مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قبروں میں نہیں ہم کو کتابوں میں اتارو۔۔۔ اشفاق نمیر

گورچ فوک کہتے ہیں کہ اچھی کتابیں وہ نہیں جوچہماری بھوک کو ختم کر دیں بلکہ اچھی کتابیں وہ ہیں جو ہماری بھوک کو بڑھا دیں وہ بھوک زندگی کو جاننے کی بھوک ہے

اشفاق نمیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں کہ کتب کے معنی ہے چمڑے کے دو ٹکڑوں کو سی کر ایک دوسرے کے ساتھ ملا دینا دوسرے لفظوں میں اس کے معنی ہیں بعض حروف کو لکھ کر بعض دوسرے حروف کے ساتھ ملانا اور کبھی صرف ان ملاۓ ہوۓ حروف پر بھی کتاب کا اطلاق ہوتا ہے اپنے وسیع تر مفہوم میں ہر وہ تحریر جو کسی شکل میں محفوظ کی گئی ہو کتاب کہلاتی ہے گویا مٹی کی تختیاں، پیپروں کے رول اور ہڈیاں جن پر تحریر محفوظ ہے کتاب کہلاۓ گی یہ چمڑے یا جھلی پر بھی ہو گی اور کاغذ پر بھی ہو سکتی ہے سائنس کی ترقی کی بدولت کتاب صرف کاغذ پر چھپی تحریر ہی نہیں ہو سکتی بلکہ اب کتاب ای بک کی شکل اختیار کر کے ڈیجیٹل ہو چکی ہے کتابوں کے شوقین کو اور زیادہ پڑھنے والے کو کتابوں کا رسیا یا کتابوں کا کیڑا کہا جاتا ہے فرانسس بیکن کہتا ہے کہ کچھ کتابوں کو چکھا جانا چاہیے کچھ کتابوں کو نگلنا چاہیے اور کچھ کتابوں کو چبا کر کھانا چاہیے کتابوں کا انتخاب اہل دانش اپنے حالات اور اپنی مرضی کے مطابق کرتے ہیں

جہاں کتابیں دنیا کو بدلتی ہیں وہیں کچھ کتابیں دنیا کو گمراہ بھی کرتی ہیں دنیا میں تین مفکروں کی لکھی کتابیں ایسی ہیں جنہوں نے دنیا کو نقشہ بدل دیا اور لوگوں کے نظریات اور خیالات کو یکسر بدل کر رکھ دیا اور لوگوں کو ایک نئی سمت میں سوچنے پر مجبور کر دیا ان مفکروں میں چارلس ڈارون (Charles Darwin) کی کتاب اوریجن آف سپیشیز (Origion of Species) ہے جو 1859 میں چھاپی گئی اس کتاب نے انسانی ارتقاء کے بارے میں سائنسی ثبوت دے کر تخلیق کے نظریے کو یکسر بدل کے رکھ دیا اس کتاب کے بعد کائنات اور انسان کا مطالعہ سائنسی بنیادوں پر کیا جانے لگا سائنس دان اب کائنات اور انسان کے ارتقائی عمل پر تحقیق کر رہا ہے اس کتاب نے مفروضوں کی زنجیروں کو توڑ کے رکھ دیا ڈارون کا ہی ایک ہم عصر کارل مارکس (Karl Marx) اور اس کے ساتھی اینگلز (Engles) نے 1848 میں کمیونسٹ مینی فیسٹو (Manifesto) لکھی اس کے بعد کارل مارکس نے ڈاس کیپٹل (Das Capital) لکھی ان دو کتابوں نے تاریخ، معیشت، فلسفے اور سیاسیات کے نئے دروازے کھولے ان کتابوں نے وہ نظریات دیے جس سے دنیا بھر میں کسانوں اور سوسائی کی پیچیدگیوں کو سمجھنے میں مدد ملی اور دنیا میں انقلاب کا سبب بنی تیسرا اہم شخص سگمنڈ فرائڈ (Sigmand Freud) ہے جس نے انسان کی نفسیاتی اور ذہنی کیفیت کو بے نقاب کیا

اس کے بر عکس گوبینو نے 1852 میں کتاب ” An Essay on the Inequality of the Human‘‘ لکھی جس میں گوبینو نے سفید اقوام کو برتر ثابت کیا اور کہا کہ وہ غیر یورپی اقوام پر حکومت کریں دوسری طرف انگلستان کے فلسفی ہربرٹ سپنسر (Herbert Spencer) نے سوشل ڈارون ازم (Social Darwinism) کے تحت سروائی ول آف دی فٹیسٹ survival of fittest کے تحت یہ دلیل دی کہ طاقتور قوموں کو زندہ رہنے کا حق ہے اور کمزور قوموں کی قسمت میں مرنا ہے ہربرٹ سپنسر ریاست کو فلاحی بنانے کا مخالف تھا ایڈولف ہٹلر نے 1925ء میں اپنی کتاب ”Mein Kampf“ لکھی جس میں نسل پرستی کی باز گشت گونجتی ہوئی نظر آتی ہے جس کا عملی نمونہ ہٹلر نے 1933 میں برسر اقتدار آ کر اپنے خیالات کو حقیقت کا روپ دیا یہودیوں اور خانہ بدوشوں کا قتل عام کیا آیا تو اس

نے اپنے نسل پرستانہ خیالات کو عملی جامہ پہناتے ہوئے یہودیوں اور خانہ بدوشوں کا قتل عام کیا

گورچ فوک کہتے ہیں کہ اچھی کتابیں وہ نہیں جوچہماری بھوک کو ختم کر دیں بلکہ اچھی کتابیں وہ ہیں جو ہماری بھوک کو بڑھا دیں وہ بھوک زندگی کو جاننے کی بھوک ہے ایک چینی کہاوت ہے کہ جب آدمی 10 کتابیں پڑھتا ہے تو وہ 10 ہزار میل کا سفر کر لیتا ہے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں فی کس اوسطاً 6 پیسے سالانہ کتاب کے لیے خرچ کرتے ہیں اور اکثر بعد میں ردی میں بیچ کر اس کا پتیسہ کھا لیتے ہیں ملٹن نے کہا تھا کہ اچھی کتاب کا گلا گھونٹنا ایسا ہی ہے جیسا کسی انسان کا گلا گھونٹنا ہے ملٹن کی مراد یہ ہے کہ فضول کتابوں کے پڑھنے میں وقت ضائع کرنا اچھی کتابوں کا گلا گھونٹنا ہے

یہ بھی پڑھیں:

چچا سام اور سامراج۔۔۔ اشفاق نمیر

جمہوریت کو آزاد کرو۔۔۔ اشفاق نمیر

طعنہ عورت کو کیوں دیا جاتا ہے۔۔۔ اشفاق نمیر

مائیں دواؤں سے کہاں ٹھیک ہوتی ہیں۔۔۔ اشفاق نمیر

بچوں کے جنسی استحصال میں خاموشی جرم۔۔۔ اشفاق نمیر

 

%d bloggers like this: