اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اعتراضات و سوالات اور جواب۔۔۔حیدر جاوید سید

مکرر عرض ہے کہ اعتراٗض کرنے والے جیالے دوست چاروں کالم پڑھ لیں تاکہ انہیں رائے دینے میں آسانی ہو۔ اسی طور یہ بھی حقیقت ہے اپنے کالموں اور ’’پگ دا پُرب‘‘ کٹھ، میں جو گفتگو کی اس کے ایک ایک لفظ کی ذمہ داری بھی ہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سرائیکی قومی تحریک کا نیا موڑ کے ’’عنوان‘‘ سے لکھے گئے حالیہ کالموں پر پیپلزپارٹی کے دوست اپنی جگہ ناراض ہیں اور کچھ قوم پرست اپنی جگہ۔
پی پی پی کے دوستوں کا موقف ہے کہ
’’جب قوم پرست ہمارے لیڈروں کو منہ بھر کے گالیاں دیتے ہیں تو انہیں کوئی سمجھانے نہیں آتا ہم جواب دیں تو آپ سمیت بہت سارے دوست سفید جھنڈا لہراتے نکل آتے ہیں‘‘۔ میں عرض کروں اولاً تو میں نے ایک خاص معاملے میں پی پی پی کے نوجوانوں کے سخت موقف پر تنقید کی کیونکہ میری دانست میں یہ رویہ درست نہیں تھا۔
البتہ میں اس بات پر قائم ہوں کہ پی پی پی سرائیکی وسیب کے لوگوں کا آخری مورچہ نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی وفاق کی سیاست کرتی ہے اس کے باوجود اس نے سرائیکی وسیب کے لئے جتنا کچھ کیاوہ نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ماضی میں جب کبھی بھی قوم پرست دوستوں میں سے بعض نے پیپلزپارٹی کے خلاف عامیانہ زبان استعمال کی تو اس پر گرفت کرتے ہوئے ان سے بھی عرض کیا کہ سیاست میں رواداری ہوتی ہے نفرت نہیں۔ گالم گلوچ کوئی بھی کرے وہ پیپلزپارٹی کی خدمت کرتا ہے نہ قوم پرست سیاست کی۔
پیپلزپارٹی کے دوستوں کواس لئے بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہیے کہ وہ ایک ایسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں جس کی جدوجہد نصف صدی پر پھیلی ہوئی ہے اس کے لیڈروں اور کاکنوں نے اس جدوجہد کے دوران قربانیاں بھی دیں۔
ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں کا فرض معاشرے کے تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے۔ ثانیاً یہ کہ جس معاملے پر سوشل میڈیا پر سرائیکی وسیب کے اہل دانش اور شاعروں کے خلاف مہم چلائی گئی اور جو زبان استعمال کی گئی اس سے یہی تاثر ابھرا کہ جیسے پیپلزپارٹی یہ سمجھتی ہے کہ سرائیکی ہر فیصلہ اس سے پوچھ کر کریں اور یہ کہ اگر پہلے یہ فیصلہ صادرکردیں تو سرائیکی صرف آمین کہیں۔
یہ سیاسی کارکنوں کا رویہ نہیں ایسی باتوں سے دوریاں بڑھتی ہیں۔
مکرر عرض ہے کہ اعتراٗض کرنے والے جیالے دوست چاروں کالم پڑھ لیں تاکہ انہیں رائے دینے میں آسانی ہو۔ اسی طور یہ بھی حقیقت ہے اپنے کالموں اور ’’پگ دا پُرب‘‘ کٹھ، میں جو گفتگو کی اس کے ایک ایک لفظ کی ذمہ داری بھی ہے۔
خلا میں میزائل پھینک کر پروگرام نہیں بلکہ زمینی حقائق اور لوگوں کے رویوں کی بنیاد پر معروضات پیش کیں۔
چند قوم پرست دوستوں (ان میں دو تین ذاتی دوست بھی شامل ہیں) نے بھی اٹھائے گئے بعض نکات سے اختلاف کیا۔ کچھ نے یہ بھی کہا گیا کہ تحریر نویس نے اگر پیپلزپارٹی کی حمایت کرنا ہے تو قوم پرستی چھوڑدیں۔
قوم پرستی نہ ہوئی "صدیقی کی ہٹی "ہوگئی کہ قوم پرست جذبات اور خیالات رکھنے والا کسی سیاسی جماعت کی حمایت نہیں کرسکتا۔
بنیادی طور پر یہ تھانیداروں والا رویہ غلط ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ تحریر نویس لیڈر ہونے کا دعویدار ہے نہ کسی پارٹی کا عہدہ دار۔ وہ پگ کہاں جسے اتارنے کا حکم صادر کیا گیا اور پہنائی کب تھی؟
یہ کہا گیا کہ اگر ووٹ پیپلزپارٹی کو ہی دینا ہے تو اس (پیپلزپارٹی) سے کہو۔ آو بیٹھو معاہدہ کرو اگر ووٹ لینے ہیں۔
اچھا ایک ووٹر اپنی پسند و ناپسند پر ووٹ دیتا ہے۔ معاہدے سیاسی جماعتوں کے درمیان ہوتے ہیں یہ فرض سرائیکی قوم پرست جماعتوں کا ہے۔
سوال بھی ان سے ہونا چاہیے کہ پچھلے انتخابات میں جس جس قوم پرست جماعت نے جس وفاقی جماعت کی حمایت کی اس سے تحریری معاہدہ کیا، کیا تو وہ معاہدہ کہاں ہے؟
ناگوار نہ گزرے تو یہ عرض کروں ابھی قوم پرست جماعتیں اپنی عوامی مقبولیت کی اس معراج تک نہیں پہنچ پائیں کہ وفاقی سیاست کرنے والی سیاسی جماعتیں انکے حضور حاضر ہوں اور کسی انتخابی معاہدہ کی تحریر لکھیں۔
اس سیاسی کمزوری کا علاج قوم پرست دوستوں کو خود تلاش کرنا ہوگا۔ منظم جدوجہداور رائے عامہ کو متحرک کرکے ہی قوم پرست سیاسی طور پر اس مقام کو حاصل کرسکتے ہیں کہ دیگر جماعتیں ان سے تائید کی طلبگار ہوں۔ سیاسی اتحاد بنتے ہیں یا پریشر گروپس سے سیاسی جماعتیں تعاون حاصل کرتی ہیں دونوں صورتوں میں بہرطور پر تحریری معاہدے ہوتے ہیں۔
سرائیکی قومی تحریک میں سرگرم سیاسی قائدین کو ٹھنڈے دل سے تجزیہ کرناہوگاکہ صوبہ کا مطالبہ وسیب کی اجتماعی آواز ہے لیکن عوام ان کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں؟
صرف یہ کہہ دینا کہ لوگ پیر پرست ہیں۔ وسیب میں جاگیرداری ہے۔ اشرافیہ کے طبقات عوام پر حاوی ہیں درست نہیں۔
قومی تحریک طبقاتی تحریک نہیں ہوتی قومی تحریک میں معاشرے کے تمام طبقات شامل ہوتے ہیں۔
سرائیکی قوم پرستوں کو سوچناہوگاکہ ان کی تحریک مقبول عوامی نعرے (صوبہ بناو) کے باوجود سرائیکی وسیب کے تمام طبقات کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب کیوں نہیں ہوئی۔
گو پچھلے کالموں میں ان نکات پر تفصیل سے عرض کرچکا پھربھی یہ عرض کئے دیتا ہوں قومی تحریک بنیادی طور پر بائیں بازو کی تحریک ہوتی ہے لیکن دائیں بازو کے اعتدال پسند بھی اسے اپنی آواز سمجھتے ہیں۔
سرائیکی صوبہ کی تحریک صرف صوبہ بناو تحریک نہیں بلکہ سرائیکی قومی تحریک بھی ہے۔
یہی سمجھنے کی ضرورت ہے ہمارے اکثر قوم پرست دوست قومی تحریک اور طبقاتی جدوجہد کو گڈمڈ کردیتے ہیں جس سے تلخیاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔
حرفِ آخر یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے دوست بھی اپنی سیاست کریں انہیں قوم پرستوں سے ا ختلاف ہے تو مکالمے کی راہ اپنائیں یہ عدم برداشت سے زیادہ اہم ہے۔ مکالمہ ہوگا تو دونوں ایک دوسرے کے موقف کو سمجھ بھی پائیں گے اور اس سے باہمی تعاون کے راستے بھی نکلیں گے۔
نوٹ: اس موضوع پر یہ آخری کالم ہے البتہ اگر قوم پرست یا پیپلزپارٹی کے دوست اپنی رائے لکھنا چاہیں تو ان کی آراء کو کالم میں شامل کرلیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: