اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملتان ، مفتی قوی ،سوہن حلوہ ،مکس سبزی اور کرپشن ۔۔۔ شکیل نتکانی

مفتی صاحب جن خواتین کو سوہن حلوہ دیتے ہیں ان کو کہتے ہیں کہ تھوڑا سا سوہن حلوہ لے کر اپنی زبان پر رکھیں اور انہیں اپنی زبان باہر نکال کر دکھائیں اور جونہی وہ حلوہ زبان پر رکھ کر زبان باہر نکالتی ہیں وہ حلوہ ان کے منہ میں گھل چکا ہوتا ہے

شکیل نتکانی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نارتھ پول یعنی قطب شمالی میں سورج سال میں صرف ایک بار اکیس مارچ کو طلوع ہوتا ہے اور صرف ایک بار اکیس ستمبر کو غروب ہوتا ہے یعنی وہاں چھ ماہ کا دن اور چھ ماہ کی رات ہوتی ہے۔ مجھے ملتان کا سوہن حلوہ بہت پسند ہے۔
ملتان میں مختلف اقسام کا سوہن حلوہ بنایا جاتا ہے حلوہ ملتان کا نہ بھی ہو تب بھی پسند ہے مفت کا ہو تو لذت دوبالا ہو جاتی ہے مفتی قوی کا گھرانہ بھی سوہن حلوہ تیار کرتا ہے اور ایسے بھی خوش نصیب ہیں جن کو مفتی صاحب سوہن حلوہ تحفتاً دیتے ہیں خاص طور پر خواتین کو سوہن حلوہ تحفے میں دیکر ان کو بے حد خوشی ہوتی ہے جو بیان سے باہر ہے۔
مفتی صاحب جن خواتین کو سوہن حلوہ دیتے ہیں ان کو کہتے ہیں کہ تھوڑا سا سوہن حلوہ لے کر اپنی زبان پر رکھیں اور انہیں اپنی زبان باہر نکال کر دکھائیں اور جونہی وہ حلوہ زبان پر رکھ کر زبان باہر نکالتی ہیں وہ حلوہ ان کے منہ میں گھل چکا ہوتا ہے اور مفتی صاحب انہیں دوبارہ حلوہ زبان پر رکھنے اور زبان دکھانے کا کہتے ہیں یوں سارا حلوہ ختم ہو جاتا ہے اور خواتین مفتی صاحب سے مزید حلوے کی فرمائش کرتی ہیں اور مفتی صاحب ان کی فرمائش نہیں ٹال سکتے اور مزید حلوے کا وعدہ کر لیتے ہیں کہ جب ملتان سے اگلی بار اسلام آباد آئیں گے تو ان کے لئے پھر سے سوہن حلوہ لیتےآئیں گے۔
ملتان بھی عجیب شہر ہے اس میں گھر ہیں، محلے ہیں، گلیاں اور بازار ہیں سڑکیں بھی ہیں اور گھروں میں لوگ رہتے ہیں گھروں سے محلے بنے ہوئے ہیں ملتانی گلیوں سے ہوتے ہوئے بازاروں میں آ جاتے ہیں وہاں سے اپنی ضروریات کی چیزیں خریدتے ہیں۔
ملتان میں ہر طرح کے بازار ہیں بازاروں میں ضرورت کی پر چیز ملتی ہے سبزی لینے جائیں تو آلو، پیاز، گوبھی، سبز مرچ، لیمن، کدو، شملہ مرچ، بینگن، ساگ، پالک، مٹر، گاجر، بھنڈی، توری غرض ہر موسم کے حساب سے ہر سبزی دستیاب ہوتی ہے۔ ویسے بھنڈی اور توری بھی عجیب سبزیاں ہیں دونوں ساتھ ساتھ آتی اور بولی جاتی ہیں پہلے بھنڈی بولا جاتا ہے پھر توری، بھنڈی توری، کیا آہنگ ہے، کیا بنت ہے دونوں لفظوں کی، بولنے میں ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم لیکن بدنصیبی بھی دیکھتے جائیں بھنڈی اور توری کو آپس میں مکس کر کے نہیں پکایا جاتا بھنڈی الگ پکائی جاتی ہے اور توری الگ۔
مجھے ہمیشہ اس بات سے چڑ رہی ہے میں جب بھی ملتان سے اپنے گاؤں جاتا تھا تو اپنی اماں سے ضرور کہتا کہ مجھے بھنڈی توری مکس کر کے پکا کر دیں اور اماں جوتا اتار لیتی تھیں کہ یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ بھنڈی توری کو مکس پکانا میری ضد بن گئی، انیس سو اٹھاسی میں جب بے نظیر بھٹو پہلی دفعہ وزیراعظم بنی تو اس کی کابینہ میں میرے بہت سے دوست وزیر بن گئے ایک لمبی فہرست ہے ۔
بے نظیر ہفتے میں دو چار بار خود فون کر کے مجھ سے پوچھ لیتی تھیں کہ اسے حکومت کیسے چلانی چاہیے اور میں اسے صرف دو مشورے دیتا تھا پہلا یہ کہ ملک میں کرپشن بہت بڑھ گئی ہے اس کو کنڑول کرے دوسرا آصف زرداری سے خود کو دور کر لے وہ مجھے رو رو کر بتاتی تھی کہ وہ بے بس ہے ایک دن ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن پر مجھے بہت غصہ آیا اور میں نے اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کو اپنے ایک وفاقی سیکریٹری دوست کے ذریعے پیغام بھجوایا کہ ملک میں کرپشن کس قدر بڑھ گئی ہے اور آپ ساوی پی کر سوئے ہوئے ہو ۔
بس پھر کیا تھا بے نظیر حکومت کو چلتا کر دیا گیا بے نظیر کے اس دور حکومت کے بہت سارے تاریک پہلو ہوں گے لیکن اس کا سب سے تاریک پہلو یہ تھا کہ بے نظیر کے اس پہلے دور حکومت میں، میں بھنڈی توری مکس سبزی نہ کھا سکا اگرچہ میرے بہت سارے دوست وزیر بھی تھے اور وفاقی اور صوبائی سیکریٹری بھی۔
ہوا کچھ یوں تھا کہ فارس نام کا میرا ایک دوست تھا میں اس کے گھر کے اوپر والے پورشن میں رہتا تھا فارس کے گھر میں اس کے ساتھ اس کے ماں باپ، بہن بھائی بھی رہتے تھے۔ ساتھ تو فارس کے گھر کے سامنے گھر میں رہنے والے عارف کے اہل خانہ بھی رہتے تھے، عارف، اس کے بہن بھائی، ماں باپ یہاں تک کہ اس کا چچا چچی بھی ایک ساتھ ایک گھر میں رہتے تھے میں یہ سب دیکھ کر حیران ہوتا تھا کہ یہ لوگ ساتھ کیسے رہ رہے ہیں
میں نے تھوڑی سی کوشش کی اور عارف کے والد نے اپنے بھائی اور بھاوج کو گھر سے نکال دیا وہ لوگ وہ محلہ بھی چھوڑ کر چلے گئے کہاں چلے گئے یہ نہیں پتہ لیکن مجھے خوشی بہت ہوئی فارس کے گھر کے دائیں جانب بھی ایک گھر تھا اور بائیں جانب بھی سامنے بھی گھر تھا اور حیران کن طور پر پیچھے بھی۔
پھر گلی کی نکڑ تک گھروں کی لائینیں۔ ایسا ہی عارف کے گھر کا نقشہ بھی تھا۔ ہر گھر میں داخل ہونے کا ایک دروازہ تھا اور لوگ اپنے اپنے گھروں میں بلا روک ٹوک آتے جاتے تھے لیکن ایک دوسرے کے گھر دروازہ کھٹکھٹا کر پوچھ کر جاتے تھے۔
یہاں اسلام آباد آ کر مجھے پتہ چلا کہ ایسا صرف ملتان میں نہیں ہوتا بلکہ پاکستان کے ہر شہر میں ہوتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ پاکستان میں کرپشن بہت بڑھ گئی ہے۔
کرپشن پر لکھنے بیٹھوں تو مہ و سال تو کیا صدیاں بیت جائیں اس لئے میں بھنڈی توری پر واپس آتا ہوں۔ ایک دن میں گھر سے باہر نکل کر گلی میں کھڑا تھا۔ محلے کے بچے، بوڑھے، جوان، عورتیں آ جا رہی تھیں کچھ کچھ عورتوں کے مجھے نام اب تک یاد ہیں لیکن ہمارے مشرقی معاشرے میں عورتوں خاص طور پر ہمسایہ عورتوں کے نام لینے کو معیوب سمجھا جاتا ہے اس لئے صرف بچوں بوڑھوں اور جوانوں کے نام آپ کو بتاتا چلوں بچوں میں جو چند نام مجھے اچھی طرح سے یاد ہیں ان میں عباس، حیدر، ذوالفقار، انجم، احمد، فیاض، رحمان، دانش، ذوالقرنین، زبیر، شوکت، رحیم، جاوید، شفیق، ظفر، اسلم، اشرف، ظہیر، زاہد، مظہر، شریف، انجم، شیراز وغیرہ وغیرہ۔ جوانوں اور بوڑھوں میں غلام رسول، صبغت اللہ، کریم بخش، رمضان قادر، قادر بخش، رحیم بخش، آصف گلیانی، تنبو شاہ، بشیر بے حال، منور عباس منور، فقیر محمد، رحمت اللہ، عبدالسلام، عزیز اللہ، تصدق بخاری، زاہد شاہ، مٹھو شاہ، گیڑو شاہ، غلام محمد، مرتضیٰ حمید، ظہور حسین، امام بخش اور بہت سارے دیگر لوگ جن کے نام تو مجھے یاد ہیں لیکن کالم کی طوالت سے بچنے کے لئے ان لوگوں کے نام اگلے کالم میں لکھ دوں گا
اس لئے ان سے گزارش ہے وہ مجھ سے ناراض نہ ہوں۔ یہ سب لوگ گزر رہے تھے میں فارس کا منتظر تھا اس کو اس کی اماں نے سبزی منڈی، سبزی لینے کے لیے بھیجا تھا اور جب وہ گھر سے سائیکل لے کر نکل رہا تھا تو میں نے اسے اللہ، رسول اور قرآن پاک کا واسطہ دیا کہ بھنڈی توری ضرور لیتے آنا میں نے دور سے فارس کو آتے دیکھا وہ سائیکل چلا کر نہیں گھسیٹ کر لا رہا تھا میری آنکھیں کیمرے کی طرح اس تھیلے کو ڈھونڈھ رہی تھیں جس میں وہ سبزی لا رہا تھا تھیلا بند تھا میں شدت سے اس کے پاس آنے کا انتظار کرنے لگا۔
مجھے لگا اس کی رفتار بہت کم ہے میں نے گنتی گننا شروع کر دی۔ ایک، دو، تین، چار، پانچ، چھ، سات،آٹھ، نو، دس، گیارہ، بارہ، تیرہ، چودہ، پندرہ، سولہ، سترہ، اٹھارہ، انیس, بیس، اکیس، بائیس، تئیس، چوبیس، پچیس۔ مجھ سے مزید گنتی نہیں گنی گئی، میں نے اے، بی، سی پڑھنا شروع کر دیا ڈبلیو، ایکس، وائی، زیڈ پر آ کر اے بی سی ختم ہو گئی۔ مجھے انگریزی زبان کی تنگ دامنی پر بہت ترس آیا۔ اب میں نے الف ب پ کو پڑھنا شروع کر دیا لیکن ک گ پر جا کر رک گیا اور باقی کے حروف تہجی شرم کی وجہ سے نہیں پڑھے۔
خدا خدا کر کے فارس میرے پاس پہنچ گیا وہ پسینے سے شرابور تھا اس کا سائیکل پنکچر ہو چکا تھا اس نے جلدی سے سائیکل کو سٹینڈ پر کھڑا کیا اور تھیلہ اتارتے ہی سائیکل میرے حوالے کر کے کہا کہ شیدے سائیکل والے کے پاس جاؤ اور پنکچر لگواؤ تب تک میں آتا ہوں۔ وہ سائیکل مجھے دے رہا تھا اس خوشی میں، میں اس سے یہ پوچھنا بھی بھول گیا کہ بھنڈی توری بھی لایا ہے کہ نہیں یہ بات اب اتنے سالوں بعد مجھے یاد آئی ہے لیکن آج کل میری فارس سے بول چال بند ہے اس لئے اس سے نہیں پوچھ سکتا کہ اس دن وہ بھنڈی توری کیوں نہیں لایا تھا ہاں آپ کو ایک بات بتا سکتا ہوں کرپشن پیپلز پارٹی اور لیگ پر ختم ہے ملک میں جتنی کرپشن ہے اس میں سے 99.99 فیصد کرپشن آصف زرداری نے کی ہے جبکہ 0.1 فیصد کرپشن نواز شریف نے کی ہے ملک اس لئے ترقی نہیں کر رہا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے کرپشن کے ریکارڈ بنائے ہیں سب چور ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: