان سے تعلق ہے آپ مختلف موضوعات پر لکھتے ہیں میری درخواست بس یہی ہے کہ صوفیائے کرام و اولیائے کرام کے اقوال پر بھی کالم ہفتہ میں ایک دن ضرور لکھا کریں۔ دوئم یہ کہ سرائیکی تحریک پر بھی مسلسل لکھتے رہیں اس کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ آپ کے کالم وسیب میں آباد طبقات کو جوڑتے ہیں‘‘۔
جواباً میں یہی عرض کرسکتا ہوں کہ
’’غم روزگار نصف صدی سے شہر شہر لئے پھرا۔ قبل ازیںملتان کے ایک اخبار میں چھ سات سال کالم لکھا اس کی دعوت محب مکرم امتیاز احمد گھمن نے دی تھی انہوں نے ہی مجھے میرے وسیب میں متعارف کروایا وہ اس اخبار سے الگ ہوئے تو مزید لکھنا اس لئے اچھا نہ لگا کہ جب دوست ہی ادارہ چھوڑ گئے تو ہم کیوں منسلک رہیں‘‘۔
’’بدلتا زمانہ‘‘ کی اشاعت کے لئے تیاریوں کے مرحلہ میں امتیاز احمد گھمن اور ملک محمد اکمل وینس نے حق تعلق پر آواز دی ہم نے لبیک کہا۔ سرائیکی تحریک کا نیا موڑ کے عنوان سے لکھے گئے کالموں سے قبل متعدد مواقع پر جناب ریاض ہاشمی اور سیٹھ عبیدالرحمن مرحوم و مغفور کی جدوجہد، خدمات اور بہاولپور صوبہ تحریک کو سرائیکی صوبہ محاذ میں تبدیل کرنے پر تفصیل سے لکھ چکا۔ اس موضوع پر پھر عرض کروں گا یقیناً یہ بہت ضروری ہے۔ صوفیائے کرامؒ اور اولیائے عظامؒ کے اقوال کی مدد سے کالم اب بھی گاہے گاہے لکھتا رہتا ہوں کوشش کروں گا اس کے لئے ہفتہ میں ایک دن مخصوص کردوں۔
مذہب بیزار نہیں ہوں البتہ مذہب و عقیدے کو فرد کا ذاتی معاملہ سمجھتا ہوں یہی پچھلے 47برسوں سے عرض کررہا ہوں۔ عقیدوں کو تلواریں بناکر گردنیں اتارنے اور فتوئوں کے شوقین حضرات سے بھی یہی عرض کرتا رہتا ہوں کہ ’’اگر آپ کا مذہب اور عقیدہ انسانی دوستی کی تعلیم نہیں دیتا تو پورا سچ تلاش کیجئے نہ کہ دوسروں کی گردنیں مارنے کے شوق کو مذہب و عقیدے کے طور پر پیش کیجئے۔
دوسرا خط وہوا سے ملک مختار احمد کا ہے۔
ملک مختار احمد درمیانے درجہ کے ٹھیکیدار ہیں انہوں نے تھانہ وہوا کی زیرتعمیر بلڈنگ میں منصوبہ کے ایک حصے کا ٹھیکہ لیا تھا 10اکتوبر 2020ء کو زیرتعمیر تھانہ کی حدود سے ان کی کنسٹرکشن کمپنی کا 40لاکھ مالیتی سامان چوری کرلیا گیا۔ بھاگ دوڑ منتوں ترلوں اور سفارشوں کے بعد3نومبر 2020ء ان کا مقدمہ درج ہوا۔ پچھلے چار ماہ سے وہ چوری شدہ سامان برآمد کرنے کے لئے دربدر ہیں۔
وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب تک کو شکایات بھجواچکے۔ پولیس افسران فرماتے ہیں برآمدگی عدالت کروائے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔ ملک مختار احمد کے بقول یہی موقف اے ایس پی کا بھی ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک ملزم رحمت اللہ کو پولیس نے گرفتار کیا اور برآمدگی کے بغیر جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوادیا
جبکہ مقامی پولیس جانتی ہے کہ ملزم رحمت اللہ نے تفتیشی افسران کی موجودگی میں تعمیراتی سامان واپس کرنے کے لئے 10لاکھ روپے تاوان مانگا تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ 40لاکھ روپے کا تعمیراتی سامان (مشینری وغیرہ) وہوا تھانے کی چاردیواری کے اندر سے چوری ہوا اور مدعی چار ماہ سے دربدر ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب تفتیشی افسروں کے سامنے گرفتار ملزم نے 10لاکھ روپے تاوان مانگا تو اس کی گردن ناپ کر برآمدگی کروانے کی بجائے پولیس نے اسے جوڈیشل ریمانڈ پر کیوں بھجوادیا؟
پولیس حکام کا مدعی کو یہ کہنا کہ برآمدگی عدالت کروائے گی بھلا قانون کی کس کتاب میں لکھا ہے۔ اندراج مقدمہ کے بعد تفتیش اور برآمدگی پولیس کی ذمہ داری ہے عدالت نے دستیاب شواہد پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ پولیس میں سے ہی ’’کچھ‘‘ لوگ ملزم سے ملے ہوئے ہوں اور وہ اپنے حصہ دار کے لئے رعایت کے طلبگار ہوں؟ بہرطور ڈی پی او ڈیرہ غازی خان، تونسہ تحصیل پولیس سربراہ اور خود وہوا تھانہ کے ذمہ داروں کو مدعی ملک مختار احمد کی دادرسی کرنی چاہیے۔
اچھاویسے تھانے کی بلڈنگ سے 10اکتوبر کی شب جب سامان چوری ہوا تو کیا تھانہ کا ساراعملہ طبی رخصت پر تھا یا پھر چوروں کو تحفظ فراہم کرنے میں مصروف؟ ملک مختار احمد کی دادرسی آخر کس نے کرنی ہے کوئی تو یہ بات بھی اس مدعی کو سمجھائے تاکہ اسے اپنا 40لاکھ روپے کا سامان اور مشینری واپس ملے یا پھر وہ مستقل فاتحہ پڑھ لے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر